دیوتا کی آنکھ


میری عمر اس وقت پچاس سال سے اوپر ہے، میں نے یہاں ہر شے بدلتے دیکھی، آئین بدلے، قانون بدلے، حکومتیں بدلیں، پارٹیاں بدلیں، نظریات و خیالات بدلے، روایات بدلیں، رجحانات بدلے، کھانے پینے کے انداز بدلے، پہناوے بدلے، قصبے، گاؤں اور شہر بدلے، گلیاں، محلے اور شاہراہیں بدلیں، موسم کے رنگ ڈھنگ بدلے، ندی نالوں اور دریاؤں نے راستے بدلے، علاقائی نقشے بدلے، دوست دشمن بدلے، پہاڑوں نے رنگت بدل لی اور تو اور مجھے لگتا ہے آسمان میں ستاروں نے جگہیں تک بدل ڈالیں لیکن میں نے ایک چیز کو بدلتے نہیں دیکھا اور وہ ہے اس مملکت پاکستان کا نظام۔

آپ کراچی سے طور خم تک اور کوئٹہ کے باب دوستی سے خنجراب تک کسی بھی شخص سے پوچھ لیں جس نے چار پانچ دہائیاں یہاں بسر کی ہیں وہ میرے ایک ایک لفظ کی تصدیق کرے گا۔ چینیوں کی ترقی کی مثال آپ کو گھسی پٹی لگتی ہے تو چلیں اپنے سابقہ ہم وطن بھائیوں کی بات کر لیتے ہیں۔ صرف پانچ دہائیوں پہلے ہمارے بطن سے الگ ہونے والے کالے کلوٹے، کاہل اور ناٹے بنگلہ دیشی آج ہمارا مذاق اڑا رہے ہیں۔ ہم سے معیشت میں آگے، کرنسی ویلیو میں آگے، برآمدات میں آگے اور جمہوری اقدار میں بھی ہم سے بہت آگے نکل چکے۔

آج وہاں سولین اتھارٹی کا سورج پوری آب و تاب کے ساتھ چمک رہا ہے۔ کسی فوجی حکومت کا تصور اب وہاں تصور سے باہر ہو چکا۔ ایک زمانے میں وہاں ملٹری اور عدالتی اسٹیبلشمنٹ کا بڑا زور تھا۔ ہم خیال جرنیلوں اور ججوں نے مل کر حکومتیں گرائیں اور بنائیں لیکن آج یہ گٹھ جوڑ تاریخ کے اوراق میں گم ہو چکا۔ کوئی بنگالی اب اس کا تذکرہ کرنا بھی پسند نہیں کرتا۔ عالمی سطح پر پذیرائی میں بھی پست قامت بنگالیوں نے ہم کو ٹھگنا ثابت کر دیا۔ بنگلہ دیش کی شرح نمو آج 7 اعشاریہ 8 فیصد ہے اور ہم صفر سے بھی نیچے ہیں۔ ایک بنگالی ٹکہ 1 اعشاریہ 66 روپے کے برابر ہو چکا۔ اگر ہم اپنی روایتی محاورے ”ایک ٹکے کی اوقات“ کو ”ایک روپے کی اوقات“ میں بدل دیں تو یہ زیادہ حقیقت پسندانہ ہوگا۔

ہماری حالت یہ ہے کہ اگر آپ کو چالیس پچاس سال پہلے کسی سرکاری دفتر جانے کا اتفاق ہوا ہو اور آج آپ کو پھر یہاں جانا پڑ جائے تو آپ کہہ اٹھیں گے ”یہ تو وہی جگہ ہے گزرے تھے ہم یہاں سے“ آپ کو انسانی شکلوں یا عمارتوں میں تبدیلی کے علاوہ کچھ بدلا دکھائی نہیں دے گا۔ آپ کو انہی اذیت ناک تجربات سے گزرنا پڑے گا جس سے نصف صدی پہلے آپ گزرے تھے، حتیٰ کہ آپ کی فائل کو پہیے لگانے کا طریقہ کار بھی وہی پرانا ہوگا۔ کسی سرکاری اہلکار سے ملتے ہوئے آپ کو لگے گا کہ آپ تو اس سے یا پھر اسی طرح کے آدمی سے پہلے بھی مل چکے ہیں۔

