گرفتاریاں، ضمانتیں اور فراریاں


یوں تو تو پاکستان کی سیاسی تاریخ گرفتاریوں اور جیلوں سے بھری پڑی ہے۔ کوئی بھی سیاستدان تب تک حقیقی سیاستدان نہیں بن سکتا جب تک اس نے جیل کی ہوا نا کھائی ہو۔ ہم نے تاریخ میں سابق وزیر اعظم ذوالفقار علی بھٹو کی گرفتاری اور پھر ان کو پھانسی لگتے دیکھا، مگر بھٹو اپنے اندر ایک عظیم قائدانہ صلاحیت رکھتے تھے اور حقیقی معنوں میں عوام کے نمائندہ کے طور پر ابھرے۔ جنرل ضیاء الحق کے دور حکومت میں جہاں نصرت بھٹو پر ظلم ڈھائے گئے وہیں بے نظیر بھٹو نے بھی مشکلات کا سامنا کیا۔

اسی طرح آصف زرداری نے بھی جیل میں کافی عرصہ گزارا۔ 1999 کے مارشل لا کے بعد میاں نواز شریف اور میاں شہباز شریف کو پابند سلاسل کیا گیا اور پھر ہم نے دیکھا کہ کیسے میاں صاحبان معاہدہ کر کہ سعودی عرب روانہ ہوئے تھے۔ اسی طرح پانامہ لیک کے بعد سابق نا اہل وزیر اعظم نواز شریف صاحب کو وزارت عظمیٰ سے ہٹایا گیا تو اسی طرح بعد ازاں انھیں پارٹی صدارت سے بھی فارغ کیا گیا۔ اعلیٰ عدلیہ نے اس نا اہلی کے فیصلے کے ساتھ ساتھ نواز شریف صاحب کے خلاف نیب کورٹ میں ریفرنس دائر کرنے کا بھی حکم دیا جس کے نتیجہ میں نواز شریف صاحب کو 10 سال قید، مریم نواز کو 7 سال جبکہ کیپٹن ر صفدر کو 5 سال قید با مشقت کا فیصلہ سنایا۔

نواز شریف و مریم نواز کی وطن واپسی اور گرفتاری کے بعد نواز شریف صاحب کی طبیعت خرابی اور لاہور ہائیکورٹ میں شہباز شریف کی گارنٹی کے بعد نواز شریف صاحب کو لندن روانگی کی اجازت ملی۔ ہم نے گزشتہ دو سے تین سالوں میں نیب اور سیاستدانوں کے درمیان چوہے بلی کا کھیل دیکھا۔ ایک طرف گرفتاری ہوتی ہے تو دوسری جانب ضمانتیں اور پھر راہ فرار اختیار کیا جاتا۔ جو قائدین اپنے ہی دفاع میں مضبوط وکیل اور مضبوط بیان نہیں دے سکتے وہ کس طرح کسی قوم کے قائد کے کہلاتے ہیں۔ پیپلز پارٹی و نون لیگ نے کم و بیش 35 سال اس ملک پر حکومت کی مگر اس عرصہ میں یہ سیاسی جماعتیں ایسا ہسپتال نہیں بنا سکیں جہاں وہ اپنا علاج کروا سکیں۔

خواہ وہ نواز شریف ہیں یا آصف زرداری دونوں کو جب بھی کوئی بیماری لا حق ہوتی ہے تو لندن اور امریکا کا رخ کرتے ہیں۔ پنجاب میں نواز شریف صاحب اور سندھ میں پیپلز پارٹی کی طویل حکومت میں علاج اور تعلیم پر اس قدر ملکی سرمایہ نہیں لگایا گیا جس قدر سرمایہ کی ضرورت تھی۔ سابق صدر۔ آصف علی زرداری صاحب اور ان کی ہمشیرہ کے خلاف توشہ خانہ کیس اور منی لانڈرنگ کیسز بھی چل رہے ہیں، کب نیب انھیں بھی گرفتار کرتی ہے تو موصوف بھی بیمار ہو جاتے ہیں بیرون ملک علاج کی راہیں دیکھتے ہیں۔

حالیہ دنوں آل پارٹیز کانفرنس میں جس طرح بیمار قائد نواز شریف صاحب نے بیرون ملک یعنی لندن سے خطاب کیا اور اداروں و نظام کے خلاف آواز اٹھائی اس سے ایسا ہی ظاہر ہوتا تھا جیسے الطاف حسین قسط نمبر 2 کا آغاز ہو گیا۔ جب کبھی اپوزیشن کو نظر آتا ہے کہ مقدمات شدت اختیار کرنے والے حب اسی وقت اپوزیشن کو احتجاج، جلسہ، جلوس و ریلیاں یاد آجاتی ہیں۔ اپوزیشن لیڈر کی گرفتاری اور پھر مریم نواز کی پریس کانفرنس جلتی پر تیل جھڑکنے کے کے مترادف تھی۔

