یہ دو ہزار کی دہائی نہیں


دو ہزار اٹھارہ کے انتخابات کے بعد مولانا فضل الرحمن اسمبلیوں سے رکنیت کا حلف لینے کے ہی خلاف تھے۔ انتخابات کے بارے ان کا موقف تھا کہ یہ جھرلو اور فراڈ ہیں جن میں تاریخ ساز دھاندلی ہوئی ہے اور عوام کے حق رائے دہی پر ڈاکا ڈالا گیا ہے۔ لہذا اپوزیشن کو چاہیے وہ اس جعلی اسمبلی کا حصہ نہ بنے اور از سر نو صاف و شفاف الیکشن کے مطالبے میں ان کے شانہ بشانہ کھڑی ہو۔ دیگر اپوزیشن حماعتیں لیکن ان کے موقف پر قائل نہ ہوئیں اور پھر جے یو آئی کو بھی بادل نخواستہ سسٹم کا حصہ بننا پڑا۔

اس کے بعد بھی مولانا آرام سے نہیں بیٹھے بلکہ انہوں نے بقول ان کے جعلی مینڈیٹ کی حامل حکومت کو ٹف ٹائم دینے کی خاطر سیاسی و عوامی دونوں محاذوں پر کاوش جاری رکھی۔ اس مقصد کے لیے انہوں نے گزشتہ عرصہ میں پورے پاکستان کے دورے کیے۔ اپنے کارکنوں کو سرگرم کیا۔ اپنی جماعت کو فعال بنایا۔ حکومت کی خراب کارکردگی اور الیکشن میں ہونے والے دھاندلی کے حوالے سے مختلف بڑے شہروں میں لاکھوں کے اجتماعات سے خطاب کیا۔ گزشتہ سال اٹھائیس جولائی کو جے یو آئی نے اس سلسلے کا آخری جلسہ کوئٹہ میں کیا جہاں مولانا صاحب نے اپنے کارکنوں سے خطاب میں جلد ایک ملک گیر بڑی احتجاجی تحریک شروع کرنے کا اعلان کیا۔ جس کے بعد وہ ایک بڑا مارچ لے کر چلے اور اسلام آباد پہنچ کر چند دن تک انہوں نے دھرنا بھی دیا۔

لیکن سیاسی محاذ پر مولانا صاحب کو اس دھرنے سے کوئی قابل ذکر کامیابی اس وجہ سے نہیں حاصل ہوئی کیونکہ اپوزیشن کی سب سے بڑی جماعت مسلم لیگ ن مولانا صاحب کی ہمراہی کے بارے گومگو اور تذبذب کی کیفیت میں ہی رہی۔ جبکہ پیپلز پارٹی نے تو واضح طور پر کہہ دیا تھا کہ وہ مولانا کے احتجاج کی زبانی کلامی حمایت کے علاوہ عملاً کوئی حصہ نہیں ڈالے گی۔ پیپلز پارٹی کی طرف سے اپنے اس عمل کا یہ جواز پیش کیا گیا کہ چونکہ مولانا صاحب اپنی تحریک میں مذہب کارڈ کو بھرپور استعمال کر رہے ہیں، اور پیپلز پارٹی سیاست میں مذہب کارڈ کے استعمال کی مخالف ہے لہذا وہ ان کی تحریک کا عملاً حصہ نہیں بنی گی۔

مولانا صاحب مگر بضد رہے کہ کوئی دوسرا ان کے قافلے میں بیشک شریک ہو نہ ہو وہ اکیلے ہی جانب منزل نکلیں گے۔ منزل کے متعلق وہ بتا چکے تھے کہ حکومت گرانا ان کا مقصد ہے۔ لیکن چند روز اسلام آباد میں پڑاؤ ڈالنے کے بعد انہوں نے گجرات کے چوہدریوں سے ملاقات کرکے اپنے پلان بی اور سی پر عملدرآمد کا کہہ کر اچانک دھرنا لپیٹ دیا۔ اس ملاقات میں کیا باتیں ہوئیں دونوں فریق اسے امانت کہہ کر چھپاتے رہے۔ مولانا صاحب کو تو اس دھرنے سے کچھ حاصل نہ ہوا لیکن اس کے فوراً بعد ن لیگ کی قیادت کو ریلیف ملنا شروع ہو گیا۔ بظاہر تو ریلیف کی ابتدا سپریم کورٹ کے حکم پر پارلیمنٹ کے دونوں ایوانوں سے ریکارڈ ساز عجلت میں منظور ہونے والے قانون سے ہوئی لیکن اس میں بڑا کردار مولانا کے دھرنے کا بھی تھا۔

اسی دوران کوٹ لکھپت جیل میں قید میاں نواز شریف کو حراست میں لینے کے لیے نیب نے یہ کہہ کر کہ نواز شریف کے چوہدری شوگر مل کیس میں بینی فشری ہونے کے شواہد ملے ہیں، احتساب عدالت میں نواز شریف کو تحقیقات کے بہانے حراست میں لینے کے لیے درخواست دائر کر دی۔ حیرت انگیز طور پر نیب کو اس کی اجازت بھی فوراً مل گئی۔ لیکن پھر اچانک نیب کی تحویل میں ہی میاں نواز شریف کی طبیعت تشویشناک حد تک خراب ہو گئی اور انہیں ہنگامی بنیادوں پر ہسپتال منتقل کرنا پڑا۔

