گلگت اہم کیوں ہے؟


ہندو کش میں جارج ہائیورڈ کے قتل سے پہلے مغرب میں پامیر اور واخان کے بارے میں زیادہ معلومات نہیں تھیں۔ اس مشکل اور دشوار گزار علاقے میں جی۔ ڈبلیو لیٹنر ( 1866 ء) کا دعویٰ تھا کہ اس سے پہلے مغرب سے کوئی نہیں پہنچا تھا۔ یہ لیٹنر ہی تھا جس نے رائل جیوگرافک سوسائٹی کو اس علاقے کی جیو پولٹیکل اہمیت سے آگاہ کیا اور جارج ہائیورڈ کے سفر ( 1870 ء) کا موجب بنا۔ جارج کے قتل کے بعد انگریز اور مہاراجہ کشمیر نے مل کر نلت نگر کی جنگ ( 1891 ء) لڑی اور اس علاقے پر قبضہ کیا۔

گو کہ انگریزوں نے 1846 ء میں مہاراجہ کشمیر گلاب سنگھ کے ساتھ طے پائے معاہدے میں اس پورے خطے کو بھی کشمیر کا حصہ بنا کر پچھہتر لاکھ روپیہ (نانک شاہی) کے عوض بیچ دیا تھا مگر جب وہ خود اس علاقے میں داخل ہوئے تو معلوم ہوا کہ یہ ان کی سب سے بڑی غلطی تھی۔ انگریزوں نے اپنی غلطی کی تلافی کرکے موجودہ گلگت سب ڈویژن بشمول، ہنزہ نگر، پونیال، گوپس، یاسین اور چلاس کو مہاراجہ کشمیر سے واپس لے کر براہ راست انتظام سنبھال لیا۔

انگریزوں نے مہاراجہ کشمیر کی فوج کو بونجی ( این ایل آئی کا موجودہ ہیڈ کوارٹر) تک محدود رکھا اور اپنی عمل داری کے علاقوں کے تحفظ کے لئے ایک مقامی فوج گلگت سکاؤٹس کا قیام عمل میں لایا جس کی کمان وہ براہ راست خود ہی کرتے تھے۔ ان علاقوں کی نگرانی براہ راست دہلی سے ہوتی تھی مہا راجہ کشمیر کو صرف اقدامات کی اطلاع دی جاتی تھی یا مشاورت کی جاتی تھی۔

1947 ء میں جب انگریز ہندوستان سے جا رہے تھے تو ایشیاء کے حالات بالکل بدل چکے تھے۔ شمالی امریکہ اور یورپ سے وسطی ایشیاء تک پھیلا دنیا کا سے بڑا ملک سویت یونین وجود میں آ چکا تھا جو مغرب کے سرمایہ درانہ نظام کے لئے ایک بڑا چیلینج تھا۔ اس دوران چین کی اشتراکی تحریک چیئرمین ماؤ کی قیادت میں عروج پر تھی۔ ایشیاء کے ان دو بڑے اشتراکی ممالک کی سرحدیں گلگت میں ملتی تھیں جس کو ”گریٹ گیم“ کا مرکز قرار دیا جا رہا تھا۔ ایسے حالات میں انگریزوں کے سامنے جو مستقبل کا نقشہ تھا اس میں سویت یونین کو ہندوستان اور بحیرہ عرب تک آنے سے روکنا انتہائی اہم تھا وگرنہ ایشیاء کے سرخ بدمست ہاتھی کو یورپ اور امریکہ کی کیاریاں روندنے سے روکنا ممکن نہیں تھا۔

افغانستان جیسے انتظامی طور پر کمزور ملک سے متصل سرحدوں میں ایک ”آزاد قبائلی“ علاقہ قائم کرنے اور چترال کو براہ راست پشاور چھاؤنی کی عملداری میں دینے کے بعد گلگت ہی وہ علاقہ تھا جس کے راستے سے مغربی سامراج کو مستقبل میں مشرق سے ابھرنے والی اشتراکیت کے طوفان کا خطرہ تھا۔ گو کہ انگریزوں نے گلگت کا مہاراجہ کشمیر سے لیز کو ختم کرکے اپنی شرافت کا ثبوت دیا تھا مگر ان کے لئے گلگت کا براہ کشمیر ہندوستان میں شامل ہونا ہر گز قبول نہیں تھا جس کی قیادت کے سویت یونین سے تعلقات زیادہ قریبی تھے۔

