لال بہادر شاستری: وہ انڈین وزیر اعظم جن کی میت کو صدر ایوب خان نے کندھا دیا


یہ 26 ستمبر 1965 کا واقعہ ہے۔ انڈیا پاکستان کی جنگ ختم ہوئے ابھی چار دن ہی گزرے تھے۔ جب انڈیا کے وزیر اعظم لال بہادر شاستری نے دلی کے رام لیلا میدان میں ہزاروں لوگوں کے سامنے خطاب کرنا شروع کیا تو وہ کچھ زیادہ ہی اچھے موڈ میں تھے۔

تالیوں کے شور کے درمیان شاستری نے اعلان کیا کہ پاکستان کے ’صدر ایوب نے کہا تھا کہ وہ دلی تک چہل قدمی کرتے ہوئے پہنچ جائیں گے۔ وہ اتنے بڑے آدمی ہیں، لحیم و شحیم۔ میں نے سوچا کہ انھیں دلی تک چلنے کی تکلیف کیوں دی جائے۔ ہم ہی لاہور کی طرف بڑھ کر ان کا استقبال کریں۔‘

یہ وہی شاستری ہیں جن کے پانچ فٹ دو انچ کے قد اور آواز کا ایوب خان نے ایک سال پہلے مذاق اڑایا تھا۔

ایوب خان اکثر لوگوں کے بارے میں رائے، ان کے برتاؤ اور طرز عمل کی بجائے ظاہری روپ کی بنیاد پر قائم کیا کرتے تھے۔

پاکستان میں انڈیا کے سابق ہائی کمشنر شنکر باجپائی نے (جن کا حال ہی میں انتقال ہوا) مجھے بتایا تھا کہ ’ایوب نے سوچنا شروع کر دیا تھا کہ انڈیا کمزور ہے۔ وہ نہرو کی وفات کے بعد دلی جانا چاہتے تھے لیکن انھوں نے یہ کہہ کر اپنا دلی کا سفر رد کر دیا تھا کہ اب کس سے بات کریں۔ شاستری نے کہا آپ مت آئیے، ہم آ جائیں گے۔‘

’وہ نان الائینڈ موومنٹ کے ایک اجلاس میں شرکت کے لیے قاہرہ گئے ہوئے تھے۔ واپسی پر وہ کچھ گھنٹوں کے لیے کراچی میں رکے۔ میں اس بات کا عینی شاہد ہوں کہ جب لال بہادر شاستری کو ہوائی اڈے پر رخصت کرنے آئے تو ایوب خان نے اپنے ساتھیوں سے اشارہ کرتے ہوئے کہا تھا کہ ان کے ساتھ بات کرنے میں کوئی فائدہ نہیں ہے۔‘

یہ بھی پڑھیے

’میرے والد نے جنرل ایوب خان کی طرف سے میری آزادی کی پیشکش رد کر دی تھی‘

‘شاستری کی موت سے متعلق دستاویزات عام کی جائیں’

نہرو، ایڈوینا کی قربت سے کس خاتون کو حسد تھا

امریکی صدر جانسن

امریکی صدر جانسن

جب امریکی صدر کی دعوت مسترد کر دی

لال بہادر شاستری کے قاہرہ جانے سے پہلے امریکی سفیر چیسٹر بولس نے ان سے مل کر امریکی صدر لنڈن جانسن کی طرف سے انھیں امریکہ آنے کی دعوت دی تھی۔

لیکن اس سے پہلے کہ شاستری اس بارے میں کوئی فیصلہ کر پاتے جانسن نے اپنی دعوت واپس لے لی تھی۔ اس کی وجہ فیلڈ مارشل ایوب خان کی طرف سے امریکہ پر ڈالے جانے والا دباؤ تھا۔ ان کا کہنا تھا کہ ایک ایسے وقت میں جب وہ انڈیا کے ساتھ نئے تعلقات کی بنیاد رکھنے کی کوشش کر رہے ہیں امریکہ کو اس تصویر میں نہیں آنا چاہیے۔

سینئیر صحافی کلدیپ نیر لکھتے ہیں کہ شاستری نے اس بے عزتی کے لیے جانسن کو کبھی معاف نہیں کیا۔ کچھ ماہ بعد جب وہ کینیڈا جا رہے تھے تو امریکی صدر جانسن نے انھیں راستے میں واشنگٹن میں رکنے کی دعوت دی لیکن شاستری نے اسے قبول نہیں کیا۔

ایک آواز پر لاکھوں شہریوں نے ایک وقت کا کھانا چھوڑ دیا

لال بہادر شاستری کے بیٹے انیل شاستری کہتے ہیں کہ ’سنہ 1965 کی جنگ کے دوران امریکی صدر لنڈن جانسن نے لال بہادر شاستری کو دھمکی دی تھی کہ اگر آپ نے پاکستان کے خلاف جنگ بند نہیں کی تو ہم آپ کو پی ایل 480 کے تحت جو لال گندم بھیجتے ہیں، اسے بند کر دیں گے۔‘