ایک طرف سابق گورنر سندھ محمد زبیر آرمی چیف کی ملاقاتیں کرتے ہیں تو دوسری طرف صبح متحدہ اپوزیشن اجلاس منعقد کیا جاتا ہے۔ حالیہ دنوں لاہور ہائیکورٹ میں نیب ٹھوس شواہد کے ساتھ کیس لڑنے ہائی کورٹ پہنچی جبکہ شہباز شریف صاحب فقط اپنی 10 سالہ حکومت کی صفائی اور ایک دہلے کی کرپشن نا کرنے کا گیت الاپتے رہے۔ شہباز شریف صاحب کے پاس کوئی ٹھوس ثبوت یا دستاویزات نہیں تھیں جس سے وہ اپنے کو بری الذمہ ثابت کر سکتے۔

شہباز شریف صاحب کے 14 روزہ ریمانڈ اور پھر اربوں روپے منی لانڈرنگ کے انکشافات ہوئے ہیں۔ انہوں نے اپنے ملازمین کے اکاؤنٹ سے پیسے موصول کیے جبکہ شہباز شریف صاحب اس سے انکاری ہیں۔ ابھی شہباز شریف صاحب کے خلاف ایک اور مضبوط مقدمہ تیار ہے جس کا 6 سالوں سے آج تک فیصلہ نہیں آ سکا۔ 13 فروری 2020 کو محترم چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس گلزار احمد خان صاحب کی سربراہی میں 3 رکنی بینچ نے لاہور ہائیکورٹ کو نیا بینچ تشکیل دے کر سانحہ ماڈل ٹاؤن کیس کا 3 ماہ میں فیصلہ کرنے کی ڈائریکشن دی۔

یہ مقدمہ جے۔ آئی۔ ٹی کو کام سے روکنے سے متعلق تھا، اس سے قبل ڈاکٹر طاہر القادری کی وکالت میں سابق چیف جسٹس ثاقب نثار صاحب نے نئی جے۔ آئی۔ ٹی بنانے کا حکم دیا تھا مگر افسوس آج تک معاملہ جوں کا توں ہے۔ میری سمجھ سے بالا ہے کہ اعلیٰ عدلیہ کی بار بار ڈائریکشن کے بعد اس مقدمہ کا فیصلہ کیوں نہیں ہوسکا؟ محترم وزیر اعظم عمران خان صاحب نے پنجاب میں میں اپنی الیکشن کمپین سانحہ ماڈل ٹاؤن کیس پر کی مگر افسوس آج تحریک انصاف کی ہی حکومت میں وہ تمام لوگ جو اس مقدمہ میں ملوث ہیں سب کو اعلیٰ عہدوں پر فائز کر دیا گیا ہے۔

اگر اس مقدمہ کا فیصلہ بروقت ہو جاتا تو آج سانحہ ساہیوال، صلاح الدین کیس، مروہ قتل کیس، نقیب اللہ محسود کیس اور حالیہ موٹروے کیس جیسے کیسز نا ہوتے۔ میرے خیال میں چوری سے بڑا جرم کسی بھی مسلمان ریاست میں قتل ہے۔ ان شہدا کے وارثان کی کیفیات کو حکومت وقت کو سمجھنا ہوگا اور انصاف کی فراہمی میں اپنا کردار ادا کرنا ہوگا۔ مجھے اس سے کوئی غرض نہیں کہ ڈاکٹر طاہر القادری اور عوامی تحریک آپ کو پسند گیں یا نہیں۔

میری تحریر ہمیشہ مظلوم کے ساتھ رہی ہے اور میری نظر میں ان 14 پاکستانیوں کو انصاف دلانا ہر شہری و اداروں کی ذمہ داری ہے۔ ہمیں ٹھوس قوانین بنانے ہوں گے اور اس سے بھی بڑھ کر سزاؤں پر عمل درآمد کروانا ہوگا۔ شہباز شریف صاحب کا حالیہ مقدمہ مضبوط ہے مگر میرے تجزیہ کے مطابق چند ہفتوں میں شہباز شریف صاحب جیل سے بھی باہر آ جائیں گے اور قوی امکان ہے کہ آپ ملک سے بھی باہر چلے جائیں۔ آپ کی راہ فراری میں بیماری آپ کی سب سے بڑی دوست ہوگی اور میڈیکل رپورٹس آپ کے سرٹیفکیٹ ہوں گے۔

اللہ کرے میرا تجزیہ غلط ثابت ہو اور ملک میں آئین و قانون ہر شہری کے لیے برابر ہو۔ ہمیں اس ملک میں سخت قوانین کے ساتھ سزاؤں پر 100 فیصد عمل کروانا ہوگا تاکہ انصاف کا بول بالا ہو سکے۔ مجھے امید ہے کہ ادارے سانحہ ماڈل ٹاؤن کیس و دیگر اہم مقدمات میں عوام الناس کو جلد انصاف فراہم کریں گے تاکہ اللہ کا خاص کرم اس دھرتی کو اپنی لپیٹ میں لے۔ انشا اللہ جلد ملک میں مساوی نظام عدل رائج ہوگا اور ہر مظلوم کو انصاف فراہم ہو سکے


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).