26 اکتوبر 1947 ء کو مہاراجہ کشمیر ہری سنگھ کے ہندوستان کے ساتھ الحاق کے معاہدہ پر دستخط کرنے کے ساتھ ہی گلگت میں موجود گلگت سکاؤٹس کے کمانڈنٹ میجر ولیم براؤن نے اپنے پلان ”بغاؤت گلگت“ پر عمل درآمد کروایا اوراس خطے کو کشمیر سے کاٹ کر پاکستان میں براہ راست شامل کرنے کی منادی کروا دی۔ 26 اکتوبر سے یکم نومبر 1947 ء تک گلگت شہر اور بونجی میں موجود سکستھ کشمیر رجمنٹ میں جو کچھ ہوا وہ تاریخ کا حصہ ہے جس کو بعد میں ہندوستان میں ”اصلی ہمالین بلنڈر“ بھی کہا گیا مگر گلگت بلتستان کے لوگ 1891 ء کی نلت کی لڑائی میں مہاراجہ کشمیر اور انگریزوں کے ہاتھوں کھوئی اپنی آزادی کے دوبارہ حصول کے طور پر دیکھتے ہیں۔

میجر براؤن کی ایما پر ہنزہ، نگر، پونیال، گوپس اور یاسین کے مقامی راجاؤں نے پاکستان کے ساتھ الحاق کی درخواست تو گزاری مگر خود پاکستان کا اپنا موقف یہ تھا کہ 15 اگست 1947 ء کو موجود ریاست کشمیر کا پورا خطہ ہندوستان اور پاکستان کے درمیان متنازع ہے جس کے کسی حصے کی الگ سے حیثیت تبدیل نہیں ہو سکتی لہذا گلگت بلتستان کا پاکستان سے الحاق کا معاملہ بھی اس بنیاد پر لٹک کر رہ گیا۔

پاکستان نے 1947 ء میں گلگت کے مقامی راجاؤں کی لکھی الحاق کی درخواستوں کو سرد خانے میں ڈال کر 1949 ء کو اپنے زیر انتظام کشمیر میں قائم مسلم کانفرنس کی آزاد حکومت کے ساتھ ایک معاہدہ کرکے گلگت بلتستان کا مکمل انتظام سنبھال لیا جو اس بات کی نشاندہی تھی کہ تنازع کشمیر میں گلگت بلتستان، جموں، سری نگر اور مظفر آباد کی حیثیت میں کوئی فرق نہیں سب یکساں متنازع ہیں۔ پاکستان سرکاری طوری گلگت بلتستان کو متنازع تسلیم کرنے کے ساتھ عوامی طور پر اس علاقے کو پاکستان کا حصہ قرار دیتا رہا۔ جب مارشل لا لگا تو آزاد کشمیر میں لاگو نہیں ہوا مگر گلگت بلتستان میں پاکستان کے دیگر صوبوں کی طرح اس کا نفاذ ہوا۔ سرکاری نوکریوں میں گلگت بلتستان کو آزاد کشمیر کے بجائے قبائلی علاقوں کے ساتھ شامل کیا گیا۔

مظفر آباد میں تو ایک آزاد حکومت قائم کی گئی مگر گلگت بلتستان کو ایک وزارت کے تحت قائم ایک ذیلی محکمہ کے طور پر چلایا جا تا رہا جس کی وجہ سے لوگوں میں احساس محرومی پیدا ہوئی اور 1947 ء کے الحاق کی درخواستوں پر تاسف کا اظہار ہونے لگا تو حکومت پاکستان نے لوگوں کے دلاسے لئے مختلف انتظامی نوعیت کے اقدامات کیے مگر اس علاقے کی حیثیت تبدیل کرنے کے لئے کوئی نامیاتی تبدیلی نہیں لائی جا سکی۔ موجودہ اسمبلی اور حکومت کا قیام بھی ایسا ہی ایک انتظامی اقدام ہے جس کو نہ ہی پاکستان کے آئین اور قانون اور نہ ہی کسی بین الاقوامی معاہدے کا تحفظ حاصل ہے۔

