پیرس حملہ: مرکزی ملزم کے اہل خانہ کی عمران خان سے مدد کی اپیل


پیرس حملے کے ملزم ظہیر حسن کے والد ارشد محمود

فرانس کے دارالحکومت پیرس میں دو افراد کو چاقو کے وار کر کے زخمی کرنے والے مبینہ حملہ آور ظہیر حسن محمود کے والدین نے وزیر اعظم عمران خان سے اپیل کی ہے کہ حکومت ان کے گرفتار بیٹے کی مدد کے لیے اقدامات کرے۔

واضح رہے کہ پاکستان کے شہر منڈی بہاؤ الدین سے تعلق رکھنے والے ظہیر حسن محمود نے جمعے کو فرانس کے دارالحکومت پیرس میں فکاہیہ جریدے ’چارلی ایبڈو‘ کے پرانے دفتر کے قریب مبینہ طور پر چاقو کے وار کر کے دو افراد کو زخمی کر دیا تھا۔

ملزم کے والد ارشد محمود کے مطابق ان کا بیٹا دو سال قبل فرانس گیا۔ ذرائع ابلاغ کے نمائندوں سے بات کرتے ہوئے انہوں نے بتایا کہ انہیں اس واقعے کے بارے میں ہفتے کو پتا چلا۔

ارشد محمود نے بتایا کہ ظہیر نے انہیں پیشگی اس حوالے سے آگاہ نہیں کیا تھا۔ تاہم ظہیر کی والدہ کے بقول ان کے بیٹے نے انہیں اپنے ارادوں کے متعلق پہلے ہی بتا دیا تھا۔

ارشد محمود نے وزیر اعظم عمران خان سے اپیل کی کہ حکومت ان کے بیٹے کی مدد کے لیے اقدامات کرے۔

پیشے کے لحاظ سے زمین دار ارشد محمود کا کہنا تھا کہ ان کے پانچ بیٹے ہیں جن میں سے تین بیرون ملک مقیم ہیں۔ دو فرانس اور ایک اٹلی میں ہے۔

فرانس کے شہر پیرس میں مقیم پاکستان صحافی، یونس خان، کے مطابق ملزم کو پیر کے روز عدالت میں پیش کیا گیا۔

وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے یونس خان نے بتایا کہ ملزم کو جب پکڑا گیا تھا تو یہ سامنے آیا تھا کہ اس کی عمر 18 سال ہے۔ لیکن تفتیش کے دوران یہ پتا چلا کی اس کی عمر 25 سال ہے۔

ان کے مطابق دوران تفتیش ملزم نے پولیس کو بتایا کہ چھوٹی عمر کی دستاویزات کا مقصد فرانس میں سماجی بہود کے فائدے حاصل کرنا تھا۔ ملزم کے پاس موجود دستاویزات میں اس میں اس کا نام حسن علی لکھا تھا، جس سے تفتیشی افسر بھی کنفیوز تھے۔ اس سلسلے میں تعاون کے لیے فرانسیسی حکام نے پاکستانی حکام سے مدد لی تھی۔

یونس خان کے مطابق ملزم ظہیر محمود نے چارلی ایبڈو سے متعلق معلومات انٹرنیٹ سے حاصل کی تھیں اور اسے یہ علم نہیں تھا کہ ادارے کا دفتر وہاں سے منتقل ہو گیا ہے۔

ظہیر کا پاکستان میں آبائی گھر۔

انہوں نے مزید بتایا کہ وہ اپنے ساتھ ایک ٹوکہ اور ایک خاص قسم کا اسپرٹ لے کر گیا تھا اور منصوبے کے مطابق وہ چارلی ایبڈو کے دفتر کو نذر آتش کرنا چاہتا تھا۔ لیکن عین اسی وقت آفس سے کچھ لوگ نکلے جس کے بعد اس نے ان پر حملہ کر دیا اور بعد میں فرار ہو گیا۔ بعد ازاں پولیس نے اسے گرفتار کر لیا۔

ان کے مطابق پولیس نے اب تک اس واقعہ سے منسلک تقریباً 16 افراد کو گرفتار کیا ہے۔

جمعے کو واردات سے قبل ظہیر حسن محمود نے ایک ویڈیو بیان بھی ریکارڈ کرایا تھا، جس میں اس نے بتایا تھا کہ پیغمبر اسلام کے خاکے دوبارہ شائع کرنے پر وہ 25 ستمبر کو ادارے کے دفتر پر حملہ کرے گا۔

ملزم ظہیر حسن محمود کا تعلق پاکستان کے شہر منڈی بہاؤ الدین کے علاقے کوٹلی غازی سے ہے۔ تاہم وائس آف امریکہ کی ٹیم نے جب بدھ کوٹلی غازی کا دورہ کیا تو ارشد محمود کے گھر کو تالا لگا ہوا تھا۔

ظہیر حسن محمود کے ہمسائے، تمار حسن نے وائس آف امریکہ کو بتایا کہ ظہیر حسن کا رجحان شروع سے ہی مذہب کی جانب تھا۔ اس نے ابتدائی تعلیم اپنے گاؤں سے حاصل کی اور بعد میں پھالیہ میں کالج میں داخلہ لیا۔

تمار حسن کے مطابق واقعہ کے بعد مقامی افراد کی بڑی تعداد ظہیر حسن کے گھر آنے لگی جس پر پولیس نے تمام اہل خانہ کو نامعلوم مقام پر منتقل کر دیا۔

کوٹلی غازی کی سول لائن پولیس کا کہنا ہے کہ انہیں بھی اس واقعے کے بارے میں سوشل میڈیا سے پتا چلا ہے۔ اب تک انہیں اس بابت کسی بھی قسم کی کارروائی کا حکم نہیں ملا ہے۔

یاد رہے کہ میگزین ’چارلی ایبڈو‘ پر 2015 میں حملہ کیا گیا تھا جس میں میگزین سے وابستہ 12 افراد ہلاک ہو گئے تھے۔

اس حملے پر دہشت گردی کا مقدمہ درج کیا گیا ہے جس کی سماعت پیرس میں جاری ہے۔ مقدمے میں 14 افراد کو نامزد کیا گیا ہے۔

چارلی ایبڈو پر اس وقت دنیا بھر کے مسلمانوں کی جانب سے غم و غصے کا اظہار کیا تھا جب اس نے پیغمبر اسلام کے خاکے شائع کیے تھے۔

حالیہ ہفتوں میں اس میگزین پر حملے کی عدالتی سماعت کے دوران جریدے نے ایک بار پھر ان خاکوں کو شائع کیا ہے۔

وائس آف امریکہ

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

وائس آف امریکہ

”ہم سب“ اور ”وائس آف امریکہ“ کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے مطابق ”وائس آف امریکہ“ کی خبریں اور مضامین ”ہم سب“ پر شائع کیے جاتے ہیں۔

voa has 3331 posts and counting.See all posts by voa