روشنی کا وزن (Lightweight) اور نیویارک کی ہلکی پھلکی باتیں


ایک مہمان کو نیویارک میں شکایت ہوئی کہ شاور سے نکلتے پانی میں وہ بہائو اور فراوانی نہیں جس کثرت کا جنت میں مسلمانوں سے وعدہ ہے۔ لیزلی ہیزلٹن جن کی کتابAfter the Prophet ہمیں بھی ناپسند ہے وہ اپنی ٹیڈ ٹاک میں قرآن الکریم سے وابستہ چار پانچ بڑی غلط فہمیوں کو دلیل سے رد کرتے ہوئے کہتی ہیں کہ جنت اصل میں سلامتی کا نام ہے۔ خوف اور فنا سے پرے ایک عالم بہتات۔ لیزلی کا اصل جملہ دیکھ لیجئے۔

Paradise is not (about) virginity; it’s fecundity; it’s plenty, It’s gardens watered by running streams.

میزبان کا کہنا تھا کہ شاور کا یہ دکھ ڈونالڈ ٹرمپ کو بھی ہے۔ چھ فٹ تین انچ کا قد ہے۔ الزام بھی بہت لگے ہیں۔ ہماری دنیا میں ہوتے تو غسل ہی سے فرصت نہ ملتی۔ اب یہ ہے کہ دن میں نہاتے صرف ایک دفعہ ہیں۔ 1990 میں کانگریس نے ایک قانون بنایا تھا کہ شاور میں فی منٹ پانی کا بہائو ڈھائی گیلن سے زیادہ نہیں ہوتا۔ ٹرمپ جی کو شکایت ہے کہ اس کی وجہ سے ان کے بال صحیح طریقے پر دھل نہیں پاتے ان کا کہنا تھا کہ

.You turn on the shower – if you’re like me, you can’t wash your beautiful hair properly

ان کی انرجی کی وزارت اس قانون کو تبدیل کرنے حامی نہیں۔ اسی نوعیت کی مخالفت کا سامنا ان ماحولیاتی نگران کتوں (سماجی طور پر فعال شہری – امریکہ میں کتا گالی کے مترادف نہیں سمجھا جاتا) کی جانب سے بھی ہے جو اسے پانی کا زیاں سمجھتے ہیں۔

 ٹرمپ ایک اور وجہ سے بھی ان کے ہاں نشانے پر ہیں کہ ان کے بارے میں مخالفین نے یہ کھوج لگایا ہے کہ وہ بہت کم ٹیکس دیتے ہیں۔ ہر سال چودہ اپریل کو ان کا ٹیکس کا ادارہ رات گئے جس شخص کے ٹیکس ریٹرن سب سے پہلے جاری کرتا ہے وہ امریکہ کا صدر ہوتا ہے۔ اس سے یہ ظاہر کرنا مقصود ہوتا ہے کہ امریکہ میں قانون کی نگاہ میں ہر شہری برابر ہے۔ صدر نے ٹیکس جمع کرا دیا تو تم سیاست اور سرمائے کے نہلے دہلے سرکار کے محاسبے کے سامنے کیا بیچتے ہو۔ صدر ٹرمپ پر الزام لگا کہ دو برسوں میں انہوں نے کل ساڑھے سات سو ڈالر ٹیکس جمع کرایا۔

امریکہ میں دو خواتین نمائندوں کا بہت چرچا ہے۔ ایک تو نیویارک کی الیکژنڈریا اوکیسیو کوریٹز جنہیں AOC کےمخفف سے پکارا جاتا ہے، جو ایک میکدے میں ساقی گری کرتی تھیں اور دوسری الہان عبداللہ عمر۔ وہ سیاہ فام ہیں اور باجی کوریٹز کی طرح صومالیہ کی مہاجر ہیں۔ ہماری ایک ملنے والی جن کا یوپی کے گھرانے سے تعلق ہے۔ وہ کہتی تھیں یہ بہار اور حیدراآباد دکن کے مسلمانوں پر کس وائرس نے حملہ کیا تھا کہ مسلم لیگ میں ندیم افضل چن والا مختاریا بن کر جا وڑے۔ بہتر ہوتا امریکہ آجاتے اور ڈیموکریٹ یا ری پبلکن بن گئے ہوتے تو ڈومیسائل کا تو مسئلہ نہ ہوتا۔ جن کا لیڈر حسرت موہانی ، ڈاکٹر ذاکر حسین، ابوالکلام اور بی جے پی کے موجودہ نائب صدر مختار نقوی کو ہونا تھا، جنرل ضیا ان پر نعیم شری، یعقوب مادہ، نعیم چریا، رحمن بھولا اور کامران مادھوری کو لیڈر بنا کر مسلط نہ کرتا

