جاوید دانش کی ٹیلی مووی ”بڑا شاعر چھوٹا آدمی“


انسان ایک بہت ہی کمپلیکس اور پراسرار چیز ہے۔ کبھی یہ اعلٰی اور ارفع بن کر آسمان کی بلندیوں کو چھونے کی کوشش کرتا ہے اور کبھی بہت چھوٹا بن کر انسانی سطح سے بھی گر جاتا ہے۔ سب انسان اپنے اپنے معاشروں میں پروان چڑھتے ہیں اور انہی معاشروں کے جبر کا بھی شکار ہوتے ہیں۔ اپنی پسند کے ماحول و معاشرے میں آنکھ کھولنا انسان کے بس میں نہیں ہوتا اسی لیے انسانی زندگیوں پر ماحول کا بہت اثر پڑتا ہے۔ ایک بچے کے پیدا ہونے کے بعد اس کی ابتدائی کنڈیشننگ اس کے اپنے گھر سے شروع ہوجاتی ہے اور وہ بالغ ہونے تک اسی ابتدائی کنڈیشننگ میں فریم ہوجاتا ہے اس کے بعد پھر وہ سکول، کالج اور یونیورسٹی میں اپنی ابتدائی کنڈیشننگ بیگج کے ساتھ ہی اپنی شخصیت کو فریم کرتا چلا جاتا ہے اور پھر ایک دن وہی ابتدائی بیگج اس کی شخصیت کا خاصا بن جاتا ہے۔

ایسے لوگوں کو ہم روایت پسند یا روایتی کہتے ہیں۔ مگر کچھ لوگ ایسے بھی ہوتے ہیں جن کو بچپن سے ہی سوال کرنے کی عادت ہوتی ہے وہ ایک طرح کے فریم آف لائف سے بوریت محسوس کرنے لگتے ہیں او ر زندگی کی یک رنگی سے اکتانے لگتے ہیں۔ کوئی بھی سکول، کالج اور یونیورسٹی کا ماحول ان کی تجسس و جستجو کو مسخ کرنے میں کامیاب نہیں ہو پاتا۔ اس طرح کے لوگ غیر روایتی اور آزاد فکر کے مالک ہوتے ہیں اور اپنی آزاد پسند فطرت کی وجہ سے ایک بڑی چیلنجنگ لائف گزارتے ہیں۔

یہ غیر روایتی لوگ شاعر، ادیب، فنکار اور موسیقار ہوتے ہیں جو اپنے فن میں ڈوب کر اور اپنی ذات کی گہرائی میں اتر کر دانائی کل کا گیان حاصل کرنے کی اپنی اپنی بساط کے مطابق سعی کرتے ہیں۔ گیان کی اس شاہراہ پر چلتے چلتے کچھ لوگ اپنا ذہنی توازن برقرار نہیں رکھ پاتے اور نروس بریک ڈاؤن کا شکار ہو جاتے ہیں۔ بڑے لوگ اس قسم کی ذہنی پیچیدگیوں سے اکثر گزرتے رہتے ہیں اور انہی پیچیدگیوں کے اثرات ان کی پریکٹیکل لائف پر بھی پڑتے ہیں۔

اکثر بڑے بڑے شاعر و ادیب اپنی نجی زندگی میں اتنے بڑے نہیں ہوتے جتنا کہ وہ اپنی تحریروں میں بڑے ہوتے ہیں۔ اسی الجھن کو ایک عظیم دانشور رنگ منچ کینیڈا کے روح رواں اور ”ہجرت کے تماشے اور چالیس بابا ایک چور“ جیسی معرکتہ الآراء کتابوں کے مصنف جاوید دانش نے اپنی ایک مووی ”بڑا شاعر چھوٹا آدمی“ میں ایک فکشن کے طور پر واضح کرنے کی کوشش کی ہے اور ایک کڑوی حقیقت سے پردہ اٹھایا ہے۔ اس مووی میں یہ دکھانے کی کوشش کی گئی ہے۔

