مکافات عمل


صدیقی صاحب آپ ہمیں خوش کرتے رہے ہم آپ کو خوش کرتے رہیں گے۔ عاصم صاحب نے فون پر گفتگو کرتے ہوئے کہا۔

عاصم صاحب کا شمار شہر کے معزز لوگوں میں ہوتا تھا اللہ نے انھیں دولت، اولاد دونوں کی نعمت سے نوازا تھا۔ دو جوان بیٹے ان کے مضبوط بازو تھے۔ ․

یہ حسن اور فریحہ کہاں ہیں؟ عاصم صاحب نے بیگم رونق سے کھانے کی میز پر بیٹھتے ہوئے پوچھا۔ میاں صاحب دونوں کی نئی نئی شادی ہے دل میں کچھ آرمان ہیں باہر گھومنے پھرنے گئے ہیں۔ ویسے کچھ زیادہ ہی نیک دل ساس نہیں ہیں آپ؟ ساس نہیں ماں ہوں مجھے توصرف اپنے بیٹے کی خوشی عزیز ہے وہ خوش میں خوش۔ یعنی ساس آپ بھی روایتی ہے۔ ساسیں ہوتی ہی روایتی ہے میاں صاحب۔ اب آپ کھانا کھالیں ایک تو اللہ کا دیا سب کچھ ہے مگر مجال ہے جو آپ نے خانساماں رکھ دیا ہو زندگی کھانے پکانے میں گزار دی۔ بیگم رونق نے شکوہ کیا۔ اب آپ جیسا کھانا کوئی پکا ہی نہیں سکتا اس میں میرا کیا قصور۔ اچھا! بس بس زیادہ نہیں کھانا کھائیے۔

٭ ٭ ٭

مجھے تو ڈر ہی لگ رہا تھا کہ کہیں امی منع نہ کردیں مگر شکرہے ایسا نہیں ہوا۔ فریحہ نے آئس کریم کھاتے ہوئے کہا۔ اب میری امی اتنی بھی سخت دل کی مالک نہیں کہ منع کردیتی۔ محبت ہے انھیں ہم سے ہماری خوشیوں کا خیال ہے۔

میں بہو ہوں۔ یار پلیز! فریحہ میں اس وقت تمھارے ساتھ اچھا وقت گزارنے آیا ہوں ناکہ بحث میں الجھنے۔ گجرے لے لو صاحب کتنے کے ہیں؟ سو کی جوڑی۔ ہاں دے دو۔ حسن نے پیسے نکال کر دیتے ہوئے کہا۔ لوٹ لیا آپ کو۔ سو کے گجرے؟

آج کے زمانے میں سو روپے ہوتے کیا ہیں؟ ایٹس اوکے۔
اسی طرح عادتیں بگڑ تی ہیں ان لوگوں کی۔
اب بس کردو لاؤ ہاتھ دو گجرے پہنا دوں۔ فریحہ نے ہاتھ آگے کیا اور حسن نے اسے گجرے پہنا دیے۔
٭ ٭ ٭

پاپا وہ فاروق صاحب کو کب تک مال پہنچانا ہے؟ حسن سے چھوٹا آیاز کاروباری معاملات کو کئی گنا اچھے طریقے سے ہینڈل کرلیتا تھا جس کی وجہ سے عاصم صاحب اسے زیادہ عزیز رکھتے تھے مہینہ کی بیس تاریخ تک۔ انھوں نے جواب دیا۔ چلیں ٹھیک ہے۔

اچھا وہ میں کہہ رہا تھا میں آج فیکٹری سے جلدی نکلنا چاہ رہا تھا۔ کیوں؟ بھئی خیریت تو ہے؟ پاپا شک تو مت کیا کریں رضوان سے ملنا ہے اسنوکر کھیلنے جانے کا موڈ ہے۔ چلو چلے جاؤ مگر یہ روز روز نہیں چلے گا۔ جانتا ہوں پاپا۔ چلیں چلتا ہوں۔

٭ ٭ ٭
یہ حسن کہاں ہے؟ اپنے کمرے میں ہے۔ رونق بیگم نے جواب دیا۔
اس کا کب تک چھٹیاں منانے کا ارادہ ہے؟ کھانے پر آئے گا خود پوچھ لیجیے گا۔

فریحہ بیٹا حسن کھانا نہیں کھائے گا؟ عاصم صاحب نے کمرے سے اکیلے باہر نکلتی فریحہ سے پوچھا۔ پاپا ان کی صبح سے طبیعت خراب ہے بخار اور جسم میں درد بھی بتا رہے تھے میں نے دوائی دی ہے سو گئے ہیں۔ ہائے میرے بچہ کی طبیعت خراب ہے اور تم نے بتایا بھی نہیں بیگ رونق ایسے چلائی جیسے ان کا کلیجہ منہ کو آ گیا ہو۔

بہو بتا تو رہی ہے کہ دوائی دی ہے سو گیا ہے تمھیں چھوٹی چھوٹی باتوں پر شور مچانے کا شوق ہے۔ آپ کو کیا پتا بچہ کے پاؤں میں کانٹا چبھے درد ماں کو ہوتا ہے میرا بچہ بخار میں ہے اور مجھے ہی نہیں پتا۔