باجی کورٹیز کو آپ ان کی مریم اورنگ زیب سمجھیں۔ بس ان کی والدہ سر پر مرغیاں انڈے گھما کر صدقہ نہیں دیتیں۔ قابلیت بھی کمال کی ہے۔ جیسے مزے سے شراب پلاتی رہی ہیں ویسے ہی جھاڑ پلانے میں بھی ملکہ رکھتی ہیں۔ پچھلے دنوں ایک مخالف ممبر ٹیڈ یوہو نے انہیں f—b—h پکار کر بدزبانی کی۔ معاملے نے طول پکڑا تو حضرت نے اپنے دفاع میں معافی مانگتے ہوئے کہا کہ وہ ایسی ہی زبان اپنی بیوی بیٹی کے لیے بھی استعمال کرتے ہیں۔ جس پر مانو باجی کورٹیز کے ہاتھ بیس بال کا بیٹ  آ گیا۔ ان کی فلور آف دی ہائوس پر وہ چھترول کی کہ تسمہ لگا نہیں چھوڑا۔

کورٹیز کا کہنا تھا کہ اچھا ہوا یہ الفاظ سننے کے لیے میرا باپ زندہ نہیں۔ ورنہ وہ اپنے مرد، باپ اور بھائی ہونے پر شرمندہ ہوتا۔ یہ کانگریس مین یو ہو کی اخلاقی گراوٹ، تعلیم اور تربیت کا بحران ہے۔ ان کی یہ تقریر سن کر خود یوہو کی پارٹی کی خواتین نے یوہو کا ایوان میں وہ حشر کیا کہ یوہو کی پتلون گیلی ہوگئی۔ AOC کی اس تقریر کو Political Gold کے لقب سے پکارا جاتا ہے۔ حقوق نسواں کے حوالے سے یہ تقریر آپ ضرور دیکھیے گا۔

نیویارک ٹائمز کی رپورٹ میں صدر ٹرمپ کے ٹیکس کی تفصیل پڑھ کر نیویارک کی اس رہنما نے کہا کہ اس سے کہیں زیادہ ٹیکس تو میں اپنے ان ایام گمنامی میں دیتی تھی جب میں ایک معمولیbartender  تھی۔

ٹرمپ کی دوسری دشمن ایک مسلمان رہنما ہیں۔ وہ اور فلسطینی رشیدہ طالب دونوں مسلمان ہیں۔ کانگریس کی اس پہلی حجاب پوش نمائندہ کا نام الہان عبداللہ عمر دختر کرنل نور عمر محمد ہے۔ تعلق صومالیہ سے ہے۔ انہیں آپ عورتوں کا شہباز شریف سمجھیں۔ کوئی اچھا لگے تو فوراً شادی پر اتر آتی ہیں۔ ڈاکٹر ظفر الطاف کسی پرانے نیک روایتی لاہوری بزرگ کا قصہ دو بھایئوں کی شرافت حوالے سے سناتے تھے کہ کسی نے ان کے سامنے اعتراض اٹھایا اور کہا یہ چھوٹے والا تو جس کو دیکھتا ہے۔ اس کے سامنے دل کے ساتھ نکاح نامہ بچھا دیتا ہے تو بزرگ نے پنجابی میں کہا “وڈے توں چنگا اے کم از کم ویاہ تے کرلیندا اے”۔ (لاہوری بزرگ نے جسمانی فعل کو تجریدی خیال سے جو موضوعی غسل دیا، اس پر دلچسپ تبصرہ ہو سکتا تھا، خوف فساد خلق کی نذر ہو گیا۔ مدیر)