1۔ بڑا شاعر بڑا آدمی کیسے ہوتا ہے؟
2۔ ایک چھوٹا شاعر بڑا کیسے بن جاتا ہے؟
3۔ حقیقی محبت کیسی ہوتی ہے؟
4۔ بناؤٹی محبت کیسی ہوتی ہے؟
5۔ بڑے پن کے واہمے میں کیسا نشہ ہوتا ہے؟
6۔ نرگسیت کے مارے ہوئے لوگ کس ذہنیت کے مالک ہوتے ہیں؟
7۔ خیالات کے بادشاہ اکثر اپنی نجی زندگی میں غریب کیوں ہوتے ہیں؟
8۔ موسیقار، فنکار یا رائٹر شہرت کے مکروہ سرکل میں کیوں پھنسے رہتے ہیں؟
9۔ کسی لکھاری کا خود کو مقبول بنانے کا نشہ کیسا ہوتا ہے؟
10۔ شعر و ادب سے تعلق رکھنے والے لوگوں کے درمیان تعریف کا سوڈو کلچر کیسے پنپتا ہے؟
11۔ کیا فیس بک کی چمک دمک کا حقیقی دنیا سے کوئی تعلق ہوتا ہے؟

جاوید دانش نے ایک ایسے مسئلے کو موضوع بنایا ہے کہ جس کو سامنے لانے کے لیے بڑے دل گردے اور ہمت کی ضرورت ہوتی ہے۔ یہ مسئلہ ایک اجتماعی کلچر کا روپ دھار چکا ہے۔ لفظوں کے موتی پرونے والے شاعر و ادیب اپنی نجی زندگی و مراسم میں زیادہ کامیاب کیوں نہیں ہوتے؟ کیا ان کا قلم ان کے ضمیر کا آئینہ دار نہیں ہوتا؟ عزت و احترام کا سبق دینے والوں کے درمیان اس اخلاقی بھاشن کا فقدان کیوں ملتا ہے؟ اکثر مشاعروں میں یہ دیکھنے کو ملتا ہے کہ شعراء اس بات پر جھگڑ پڑتے ہیں کہ سب سے پہلے کلام کون پڑھے گا۔

آخر یہ چھوٹائی بڑھائی کا عنصر ایسے لوگوں میں کیوں پایا جاتا ہے جو خیالات کے آنگن میں لفظوں کی مالا پروتے ہیں۔ اس مووی کا مقصد اس سرے کو ڈھونڈنا ہے جہاں سے یہ سارے مسئلے پیدا ہوتے ہیں اور ایک بحث و گفتگو کا آغاز کرنا ہے کہ اس مسئلے کا تعلق معیشت سے ہے یا لیک آف مورالٹی سے ہے۔ یہ مووی کثیر الجہت ہے اور دو ایسے شاعر و ادیب کے گرد گھومتی ہے جو اپنی ذہنی سطح کے لحاظ سے بعد المشرقین ہیں۔ ایک ادیب کا نام سحر ہے جو کینیڈا میں رہتا ہے جبکہ دوسرے ادیب کا نام احمر ہے جو کہ انڈیا سے ہے اور ایک ادبی ایوارڈ حاصل کرنے کینیڈا آیا ہوا ہے۔

احمر کو سپانسر اس کی یونیورسٹی فیلو میڈم کرنل بشیر کرتی ہے جس کی مالی پوزیشن کافی مستحکم ہے اور بڑے اثر و رسوخ کی مالک ہے۔ سحر اپنے اصولوں اور آدرشوں کے ساتھ بہت مخلص ہے اور اپنے ذہنی سکون و اطمینان کے لیے لکھتا ہے۔ اس کا قلم اس کے ضمیر کا آئینہ دار ہے اور وہ اپنے قلم کی حرمت کو بڑی خودداری کے ساتھ برقرار رکھتا ہے۔ جبکہ تصویر کا دوسرا رخ احمر ہے جس کی زندگی کا نصب العین شہرت کی بلندیوں کو جائز و ناجائز طریقے سے چھونا ہے اور اپنی پھس پھسی زندگی کو تصوراتی چارمنگ سے رنگنا ہے۔