اس وقت انڈیا گندم کی پیداوار کے حوالے سے خود کفیل نہیں تھا۔ شاستری کو یہ بات بہت بری لگی اور ان کی عزت نفس کو ٹھیس پہنچی۔ انھوں نے عوام سے کہا کہ ہم ایک وقت کا کھانا نہیں کھائیں گے۔

شاستری

انیل شاستری کہتے ہیں،’لیکن اس اپیل سے پہلے انھوں نے میری ماں للیتا شاستری سے کہا کہ کیا آپ ایسا کر سکتی ہیں کہ آج شام ہمارے ہاں کھانا نہ بنے۔ میں کل پورے ملک سے ایک وقت کا کھانا نہ کھانے کی اپیل کرنے جا رہا ہوں۔ میں دیکھنا چاہتا ہوں کہ میرے بچے بھوکے رہ سکتے ہیں یا نہیں۔‘

انیل شاستری کہتے ہیں کہ ’جب انھوں نے دیکھ لیا کہ ہم لوگ ایک وقت بنا کھانا کھائے رہ سکتے ہیں تو انھوں نے تمام شہریوں سے بھی ایسا کرنے کے لیے کہا۔‘

جب خرچہ چلانے کے لیے اخباروں کے لیے لکھا

سنہ 1963 میں کامراج منصوبے کے تحت شاستری کو نہرو کی کابینہ سے استعفیٰ دینا پڑا۔ اس وقت وہ وزیر داخلہ تھے۔ کلدیپ نیر کہتے ہیں، ’اس شام میں شاستری کے گھر گیا۔ پورے گھر میں ڈرائینگ روم کو چھوڑ کر ہر طرف اندھیرا چھایا ہوا تھا۔ شاستری وہاں اکیلے بیٹھے اخبار پڑھ رہے تھے۔ میں نے ان سے پوچھا کہ باہر بجلی کیوں نہیں جل رہی؟ تو انھوں نے جواب دیا کہ اب سے مجھے گھر کا بجلی کا بل اپنی جیب سے دینا پڑے گا۔ اس لیے میں فضول بجلی استعمال کرنا برداشت نہیں کر سکتا۔‘

شاستری کے لیے رکن پارلیمان کی حیثیت سے پانچ سو روپے ماہانہ کی تنخواہ پر اپنے خاندان کا خرچہ چلانا مشکل پڑ رہا تھا۔ کلدیپ نیر نے اپنی سوانح عمری میں لکھا ہے ’میں نے انھیں اخباروں میں لکھنے کے لیے راضی کر لیا تھا۔ میں نے ان کے لیے ایک سنڈیکیٹ سروس شروع کی کہ جس کی وجہ سے ان کے مضامین دی ہندو، امرت بازار پتریکا، ہندوستان ٹائمز اور ٹائمز آف انڈیا میں شائع ہونے لگے۔ ہر اخبار انھیں ایک مضمون کے 500 روپے دیتا تھا۔‘

’اس طرح ان کی 2000 روپے کی اضافی کمائی ہونے لگی۔ مجھے یاد ہے کہ انھوں نے پہلا مضمون جواہر لعل نہرو اور دوسرا لالہ لاجپت رائے پر لکھا تھا۔‘

جونئیر افسروں کو چائے پیش کرنے والے شاستری

شاستری

لال بہادر ساشتری کے ساتھ کام کرنے والے تمام افسران کا کہنا ہے کہ ان کا برتاؤ انتہائی شائستہ تھا۔ ان کے نجی سیکرٹری کے طور پر کام کرنے والے سی پی شری واستو ان کی سوانح حیات ’لال بہادر شاستری اے لائف آف ٹروتھ ان پالیٹکس‘ میں لکھتے ہیں، ’شاستری کی عادت تھی کہ وہ اپنے ہاتھ سے کیتلی سے پیالے میں ہمارے لیے چائے نکالتے اور ہمیں پیش کرتے تھے۔ ان کا کہنا تھا کہ چونکہ یہ ان کا کمرہ ہے اس لیے پیالے میں چائے ڈالنے کا فرض ان کا بنتا ہے۔‘

شری واستو لکھتے ہیں کہ ’کبھی کبھی وہ باتیں کرتے ہوئے اپنی کرسی سے اٹھ کھڑے ہوتے اور کمرے میں چہل قدمی کرتے ہوئے ہم سے باتیں کرتے تھے۔ کبھی کمرے میں زیادہ روشنی کی ضرورت نہیں ہوتی تھی۔ شاستری اکثر خود جا کر بجلی کا بٹن بند کرتے تھے۔ ان کو یہ منظور نہیں تھا کہ عوامی پیسے کا کسی بھی صورت ضیاع ہو۔‘