حال ہی میں صدر ٹرمپ نے الہان عبداللہ پر لگائے جانے والے اس الزام کا اعادہ کیا کہ وہ ایک برطانوی شہری کو (جو درحقیقت ان کا بھائی احمد نور علمی سعید ہے) اپنا شوہر بنا کر امریکہ لے آئیں۔ شکر ہے کہ انہیں تاندلیاانوالہ فیصل آباد کا قصہ نہیں معلوم ورنہ صدر ٹرمپ کو جواب میں کہتیں کہ ہمارے صومالیہ میں تنظیم سازی ایسے ہی کی جاتی ہے۔ الہان کو جیتنے سے روکنے کے لیے ایک اور سیاہ فام  Melton-Meauxپر امریکہ میں یہودی تنظیموں نے بڑے Bundle Donations  کیے۔ کھل کر رقم لگائی۔ ایسا کام اگر امریکہ میں باہر کے مسلمان عرب کرتے تو الہان کا حشر ہوجاتا۔ اس کے باوجود الہان جیت گئیں۔

نیویارک بقول اس کے مشہور شہری ڈونالڈ ٹرمپ کے ایک شہر آسیب لگتا ہے۔ ہم نے جو نیویارک دیکھا ہے وہ آباد اور پر رونق تھا۔ میسی جو دنیا کا سب سے بڑا ڈیپارٹمنٹل اسٹور ہے وہ گھر کے قریب ہے۔ وہ اور دیگر اسٹور بند ہونے کو ہیں۔ کھانے پینے کے جوائنٹس کھلے ہیں مگر ماسک اور چھ فٹ فاصلہ اور لائن میں لگ کر داخلہ لازم ہے۔ مورنگیسن ان کا آئس کریم پارلر ہے۔ نیویارک کے ہپ علاقے گرین وچ میں۔ بہت لاجواب آئس کریم ہوتی ہے۔ گھر سے قریب ہے تو چلے جاتے ہیں۔ سیلی بریٹیز کی بڑی آمد ہوتی ہے کبھی پریناکا، کبھی عالیہ بھٹ، کبھی مرناڈا کیر تو کبھی برطانوی شاہی خاندان والے۔ عام دنوں میں لمبی لائن لگتی تھی، اب کورونا کے دنوں میں ایسا نہیں۔

پڑوس میں مزے دار نامی بیکری ہے۔ ایک پاکستانی خاتون امبر احمد نے یہاں کاروبار جمایا ہے۔ مہنگی لذیذ اور مقبول۔ اس علاقے میں پاکستانی دکھائی نہیں دیتے تو امبر کی یہ بیکری صحرا میں اذان لگی۔ پہلے یہاں دن بخارات کی مانند اڑ جاتا تھا۔ میوزیم، لائبریاں، ریستوراں، بابل (Babylon) کا شیشہ اور بیلی ڈانس، سب وے کی رونقیں، ایسا لگتا ہے کہ سب ہی میر کی دلی ہو گئے۔ ایسا لگتا ہے امیر جان صبوری نے یہ نوحہ جو نگارہ خالاوہ (Nigora Kholova) نے کچھ عجب لحن پرسوز میں گایا ہے، افغانستان کے لیے نہیں نیویارک کے لیے لکھا تھا

شہر خالی، جادہ خالی، کوچہ خالی، خانہ خالی

جام خالی، سفرہ خالی، ساغر و پیمانہ خالی

کوچ کردہ، دستہ دستہ آشنایان، عندلیبان

باغ خالی، باغچہ خالی، شاخہ خالی، لانہ خالی

ممکن ہے دنیا میں کورونا سازش لگتا ہو۔ خاندان میں موجود ڈاکٹرز جنہوں نے یہ کیسز ہینڈل کیے وہ اس سازشی تاثر کی تردید کرتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ نائیکی جوتوں والے ڈاکٹر کا کارڈ دیکھتے ہی بیس فیصد رعایت دے دیتے ہیں۔

