دو برتنوں کی کہانی


پرانے زمانے میں کسی دشوار گزار مقام پر، ایک ادھیڑ عمر خاتون رہتی تھی۔ اس کی پرانی سی جھونپڑی میں، پانی کے دو پرانے سے برتن تھے، جن میں وہ روز، دور ندی سے، خود جا کر، پانی بھر کر لاتی تھی۔ اپنے گھڑے کو اگلے دن تک کے لیے بھر لیتی تھی۔ دو میں سے ایک برتن تھوڑا پرانا تھا اور وہ تڑخ چکا تھا۔ یہ خاتون جب بھی پانی بھر کر لاتی، تو جو برتن ٹھیک ہوتا، اس میں تو پورا پانی آ جاتا، مگر جو برتن چٹخ چکا تھا، اس میں سے پانی راستے بھر میں گرتا چلا آتا۔ گھر پہنچتے پہنچتے بمشکل نصف برتن پانی ہی رہ جاتا۔

کچھ عرصے تک یہ سلسلہ یونہی چلتا رہا۔ ایک دن جب خاتون پانی بھر کر واپس آ رہی تھی، تو صاف برتن نے ٹوٹے ہوئے برتن کو طعنہ دیا، کہ تم کمال کے برتن ہو، اپنے آپ کو سنبھال ہی نہیں پاتے؟ جتنا پانی تم میں ڈالا جاتا ہے، تم اس کا آدھا بھی نہیں سنبھال پاتے؟ اور گھر آتے آتے آدھے سے زیادہ سے پانی گرا دیتے ہو۔ تم غیر ذمہ دار بھی ہو اور نا اہل بھی۔ یہ بات اس چٹخے ہوئے برتن کے نازک سے دل میں تیر کی طرح پیوست ہو گئی اور وہ روز بروز شرمسار ہوتا چلا گیا۔ اب اپنی نا اہلی اور بے بضاعتی پر کڑھتا رہتا۔

ایسے ہی ایک مہینہ گزرا ہو گا، کہ تنگ آ کر اس نے فیصلہ کیا کہ وہ مالکن سے درخواست کرے گا، اسے اس ذمہ داری سے سبک دوش کیا جائے، کیوں کہ وہ اس کا اہل نہیں ہے۔ ایک روز جب خاتون ندی سے لوٹ رہی تھی، ٹپکتے برتن نے حوصلہ مجتمع کر کے، مالکن سے اپنے دل کی بات کہہ دی۔ جواب میں خاتون مسکرائی اور کہنے لگی کہ وہ جانتی تھی، اس برتن میں چھوٹے چھوٹے سوراخ ہو چکے ہیں، اور یہ بھی کہ جب وہ پانی بھر کر گھر لے کر جاتی ہے، تو زیادہ تر پانی راستے ہی میں بہہ جاتا ہے۔

اس کے باوجود خاتون نے اس سوراخ دار برتن کو اپنے پاس کیوں رکھا ہوا تھا اور اس برتن کو پانی بھرنے کے لیے کیوں استعمال کرتی تھی، اس کا جواب وہ گھر جا کے دے گی۔

واپسی پر خاتون نے دونوں برتنوں سے کہا کہ وہ اپنی جانب کے راستے کو دیکھتے ہوئے جائیں اور بتائیں کہ انہوں نے کیا دیکھا۔ گھر پہنچ کر مالکن نے سلامت برتن سے یہ سوال کیا، تو اس نے جواب دیا، اس نے تو کچھ نہیں دیکھا۔

مالکن نے یہی سوال بیمار برتن سے کیا۔ اس نے جواب دیا، کہ وہ جس راستے سے گزر کر آیا ہے، اس جانب پھول کھلے ہوئے تھے۔ خاتون اس بات پر مسکرا اٹھی۔ کہا، تم نے بالکل ٹھیک بتایا، کیوں کہ جس راستے سے تم گزر کر آتے ہو، وہاں تمہارے دیے ہوئے پانی سے پھول ہی پھول کھل چکے ہیں۔ جب کہ جس برتن سے پانی نہیں گرتا، اس راستے میں کوئی تبدیلی نہیں آئی۔