میاں صاحب کی طبیعت زیادہ بگڑی تو انہیں طبی بنیادوں پر عدالت سے ضمانت مل گئی جس کے بعد وہ بیرون ملک روانہ ہو گئے۔ بیرون ملک پہنچتے ہی نہ صرف میاں صاحب نے خود چپ سادھ لی بلکہ ان کی دختر کا ٹویٹر اکاؤنٹ بھی مکمل غیر فعال ہو گیا۔ اس وقت سے لے کر چند دن پہلے تک راوی چین ہی چین لکھ رہا تھا کہ پیپلز پارٹی کی میزبانی میں اپوزیشن کی اے پی سی کا انعقاد ہوا جس میں میاں صاحب نے خود فرمائش کرکے خطاب بھی کر دیا۔

اس اے پی سی میں پہلی بار تمام اپوزیشن جارحانہ موڈ میں نظر آئی ہے۔ اے پی سی میں ”پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ“ کے نام سے اپوزیشن جماعتوں کا اتحاد بنانے کا فیصلہ کیا گیا جو حکومت کے خلاف مرحلہ وار تحریک چلائے گا۔ اس احتجاج کے پہلے مرحلے میں چاروں صوبوں میں مشترکہ جلسے اور ریلیاں منعقد کی جائیں گی اور اس سلسلے کا پہلا جلسہ گیارہ اکتوبر کو کوئٹہ میں ہوگا۔ دوسرے مرحلے میں دسمبر سے احتجاجی مظاہرے اور ملک گیر احتجاج کیا جائے گا۔

نئے سال کے آغاز میں اسلام آباد کی جانب لانگ مارچ بھی پروگرام میں شامل ہے اس کے علاوہ بھی پارلیمنٹ کے اندر اور باہر تمام آپشن بروئے کار لانے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔ جبکہ استعفوں کا آپشن جس کی وجہ سے فی الفور نظام لپیٹا جا سکتا ہے مولانا صاحب اس پر اصرار ہی کرتے رہ گئے لیکن اسے سب سے آخر میں رکھا گیا اور اس کے لیے بھی فیصلہ کیا گیا ہے کہ ایک مشترکہ کمیٹی بنائی جائے گی جو اس متعلق حکمت عملی وضع کرے گی۔ اے پی سی کے آخر میں مولانا فضل الرحمن نے 26 نکاتی اعلامیہ بھی پڑھ کر سنایا جس میں ملک میں شفاف آزادانہ اور غیر جانبدارانہ انتخابات کرانے کا مطالبہ بھی کیا گیا۔

اس کانفرنس کی خاص بات مگر میاں نواز شریف کی تقریر تھی جس میں وہ ایک عرصہ بعد اسٹیبلشمنٹ کے خلاف کھل کر بولے۔ اس کشتیاں جلاتی تقریر میں انہوں نے یہاں تک کہہ دیا کہ ان کی جنگ عمران خان کے خلاف نہیں بلکہ ان کے لانے والوں کے خلاف ہے۔ کچھ لوگ ان کی اس تقریر کو گزشتہ دنوں ہوئی ناکام ملاقاتوں سے جوڑ رہے ہیں۔ کہا جا رہا ہے ان دو ناکام ملاقاتوں میں میاں صاحب کے ”نمائندے“ پر واضح کر دیا گیا تھا کہ نواز شریف کو مزید ریلیف کسی صورت نہیں مل سکتا اور ان کے قانونی مسائل عدالتوں میں اور سیاسی مسائل پارلیمنٹ میں ہی حل ہوں گے۔

اسی باعث نواز شریف نے مایوس ہو کر دباؤ بڑھانے اور ریلیف حاصل کرنے کے لیے یہ تقریر داغ دی۔ اے پی سی کے فوراً بعد مگر شہباز شریف صاحب کی گرفتاری سے نظر آ رہا ہے کہ شریف فیملی کے لیے مستقبل قریب میں کسی ریلیف کا کوئی امکان نہیں رہا۔ خود نواز شریف بھی بچے نہیں جو یہ جان نہ پائیں کہ ان کے منہ سے ادا ہوئے الفاظ کے کیا مضمرات ہوں گے۔ لہذا بظاہر تو یہی لگتا ہے کہ وہ اب مکمل اپوزیشن کے موڈ میں ہیں لیکن اگر اب بھی کسی ڈیل یا ڈھیل کی تمنا ان کے دل میں ہے تو وہ جان لیں کہ یہ دو ہزار کی دہائی نہیں کہ اتنی آسانی سے لوگوں کو بیوقوف بنانا ممکن ہو گا اب عوام میں سیاسی شعور بہت بیدار ہو چکا ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).