یہ کہتی ہوئی بیگم رونق حسن کے کمرے میں چلی گئی۔

پاپا میں صبح سے ان کا خیال رکھ رہی تھی کچھ کھایا پیا نہیں میں کھانا کھالوں۔ ہاں! ہاں! بیٹا کھالو۔ امی کچھ کہینگی تو نہیں۔ ارے بیٹا ساس کی باتوں کو ایک کان سے سنو اور دوسرے کان سے نکال دو سمجھی آؤ کھانا کھاتے ہیں۔ یہ کہتے ہوئے کھانے کی میز پر سسر بہو کھانا کھانے بیٹھ گئے۔

امی امی! ابو ابو! آیاز کہاں ہیں سب؟ رات کے بارہ بجے فریحہ کی آواز لاؤنج میں گونج رہی تھی۔
یا اللہ خیر کہتے ہوئے عاصم صاحب، رونق بیگم اپنے کمرے سے باہر نکلے کیا ہوا بیٹا؟ امی امی! وہ حسن۔
کیا ہوا حسن کو؟ وہ بہت کپکپارہے ہیں کسی بات کا جواب نہیں دے رہے۔
ایاز ایاز کمرے سے باہر آؤ۔ جی جی ابو گاڑی نکالو بھائی کو ہسپتال لے کر جانا ہے۔
بیٹا سب ٹھیک ہوگا اتنی پریشان نہ ہو عاصم صاحب نے فریحہ کو حوصلہ دیتے ہوئے کہا۔
٭ ٭ ٭

دیکھیے آپ لوگ دعا کریں کوئی معجزہ ہو جائے مریض کا بچنا بہت مشکل ہے۔ آپ ایسے کیسے کہہ سکتے ہیں؟ ان کی طبیعت بالکل ٹھیک تھی ہلکا سا بخار ہی تو تھا تو ایسے کیسے۔

فریحہ نے خود پر ضبط کرتے ہوئے کہا۔ کیا آپ نے انھیں کوئی دوائی دی تھی؟ ہاں دی تھی۔ کون سی ؟ panadol ہی دی تھی۔

لگتا ہے گبھراہٹ میں آپ نے کوئی اور دوائی دے دی panadol کا اتنا خراب ریکشن ہو ہی نہیں سکتا کہ جسم میں زہریلے مادے پھیل جائیں ناممکن۔

ڈاکٹر صاحب panadol ہی تھی۔

پھر میں کچھ نہیں کہہ سکتا ہو سکتا ہے expired ہو یا پھر جعلی۔ آپ دعا کریں۔ یہ کہتے ہوئے ڈاکٹر آپریشن تھیٹر کی طرف بڑھ گئے۔

امی، پاپا

بیٹا کچھ نہیں ہوگا ہمت سے کام لو یہ کہتے ہوئے عاصم صاحب نے فریحہ کو گلے لگا لیا۔ وہ یہ سب کر تو رہے تھے مگر کوئی ان سے پوچھتا کہ اس وقت ان کی کیا حالت ہے؟ وہ کیا سوچ رہے ہیں، کس کیفیت سے گزر رہے ہیں تو جواب ان کے پاس نہیں ہوتا۔

٭ ٭

عاصم پیسہ بنانا بھی فن ہے اور یہ فن قسمت والوں کو ملتا ہے ہر کسی کے نصیب میں نہیں ہوتا اور تم نے نہیں سنا کہ اس میں آپ کا کوئی قصور نہیں کہ آپ غریب پیدا ہوئے مگر یہ آپ کا قصور ہے کہ آپ غریب مریں اور دیکھو اپنا مفاد سب کو عزیز ہوتا ہے آج کی دنیا میں دوسروں کی فکر کرنا فضول ہے اور میں ہوں نہ تمھارے ساتھ۔ فیروز نے کاروبار کے لیے عاصم کو راضی کرتے ہوئے کہا۔

٭ ٭ ٭
I am sorry he is no more ڈاکٹر نے آپریشن تھیٹر سے نکلتے ہوئے کہا۔ نہیں ایسا نہیں ہو سکتا ۔ امی امی

فریحہ نے پکارا۔ پیچھے ہٹو تمھاری وجہ سے میرا بیٹا دنیا سے چلا گیا میرا جوان جہاں بیٹا یہ کہتے ہوئے رونق بیگم آپریشن تھیٹر کی طرف بڑھی جہاں سے اسٹریچر پر حسن کی لاش باہر آئی تھی۔ حسن حسن۔ خبردار جو تم قریب آئی رونق بیگم نے چیختے ہوئے فریحہ کو کہا۔ عاصم صاحب صرف بیٹے کو ٹکر ٹکر دیکھ رہے تھے۔

٭ ٭ ٭

ٓابھی کل ہی کی تو بات لگتی تھی جب انھوں نے اپنے بیٹوں کے مستقبل کے لیے جعلی ادوایات کی خریدوفروخت کا کام شروع کیا تھا خوب پیسہ کمایاتھا بیٹوں کو پڑھایا لکھایا سب کیا بیٹے بڑے ہوئے تو اسی کام کی کمائی سے فیکٹریاں ڈلوادی اور آج ان کا بیٹا چل بسا اور ڈاکٹروں کا کہنا تھا کہ یہ دوائی کا اثر ہے۔ کیا ان کا حساب اس دنیا میں ہی ہوگیا تھا انھوں نے ماؤں کی گودیں اجاڑی تھی۔ آج ان کے بازو کا بے جان جسم ان کی نظروں کے سامنے پڑا ہو ا تھا اور وہ سوائے ماتم کرنے کے کچھ نہیں کر سکتے تھے مکافات عمل کسے کہتے ہیں آج انھیں پتا چل گیا تھا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).