میڈم بشیر اپنے یونیورسٹی کے پیار کو پانے کے لیے احمر کو مصنوعی بلندیوں پر لے جانے کا بیڑہ اٹھاتی ہے مگر احمر ان مصنوعی بیساکھیوں کے ذریعے سے خوب اڑتا ہے اور ایک ساتھ بہت سارے معاشقوں میں گھر جاتا ہے۔ جاوید دانش نے اس مووی میں فیس بک کی حقیقت کو بھی آشکار کرنے کی کوشش کی ہے۔ فیس بک جو کہ حقیقت میں فیک بک کہلاتی ہے جس کے ذریعے سے ایک زہرہ نامی نوجوان لڑکی احمر کے عشق میں گرفتار ہوجاتی ہے۔ وہ فیس بک پر احمر کے اسٹیٹس کو دیکھ کر اس کو اپنا آئیڈیل بنا لیتی ہے اور اپنے یونیورسٹی فیلو عدیل کو جو کہ زہرہ سے حقیقی پیار کرتا ہے اس کو فراموش کر دیتی ہے۔

میڈم بشیر بار بار زہرہ کو اس سراب سے بچانے کی کوشش کرتی ہے جس سراب کے پیچھے وہ خود آج تک بھاگ رہی ہے میڈم بشیر زہرہ سے بار بار التجا کرتی ہے کہ وہ پیار کی اس دوڑ سے خود کو الگ کر لے۔ وہ اس بات کا بھی اقرار کرتی ہے کہ کہ احمر کو بڑا آدمی اس نے خود بنایا ہے اور اس کو سپانسر کر کے اس کی قیمت بھی ادا کر دی ہے۔ سحر جو کہ واقعی حقیقی لکھاری ہے وہ اپنے دوست احمر کو سمجھانے کی کوشش کرتا ہے کہ یہ عارضی شہرت چند روزہ ہوتی ہے اور اس کو اپنے آدرشوں کے ساتھ مخلص ہو کر آگے بڑھنا چاہیے مگر احمر اپنے دوست کو یہ کہہ کر لتاڑ دیتا ہے کہ یار سحر یہ آدرش اور کھرا پن سارے بے معنی الفاظ ہیں اور یہ صرف کتابوں میں ہی اچھے لگتے ہیں۔

جاوید دانش نے اس مووی میں بڑے لوگوں کا بڑا پن اور چھوٹے لوگوں کا چھوٹا پن واضح طور پر دکھانے کی کوشش کی ہے۔ میڈم بشیر کا وہ جملہ جو وہ احمر سے کہتی ہے وہ اس مووی کی جان ہے۔ وہ کہتی ہے ”شاعر کا تو پتا نہیں مگر تم ایکٹر بہت بڑے ہو“ اس مووی میں ڈاکٹر خالد سہیل بطور سائکاٹرسٹ میڈم بشیر کی نجی زندگی کو پر سکون بنانے کی کو شش کرتے ہیں اور اس کی ذہنی الجھنوں کو سلجھانے کی کو شش کرتے ہیں۔ اس مووی میں جاوید دانش نے مصنوعی ہنسی ’مصنوعی چہرے اور مصنوعی تعلقات کو دکھانے کی کوشش کی ہے۔

اس میں ادبی پالیٹکس ’نا اہل لوگوں کو ادبی ایوارڈ سے نوازنا اور ادیبوں کی آپس میں کشمکش کو بھی دکھایا گیا ہے۔ اس میں چھوٹے لوگوں کو جو بڑے پن کا واہمہ ہو جاتا ہے وہ بھی دکھانے کی کوشش کی گئی ہے۔ اس مووی میں ادب کے سوڈو کلچر کو ننگا کر نے کی کو شش کی گئی ہے۔ جاوید دانش کی یہ مووی دیکھنے اور سمجھنے سے تعلق رکھتی ہے اور یوٹیوب پر اسی نام سے موجود ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).