لوگ اپنے ذات کے لیے تو حفاظت اور ذمہ داری کے تمام تر تقاضے پورے کرتے ہیں، لیکن ایسے بہت کم ہوتے ہیں، جو دوسروں کے راستے میں پھول اگانے کا سبب بنتے ہیں۔

ابتدائی ایام میں کرونا جب قیامت ڈھا رہا تھا اور دنیا اس کے ہاتھوں بے بس تھی، تو لوگ اپنی بے بسی اور بے بضاعتی کی وجہ سے مایوس ہوتے چلے جا رہے تھے۔ اپنوں کی تڑپتی، سسکتی موت ہلاکت خیزی، اور اپنے کامل بے بس ہو جانے کے احساس نے کل عالم کو شدید قسم کے ڈپریشن اور مینٹل ٹراما میں مبتلا کر دیا تھا۔ زندگی جیسے بے معنی، بد رنگ اور بد نما سی ہو گئی تھی۔ ایسے میں اکثر لوگوں نے اس قیامت کو جھیلنے کی بجائے اس عذاب سے جان چھڑاتے ہوئے خود کشی کرنے کو ترجیح دی۔

یاد پڑتا ہے کہ اٹلی میں سڑکیں جب لاشوں سے بھر گئیں اور ان لاشوں کو اٹھانے والا کوئی نہیں تھا، تو ایک ارب پتی اطالوی نے اپنے سامنے اپنے بہت سے پیاروں کو تڑپتے سسکتے جان دیتے ہوئے دیکھا۔ باوجود اس کے کہ وہ بے پناہ دولت اور وسائل کا مالک تھا، اس نے مایوس ہو کر چھت سے کود کر اپنی جان دے دی۔ یہ تھی مایوسی کی انتہا۔ اس کے ساتھ ساتھ ایسے بے تحاشا افراد اور متعدد تنظیموں کو جانتا ہوں، جنھوں نے اس وبا کے دنوں میں، دن رات ایک کر ڈالا۔ اور دامے، درمے، سخنے، بساط بھر، بساط سے سوا، ہر ممکن، لوگوں کی مدد کی۔

سلام ایسے تمام افراد پر اور ایسے تمام ڈاکٹروں، پیرا میڈیکل اسٹاف، اسپتال کے تمام تر عملے اور اس جونیئر اسٹاف پر، جنھوں نے اپنی جان پر کھیل کر اس تمام عرصے میں، لوگوں کی نا صرف خدمت کی، بلکہ بہت سے لوگوں کو موت کے منہ سے نکالا۔ ایسے میں ریسکیو 1122 کے عملے کی تعریف و تحسین نہ کرنا، ان کی عظیم خدمات کو نفی کرنے کے برابر ہو گا۔ سلام ان عظیم سپوتوں پر جو اس بات کو جانتے ہوئے بھی، کہ ان کی ایمبولینس میں ایک ایسا مریض موجود ہے، جو کووڈ 19 کا شکار ہے اور غالب امکان یہ ہے کہ اس مریض کو اسپتال پہنچاتے ہوئے، یہ مرض ان کو بھی لاحق ہو جائے، پھر بھی انھوں نے اپنے پروا نہ کرتے ہوئے، لازمی حفاظتی لباس اور کٹ کے نہ ہوتے ہوئے بھی، تمام مریضوں کو توجہ اور احتیاط کے ساتھ اسپتال منتقل کیا۔ سلام ان تمام افراد پر جو کرونا کے خلاف اس جنگ میں گم نام رہے، مگر اپنے فرض پر ایسا پہرا دیا کہ اسلاف کی یاد تازہ کردی اور اس بات کا جواب دیا کہ انسان اشرف المخلوقات کیوں کہلاتا ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).