امریکہ میں کورونا کی دوسری لہر متوقع ہے۔ نیویارک کی سٹی گورنمنٹ کا Department of Health and Mental Hygiene  کولمبیا اور نیویارک یونی ورسٹیز کی مدد سے روز اول سے اس تگ و دو میں لگا ہے۔ وہاں سے ایک مشترکہ ہدایت موصول ہوئی ہے کہ اس سال حالات معمول پر آنے کی بات چھوڑ دیں۔ اب تک انہوں نے ہمارے گھر کے قریب نیویارک میڈیکل یونی ورسٹی کی ایک یونٹ کے باہر اس سڑک کو نہیں کھولا جہاں کورنا کے دنوں میں انہوں نے خانہ مرگ آباد کیا تھا۔ ان کا خیال ہے کہ وبائی امراض کے بارے میں احتیاط کے ایسے حتمی ماڈل نہیں ہوتے جن کو اپنا کر آئندہ کے حملوں سے بچت کی جا سکے۔

یہی وجہ تھی کہ یہاں جب چھ ستمبر کے بعد موسم خزاں اور فلو سیزن کا آغاز ہوا بیگم ہمیں فلو سے بچائو کا ٹیکہ لگوانے لے گئیں۔ نصیب کی بات ہے۔ سیاہ فام ڈاکٹر بہت حسین تھی۔ ہل اسٹیشن کی شام جیسی دھواں دھواں اور استاد ذاکر حسین کے طبلے کے توڑے جیسی گمک دار۔ ہم نے بھی کہا ٹیکا ٹھیک سے لگا لے گی تو ہم بھی Black Lives Matter کی ٹی شرٹ اسی سے مانگ کر پہن لیں گے۔ باسی پھولوں میں خوشبو پھول پہننے والا معاملہ ہی سہی۔ نرم مزاجی اور دل جوئی کمال کی مگر یہ پیشہ ورانہ تربیت ہے۔ پوچھنے لگی کہ سوئی لگائوں گی تو درد ہو گا۔ مجھے برا مت کہنا۔

 Is it Ok?

ہم نے بھی مسکرا کر کہا کہ شادی کو چالیس برس ہو گئے ہیں۔ اب کوئی ایسا درد نہیں جس کا گلہ کریں۔ جواب سنا تو سر اور بدن دونوں پیچھے پھینک کر ہنسی۔ ہمیں تو جانو یوں لگا آندھرا پردیش بھارت میں اجلی دھوپ میں کسی نے پٹو سلک کی گولڈن ساڑھی کا آنچل لہرایا ہے۔ بیگم کو اس کی یہ کھلواڑ اچھی نہ لگی تو دھیمے سے کہنے لگیں ڈاکٹر جوئیل پہلے مجھے ٹیکا لگتا تو اس سوال پر میرا جواب بھی یہی ہوتا۔ ڈاکٹر بہت معاملہ فہم تھی کہنے لگی

  Let me get away from this cross-fire۔ May this marriage last forever

بیگم نے اپنا اینٹی فلو شاٹ اس مکالمے کے بعد اس سے لگوانے کا ارادہ تبدیل کر دیا۔ کلینک سے باہر نکل کر اتنا ضرور پوچھا کہ یہ سب لوگ آپ کو اتنا بے وقوف کیوں سمجھتے ہیں؟ ہم نے کہا سمجھتے تو سب ہیں مگر فائدہ صرف آپ اٹھاتی ہیں۔

کل صدراتی امیدواروں ٹرمپ اور بائیڈن کے مباحثے کا پہلا رائونڈ تھا۔ ٹرمپ سرکار کی کارکردگی کا معاملہ وہی ہے جو پی ٹی آئی سرکار کا ہے۔ ایسی سرکار اور عورت کو راجھستان کی ٹھکرائینیں” باتاں ری بھلی کام ری کھوٹی” کہتی ہیں۔ مباحثے کا پہلا موضوع ہی سپریم کورٹ میں جج ایمی کونی بیرٹ کی تعیناتی سے متعلق تھا۔ ڈیموکریٹس کی مرضی ہے کہ یہ معاملہ صدارتی انتخابات کے بعد تک موقوف رکھا جائے۔ صدر ٹرمپ نے جج رتھ گنس برگ کی موت کے بعد جج ایمی کی تقرری کا اعلان کرکے کئی سوالات کھڑے کر دیے ہیں۔ اس تعیناتی سے سپریم کورٹ میں کنزرویٹیو یعنی ٹرمپ کی پارٹی کے حامی ججوں کی تعداد نو میں سے چھ ہوجائے گی۔ سینٹ کی عدالتی کمیٹی نے اگر اس تقرری کی منظوری دے دی تو وہ جج بن جائیں گی۔