روسی وزیر اعظم نے شاستری کو سوپر کمیونسٹ کہا

جب لال بہادر شاستری تاشقند کے اجلاس میں شرکت کے لیے روس گئے تو اپنا کھادی کا اونی کوٹ پہن کر گئے۔ روس کے وزیر اعظم ایلکسی کوسیگین کو فوراً اندازہ ہو گیا کہ اس کوٹ سے تاشقند کی سردی کا مقابلہ نہیں ہو سکے گا۔ اگلے دن انھوں نے شاستری کو یہ سوچ کر ایک اورکوٹ تحفے کے طور پر دیا کہ وہ اسے تاشقند کی سردی میں پہنیں گے۔

شاستری

انیل شاستری کہتے ہیں کہ اگلے دن کوسیگین نے دیکھا کہ شاستری پھر وہی پرانا کھادی کا کوٹ پہنے ہوئے ہیں۔ انھوں نے بہت جھجھکتے ہوئے شاستری سے پوچھا کہ کیا آپ کو کوٹ پسند نہیں آیا؟ تو شاستری نے جواب دیا وہ کوٹ واقعی بہت گرم ہے لیکن میں اسے اپنے وفد کے ایک رکن کو کچھ دنوں کے لیے پہننے کے لیے دے دیا ہے کیونکہ وہ اپنے ساتھ اس موسم میں پہننے کے لیے کوٹ نہیں لا پایا ہے۔

کوسیگین نے انڈین وزیر اعظم اور پاکستانی صدر کے اعزاز میں منعقد کی گئی ایک تقریب میں اس واقعہ کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ ہم لوگ تو کمیونسٹ ہیں لیکن وزیر اعظم شاستری ’سوپر کمیونسٹ‘ ہیں۔

سرکاری گاڑی کا کرایہ ادا کرنے کا قصہ

لال بہادر شاستری کے دوسرے بیٹے سنیل شاستری بھی ان کے بارے میں ایک قصہ سناتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں،’جب شاستری وزیر اعظم بنے تو ان کے استعمال کے لیے انھیں ایک سرکاری شیورلے امپالا گاڑی دی گئی۔ ایک دن میں نے بابو جی کے نجی سیکرٹری سے کہا کہ وہ ڈرائیور کو امپالا کے ساتھ گھر بھیج دیں۔ ہم نے ڈرائیور سے کار کی چابی لی اور دوستوں کے ساتھ ڈرائیو پر چلے گئے۔‘

’دیر رات جب ہم گھر لوٹے تو ہم نے کار گیٹ پر ہی چھوڑ دی اور گھر کے پیچھے سے کچن کے راستے سے گھر میں داخل ہوئے۔ میں جا کر اپنے کمرے میں سو گیا۔ اگلے دن صبح ساڑھے چھ بجے میرے کمرے کے دروازے پر دستک ہوئی۔ میں نے سوچا کی کوئی نوکر دروازہ کھٹکھٹا رہا ہے۔ میں نے چلا کر کہا کہ ابھی مجھے تنگ نہ کریں کیوںکہ میں رات دیر سے سویا ہوں۔‘

’دروازے پر پھر دستک ہوئی اور میں نے دیکھا کہ بابوجی سامنے کھڑے ہیں۔ انھوں نے مجھے میز تک آنے کے لیے کہا، جہاں سب لوگ چائے پی رہے تھے۔ وہاں اماں نے مجھ سے پوچھا کہ کل رات تم کہاں گئے تھے اور اتنی دیر سے واپس کیوں آئے؟ بابوجی نے پوچھا کہ تم گئے کیسے تھے کیونکہ جب میں واپس آیا تو تمہاری فی ایٹ کار تو پیڑ کے نیچے کھڑی تھی۔‘

سنیل شاستری کہتے ہیں کہ ’مجھے سچ بتانا پڑا کہ ہم ان کی سرکاری امپالا میں گھومنے نکلے تھے۔ بابوجی اس گاڑی کا تبھی استعمال کرتے تھے جب کوئی غیر ملکی مہمان دلی آتا تھا۔ چائے پینے کے بعد انھوں نے مجھ سے کار کے ڈرائیور کو بلانے کے لیے کہا۔ انھوں نے ڈرائیور سے پوچھا کہ کیا آپ اپنی کار میں کوئی لاگ بک رکھتے ہیں؟ جب ڈرائیور نے ہاں میں جواب دیا تو انھوں نے پوچھا کہ کل اپمالا کار کل کتنے کلو میٹر چلی ہے؟‘