ہمیں اپنے نظام کے ساتھ اپنی عادات و اطوار بھی بہت عزیز ہیں خواہ یہ کتنی ہی اخلاق بافتہ اور منافقانہ کیوں نہ ہوں۔ ہم اپنی شرمناک خصلتوں کی حفاظت بھی کسی قیمتی اور نادر و نایاب ورثے کی طرح کرتے ہیں بلکہ اسے اپنے لیے ایسا قابل فخر ہنر سمجھتے ہیں جسے نئی نسل تک منتقل کرنا ہمارے فرائض منصبی میں شامل ہے۔ یوں ایک نسل رخصت ہوتی ہے اور ویسی ہی دوسری تیار ہو جاتی ہے۔ فکری اعتبار سے ہم ایک قدم آگے بڑھنے کو تیار نہیں، کسی خراب وال کلاک کی طرح ہماری سوئیاں برس ہا برس سے ایک ہی جگہ پر ٹکی ہیں۔ اگر آپ کے پاس کوئی مضبوط سفارش نہیں ہے تو سرکاری دفتر میں آپ کو عزت تو کیا بیٹھنے کو کرسی بھی نہیں ملے گی۔ سرکاری افسر آپ کو عوام کے نوکر نہیں حاکم نظر آئیں گے۔ ایسا کراہت آمیز ماحول ملے گا کہ آپ کو لگے گا آپ پچاسویں درجے کے شہری ہیں۔

ہماری ادارہ جاتی سوچوں پر بھی روایت کی کائی جمی ہے، ہم آج بھی حکومت بنانے اور ہٹانے کا پورا اختیار عوام کو دینے کو تیار نہیں، اس کا مظاہرہ ہمیں ہر چند سال بعد دیکھنے کو ملتا رہتا ہے بلکہ ہم اس کے عادی ہو گئے ہیں۔ آپ کو لگے گا جیسے ایک ہی ڈائریکٹر اور پروڈیوسر کی فلم بار بار دکھائی جا رہی ہے۔ کیا ہماری فکری صلاحیتوں کو گروتھ روک دینے والی کوئی بیماری لاحق ہے؟ یا کسی الف لیلوی کہانی کے کردار کی طرح ہم پتھر کے ہوچکے ہیں؟

نہ ایک قدم آگے بڑھتے ہیں نہ پیچھے، ہم نہ سمجھ میں آنے والے لوگ ہیں۔ اگر ہماری معاشی نمو چھ فیصد کے قریب ہو تو ہمارے عسکری اداروں کو تشویش ہوتی ہے، لیکن اب یہی گروتھ ریٹ آج منفی میں ہے تو ہمارا اطمینان اور سکون دیکھنے لائق ہے۔ سوال یہ ہے کہ کیا ہمیں اپنی انائیں، ہماری ذاتی پسند و ناپسند اور کرو فر ملکی مفاد سے زیادہ عزیز ہے؟ اگر ایسا ہے تو ہم ایسی کشتی پر سوار ہیں جس کے پیندے میں ایک نہیں کئی سوراخ ہو چکے ہیں اور انجام بالکل سامنے ہے۔

قومیں غلطیاں کرتی ہیں اور سیکھتی ہیں مگر ہم غلطیاں کرتے ہی دہرانے کے لیے ہیں۔ ایک عمل سے بار بار ہزیمت اٹھائیں گے لیکن مجال ہے اپنا راستہ بدل لیں۔ بصیرت کو ہم نے اپنے اوپر حرام کر رکھا ہے۔ کچھ بھی ہو جائے کسی واقعے سے سبق حاصل کرنا ہم پر ممنوع ہے، سانحات کو یوں فراموش کر دیں گے جیسے کچھ ہوا ہی نہیں۔ سقوط ڈھاکہ گواہ ہے ہم انا بچا لیتے ہیں اور ملک توڑ ڈالتے ہیں، بحیثیت قوم ہم اس جانور کی کھال کی طرح ہیں جسے حنوط کر کے دیوار کے ساتھ چپکا دیا گیا ہو۔

انصاف کے ادارے کی تاریخ دیکھ لیں، ایسے شرمناک کردار اور واقعات ملیں گے، بندے کو ابکائی آ جائے، یقین نہیں آئے گا کوئی جج اپنے منصف سے اتنا بھی گر سکتا ہے۔ جسٹس منیر کے نظریہ ضرورت سے جسٹس ارشاد کی مشرف پر اندھی مہربانیوں تک آجائیں۔ جسٹس افتخار چودھری اور ثاقب نثار کے شوق خود نمائی، انانیت اور خود پسندی کی ایک نہیں درجنوں سلگتی اور درد انگیز کہانیاں ہمارے ذہنوں میں ابھی تازہ ہیں۔ ہماری عدالتوں سے بعض اوقات ایسے ریمارکس آتے ہیں جو جج سے زیادہ کسی سیاسی ورکرز کی زبان لگتی ہے۔

آج کتنے لوگ ہیں جنہیں موجودہ نظام انصاف سے عدل کی امید ہے؟ انصاف کی فراہمی میں ہم افغانستان سے بھی پیچھے ہیں۔ ہم ایسے سات ملکوں کی فہرست کا حصہ ہیں جو انصاف کی فراہمی میں دنیا بھر میں سب سے نچلے درجے پر ہیں۔ جب بڑے بڑے جج آئین کو لات مار کر آمر کے لیگل فریم ورک آرڈر پر حلف اٹھا نے میں لمحے کی تاخیر نہ کریں، غاصبوں کو آئین میں من مانی ترامیم کی اجازت دے دیں، اور ایک عام شہری کے کیس کا فیصلہ سنانے میں بیس تیس سال لگا دیں تو سوچیں ایسے عدالتی نظام کے پیمانے میں انصاف کتنا ملے گا؟