نوے کی دہائی میں سویت یونین کا شیرازہ بکھر گیا تو مغرب کو چین نصیب ہوا مگر اس دوران دوسرے اشتراکی ملک چین نے سنگلاخ پہاڑوں کو کاٹ کر شاہراہ قراقرم کی تعمیر کرکے چین، وسطی اور جنوبی ایشیاء کے درمیان حائل ایک ابدی قدرتی رکاؤٹ کو پاٹ دی تھی۔ اس شاہراہ کی تعمیر کے بعد چین نہ صرف بحر عرب میں موجود ہے بلکہ اپنے نئے منصوبے چین پاکستان تجارتی راہداری المعروف سی پیک پر عمل درآمد کرکے یہاں اپنی مستقل سکونت کا خواہاں بھی ہے۔ چونکہ سی پیک کے منصوبے کے دہانے پر گلگت واقع ہے اس لئے اس کی اہمیت ایک دم سے اور بڑھ گئی ہے اور دنیا کی نظریں اب دوبارہ اس خطے پر ہیں۔

شاہراہ قراقرم کی تعمیر سے قبل پاکستان اور چین کے درمیان سرحدات کے تعین کے لئے 1963 ء میں ایک معاہدہ ہوا جس کی شک 6 میں اس خطے کی متنازع حیثیت کو تسلیم کرتے ہوئے ہندوستان اور پاکستان کے مابین تنازع کے حل کے نتیجے میں قائم ہونے والی حکومت کو اس معاہدہ پر نظر ثانی اور حکومت چین کے ساتھ دوبارہ مذاکرات کرنے کا حق تسلیم کیا گیا ہے۔

چین پاکستان تجارتی راہداری (سی پیک) دراصل شاہراہ قراقرم کے توسیع کا نام ہے جس کے ساتھ سرمایہ کاری کے دیگر مواقع منسلک کیے گئے ہیں۔ شاہراہ قراقرم کی بنیاد چین اور پاکستان کے مابین ہونے والے 1963 ء کے سرحدات کے تعین کا عبوری نوعیت کا معاہدہ ہے۔ چین سی پیک کے تحت کی جانے والی سرمایہ کاری کو تحفظ دینے کے لئے پاکستان پر اس خطے کے ساتھ ایک دائمی تعلق استوار کرنے کے لئے دباؤ بڑھا رہا ہے۔

فوجی اسٹبلشمنٹ نے گلگت بلتستان کا پاکستان کے ساتھ مستقبل میں تعلق کے سوال پر ملک کی سیاسی جماعتوں کے ساتھ مشاورت کا سلسلہ شروع کیا تو اس کی پہلی نشست کے بارے میں اس طرح کی افواہیں پھیلائی گئیں کہ نہ صرف حکومت اور دیگر سیاسی جماعتوں میں مزید بد اعتمادی پیدا ہوئی بلکہ مشاورت کے اس سلسلے کو بھی متنازع بنا دیا گیا۔

گلگت بلتستان کے اندر اس خطے کے مستقبل کے سوال پر رائے عامہ سیاسی سے زیادہ مذہبی اور فرقہ ورانہ بنیادوں پر تقسیم ہے۔ دوسری طرف چین کے اس مسئلے پر پیدا ہونے والی دلچسپی کی وجہ سے مغرب اور خاص طور پر امریکہ چیں بہ چیں نظر آتا ہے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ اس سوال پر گلگت بلتستان کی رائے عامہ کو ہموار کیا جائے جس کی تائید پاکستان کی سیاسی اور مذہبی جماعتیں بھی کریں۔ وگرنہ یہ سوال خود ایک تنازع کی شکل اختیار کر کے بین الاقوامی مداخلت کا سبب بن سکتا ہے جو شاید کسی کے مفاد میں نہیں۔

علی احمد جان

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

علی احمد جان

علی احمد جان سماجی ترقی اور ماحولیات کے شعبے سے منسلک ہیں۔ گھومنے پھرنے کے شوقین ہیں، کو ہ نوردی سے بھی شغف ہے، لوگوں سے مل کر ہمیشہ خوش ہوتے ہیں اور کہتے ہیں کہ ہر شخص ایک کتاب ہے۔ بلا سوچے لکھتے ہیں کیونکہ جو سوچتے ہیں, وہ لکھ نہیں سکتے۔

ali-ahmad-jan has 278 posts and counting.See all posts by ali-ahmad-jan