پاکستان میں بھی اگر سینٹ براہ راست ووٹ سے منتخب ہو اور ہر بڑا معاملہ فوج کے سربراہان، سپریم کورٹ کے جج، اٹارنی جنرل، وزرا سب کی تعیناتی اس کی متعلقہ کمیٹی کے منظوری سے ہو تو من مانیاں اور اقربا پروری ختم ہو جائیں۔ سپریم کورٹ کا جج امریکہ میں تاحیات ہوتا ہے۔ ڈیموکریٹ پارٹی اس کی معیاد اٹھارہ برس تک محدود کرنا چاہتی ہے۔ ویسے تو امریکہ کی ہر ریاست کراچی کی آبادی کی ایک تہائی نفوس پر مشتمل ہے مگر واشنگٹن کی آبادی کم از کم دو ریاستوں سے زیادہ ہے۔ ڈیمو کریٹ پارٹی اس کو امریکہ کی 51 ویں ریاست بنانا چاہتی ہے۔ پاکستان کی بقا بھی امریکی طرز کے آئین اور حکومت میں ہے۔ یوں پچاس لاکھ آبادی کے چالیس صوبے پاکستان کے حق میں بہتر ثابت ہوں گے۔ صوبوں کی موجودہ تقسیم جذباتی اور تاریخی ضرور ہے مگر جدید انتظامی انداز پر استوار نہیں۔

جج ایمی کی اپنی پیش رو مرحومہ جج گنس برگ جو یہودی تھیں ساتھ ایک معاملے میں مشترک وصف کی حامل ہیں کہ دونوں کے شوہر کچن کی زبیدہ آپا ہیں۔ بس بے چارے رنگ گورا کرنے والے صابن اور کریم پروموٹ نہیں کرتے۔ جج ایمی کے سات بچے ہیں۔ ان میں دو لے پالک اور سیاہ فام  ہیں۔ ابھی تک انہوں نے اپنے مشن اسٹیٹمنٹ میں یہ ظاہر نہیں کیا کہ سپریم کورٹ کا جج منتخب ہونے کے وہ بھی کوئی بے محابا و بلا محاسبہ ڈیم فنڈ بنائیں گی یا نہیں۔ مزید یہ کہ اپنے بیٹے جان پیٹر کے لیے جو بہو لانے کا پروگرام ہے اس کے لیے انیتا ڈونگرے بہو کے ڈیڑھ کروڑ کے گھاگھرے چولی کی بات پکی کرلی ہے کہ نہیں۔ کیوں کہ شادیوں کے سیزن میں پاکستانی بھارتی ڈیزائنرز اور پارلر والے جواب نہیں دیتے۔

اقبال دیوان

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

اقبال دیوان

محمد اقبال دیوان نے جوناگڑھ سے آنے والے ایک میمن گھرانے میں آنکھ کھولی۔ نام کی سخن سازی اور کار سرکار سے وابستگی کا دوگونہ بھرم رکھنے کے لیے محمد اقبال نے شہر کے سنگ و خشت سے تعلق جوڑا۔ کچھ طبیعتیں سرکاری منصب کے بوجھ سے گراں بار ہو جاتی ہیں۔ اقبال دیوان نےاس تہمت کا جشن منایا کہ ساری ملازمت رقص بسمل میں گزاری۔ اس سیاحی میں جو کنکر موتی ہاتھ آئے، انہیں چار کتابوں میں سمو دیا۔ افسانوں کا ایک مجموعہ زیر طبع ہے۔ زندگی کو گلے لگا کر جئیے اور رنگ و بو پہ ایک نگہ، جو بظاہر نگاہ سے کم ہے، رکھی۔ تحریر انگریزی اور اردو ادب کا ایک سموچا ہوا لطف دیتی ہے۔ نثر میں رچی ہوئی شوخی کی لٹک ایسی کارگر ہے کہ پڑھنے والا کشاں کشاں محمد اقبال دیوان کی دنیا میں کھنچا چلا جاتا ہے۔

iqbal-diwan has 96 posts and counting.See all posts by iqbal-diwan