چلیں اب الیکشن کمیشن کی طرف آجائیں، ایک ایسا ادارہ، شفافیت اور غیر جانبداری جس کی پہلی اور بنیادی صفت ہونی چاہیے، جو جائز اور قانونی حکمرانی کے قیام کا ذمے دار ہوتا ہے مگر اس کی اصلیت سے کون واقف نہیں؟ فیلڈ مارشل ایوب خان کے گھر کی لونڈی بننے والا الیکشن کمیشن آف پاکستان آج تک اپنی آزادی اور خود مختاری سے کوسوں دور ہے۔ الیکشن 2018 میں مرضی کے نتائج کی خاطر آر ٹی ایس سسٹم کو اونٹ کی طرح نکیل ڈال کر جیسے بٹھایا گیا اسے دیکھ کر تو الیکشن کمیشن کی بے چارگی اور بے اختیاری پر رحم آ جاتا ہے۔

یہ دنیا کا وہ واحد ادارہ ہے جس کو پہلے سے پتا ہوتا ہے اقتدار کا ہما کس کے سر بیٹھنے والا ہے، کون سی جماعت اسٹیبلشمنٹ کی آنکھ کا تارا ہے اور کسے ”بارگاہ خاص“ میں شرف قبولیت حاصل ہے۔ یوں آپ کو الیکشن کمیشن انتخابات میں گرگٹ کی طرح رنگ بدلنے کے لیے ہر دم اور ہر مرتبہ تیار ملے گا۔ پھر ہم جمہوری ملک ہونے کے دعوے کرتے ہیں اور یقین رکھتے ہیں دنیا ہمارے دعوے پر ایمان لے آئے گی۔ رہی سہی کسر ہمارے ریٹائرڈ چیف کتابیں لکھ کر پوری کر دیتے ہیں جس میں بلا جھجک اعتراف کرتے ہیں کہ ق گ ل م ن وغیرہ وغیرہ جتنی لیگیں ہیں سب ہمارے ہی ہاتھوں کے تراشیدہ شاہکار ہیں۔

جنرل ضیا الحق فرمایا کرتے تھے آئین چند کاغذات کے پرزوں کے علاوہ اور کیا ہے؟ پرویز مشرف کے لیے تو آئین کسی سائنس دان کی طرح ایسا پسندیدہ مواد تھا جس پر وہ نت نئے تجربات کرتے رہتے تھے۔ وہ خود کو ایسی مخلوق سمجھتے تھے جس پر آئین اور قانون کا کوئی اطلاق نہیں ہوتا لیکن یہ صرف اکیلے ان کا مسئلہ نہیں تھا بلکہ یہ ایک سوچ ہے جو ہمارے اداروں میں نسل در نسل چلتی آ رہی ہے۔ یہ تسلیم شدہ کائناتی سچ ہے کہ جب تک ہر فرد اور ادارہ خود کو آئین اور قانون کے تابع نہیں سمجھے گا معاشرہ حا لت جامد سے باہر نہیں آ پائے گا۔ ہم اگر اسی روش پر چلتے رہے جس پر اب تک چل رہے ہیں تو لکھ رکھیں ہم آج بنگلہ دیش سے پیچھے ہیں کل روانڈا اور بنانا جیسے ملک بھی ہم سے آگے ہوں گے۔

عوام کے ساتھ دھوکے بازیوں کی ویسے تو لمبی تاریخ ہے لیکن جو تاریخ ساز دھوکہ، جو گھناؤنا فراڈ نئے پاکستان اور تبدیلی کے نام پر اس بار ہوا، اس کے سامنے تو ستر سال کے سارے دھوکے، ساری ٹھگیاں اور تمام تر نوسر بازیاں ماند پڑ گئیں۔ نئے بندوبستی نظام نے جو خواب دکھائے تھے انہیں تو چھوڑیں عوام کی آنکھوں سے بچے کھچے خواب بھی گدھ کی طرح نوچ لیے گئے۔ اس کے باوجود اگر کوئی تبدیلی کے دعوے کرتا ہے تو اس کے لیے کم سے کم کالے پانی کی سزا تو بنتی ہے۔

آپ اگر دیوتا ہوریس کی طرح سورج اور چاند جیسی آنکھیں رکھتے ہیں، پاتال سے ساتویں آسمان تک بلکہ ان دیدہ ہواؤں کو بھی دیکھنے پر قادر ہیں، تب بھی میرا آپ کو چیلنج ہے ان دو برسوں کے دوران اس تعفن زدہ نظام میں تبدیلی کی کوئی ایک علامت ہی ڈھونڈ کر دکھا دیں، اگر آپ مجھے تھوڑی سی قیاس آرائی کی اجازت دیں تو تین سال بعد بھی میں آپ کو یہی چیلنج دینے والا ہوں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).