’ڈرائیور نے کہا 14 کلومیٹر، تو انھوں نے کہا کہ اسے نجی استعمال کی مد میں داخل کیا جائے،اور اماں سے کہا کہ فی کلومیٹر کے حساب سے 14 کلومیٹر کے لیے جتنا پیسے بنتے ہیں وہ ان کے نجی سیکرٹری کو دے دیں تاکہ وہ سرکاری کھاتے میں جمع کروائے جائے۔ تب سے لے کر آج تک میں نے یا میرے بھائی نے کبھی کسی ذاتی کام کے لیے سرکاری کار کا استعمال نہیں کیا۔‘

بہار کے لوگوں کو لینے بس سٹاپ پہنچے

ایک بار وزیر اعظم شاستری نے بہار کے کچھ لوگوں کو اپنے گھر پر ملنے کا وقت دیا۔ اسی دن اتفاق سے ایک غیر ملکی مہمان کے اعزاز میں ایک تقریب بھی منعقد کی جا رہی تھی جہان شاستری جی کا پہنچنا بہت ضروری تھا۔ وہاں سے واپسی میں انھیں دیر ہو گئی۔

تب تک بہار سے ان سے ملنے آئے لوگ ناامید ہو کر جا چکے تھے۔

انیل شاستری کہتے ہیں کہ ’جب شاستری جی کو پتا چلا کہ وہ لوگ بہت دیر تک انتظار کرنے کے بعد ابھی ابھی نکلے ہیں تو انھوں نے اپنے سیکرٹری سے پوچھا کہ کیا انھیں پتا ہے کہ وہ کہاں گئے ہوں گے؟ انھوں نے بتایا کہ وزیر اعظم کی رہائش گاہ کے باہر والے بس سٹاپ سے کہیں جانے کی بات کر رہے تھے۔‘

’شاستری جی فوراً اپنے گھر سے نکل کر بس سٹاپ پہنچے۔ ان کے سیکرٹری کہتے ہی رہ گئے کہ لوگوں کو جب پتا چلے گا تو وہ کیا کہیں گے؟ شاستری جی نے جواب دیا، اور تب کیا کہیں گے جب انھیں پتا چلے گا کہ میں لوگوں کو گھر بلانے کے بعد بھی ان سے نہیں ملا۔‘

’سیکرٹری نے کہا کہ میں انھیں لینے چلا جاتا ہوں لیکن شاستری جی نے کہا نہیں میں انھیں لینے خود جاؤں گا اور اس غلطی کے لیے معافی مانگوں گا۔ جب وہ بس سٹاپ پہنچے تو وہاں ملاقات کرنے والے انھیں بس کا انتظار کرتے پایا۔ شاستری جی نے ان سے معافی مانگی اور انھیں اپنے ساتھ گھر لے کر آئے۔‘

پاکستانی صدر اور سوویت روس کے وزیر اعظم نے میت کو کندھا دیا

گیارہ جنوری 1966 کو جب لال بہادر شاستری کا تاشقند میں انتقال ہوا تو ان کے ڈاچا (گھر) سب سے پہلے پہنچنے والے شخص پاکستان کے صدر ایوب خان تھے۔ انھوں نے شاستری کو دیکھ کر کہا تھا، ’ہیئر لائیز اے پرسن ہو کوڈ ہیو براٹ انڈیا اینڈ پاکستان ٹو گیدر (یہاں ایک ایسا شخص لیٹا ہوا ہے جو انڈیا اور پاکستان کو قریب لا سکتا تھا)۔‘

جب شاستری کی میت کو دلی لے جانے کے لیے تاشقند ہوائی اڈے پر پہنچایا جا رہا تھا تو راستے میں سوویت، انڈین اور پاکستانی جھنڈا سرنگوں رکھا گیا تھا۔ جب شاستری کے تابوت کو گاڑی سے اتار کر جہاز پر چڑھایا جا رہا تھا تو ان کو کندھا دینے والوں میں سوویت وزیر اعظم کوسیگین کے ساتھ ساتھ کچھ ہی دن پہلے تک شاستری کا مذاق بنانے والے صدر ایوب خان بھی شامل تھے۔

شاستری کی سوانح حیات لکھنے والے سی پی شری واستو لکھتے ہیں، ’انسانی تاریخ میں ایسی بہت کم مثالیں ہیں جن میں ایک دن پہلے تک ایک دوسرے کے سخت دشمن کہے جانے والے نہ صرف ایک دوسرے کے دوست بن گئے تھے بلکہ دوسرے کی موت پر اپنے دکھ کا اظہار کرتے ہوئے اس کی میت کو کندھا دے رہے تھے۔‘

’شاستری کی موت کے وقت ان کی زندگی کی کتاب پوری طرح سے صاف تھی۔ نہ تو وہ پیسہ چھوڑ کر گئے، نہ ہی کوئی گھر یا زمین۔‘


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32554 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp