ڈونلڈ ٹرمپ میں کورونا کی تصدیق: امریکی صدر بیماری کے باعث صدارتی ذمہ داریاں پوری کرنے کے قابل نہ رہیں تو؟


ٹرمپ، امریکہ، کورونا

امریکہ کے صدر ڈونلڈ ٹرمپ میں کورونا وائرس کی تصدیق ایسے وقت میں ہوئی ہے جب صدارتی انتخاب میں اب کچھ ہی ہفتے باقی ہیں۔ چنانچہ اس حوالے سے کئی سوالات کھڑے ہوگئے ہیں کہ اب آگے کیا ہوگا۔

صدارتی مہم کے کون سے ایونٹس میں صدر نہیں جا سکیں گے؟

صدر ٹرمپ کو یکم اکتوبر کے لیے اپنا کووڈ 19 کا ٹیسٹ مثبت آنے کے بعد 10 دن تک خود ساختہ تنہائی میں رہنا ضروری ہے، چنانچہ وہ اب بھی 15 اکتوبر کے لیے طے شدہ اگلے صدارتی مباحثے میں حصہ لے سکتے ہیں۔

وائٹ ہاؤس کے مطابق فلوریڈا میں جمعے کے لیے طے شدہ جلسہ اب منسوخ کر دیا گیا ہے۔ اس کے بجائے صدر ‘خطرے کے شکار عمر رسیدہ افراد سے کووڈ 19 کے متعلق فون کال کریں گے۔’

اس ہفتے کے دوران صدر ٹرمپ کے دوسرے جلسے بھی طے شدہ تھے جنھیں اب منسوخ یا ملتوی کیا جائے گا۔

انتخاب کن حالات میں ملتوی کیا جا سکتا ہے؟

صدر ٹرمپ کے خود ساختہ تنہائی کے دنوں کا واضح طور پر ان کی مہم چلانے کی صلاحیت پر فرق پڑے گا۔ چنانچہ اس حوالے سے سوال پیدا ہوا ہے کہ کیا انتخاب ملتوی ہو سکتا ہے، اور اگر ہاں تو ایسا کیسے کیا جا سکتا ہے۔

یہ بھی پڑھیے

کیا امریکی صدر ٹرمپ انتخابات ملتوی کر سکتے ہیں؟

امریکہ کا اگلا صدر کون ہو گا؟ آپ فیصلہ کریں

جو بائیڈن: وہ سیاستدان جنھیں قسمت کبھی عام سا نہیں رہنے دیتی

کیا آپ زیادہ ووٹ لیے بغیر بھی امریکی صدر بن سکتے ہیں؟

قانون کے مطابق امریکی صدارتی انتخاب ہر چار سال کے بعد نومبر کے پہلے پیر کے بعد آنے والے منگل کو ہوتا ہے، چنانچہ اس سال یہ تاریخ تین نومبر ہے۔

اور اس تاریخ کو تبدیل کرنا صدر ٹرمپ کے بجائے امریکی منتخب نمائندوں کے اختیار میں ہے۔

اگر کانگریس کے دونوں ایوانوں میں ارکان کی اکثریت اس کے حق میں ووٹ دیتی ہے تو یہ تاریخ بدل جائے گی، تاہم اس کا امکان کم ہے کیونکہ اس تجویز کو ڈیموکریٹس کی اکثریت والے ایوانِ نمائندگان سے گزرنا ہوگا۔

اور اگر یہ تاریخ بدل بھی دی گئی تب بھی امریکی آئین کے مطابق صدارتی انتظامیہ صرف چار سال تک ہی باقی رہ سکتی ہے، چنانچہ صدر ٹرمپ کی مدت 20 جنوری 2021 کو دوپہر 12 بجے از خود ختم ہوجائے گی۔ اس تاریخ میں تبدیلی کے لیے آئین میں تبدیلی کرنی ہوگی۔ اسے امریکہ کے منتخب نمائندوں یا ریاستی سطح کی اسمبلیوں کی دو تہائی اکثریت کی حمایت چاہیے ہوگی اور اس کے بعد امریکی ریاستوں کی تین چوتھائی حمایت چاہیے ہوگی، جس کے امکانات بھی کم ہیں۔

اگر صدر ٹرمپ بیماری کی وجہ سے کام نہ کر پائیں تو؟

اب تک تو صدر ٹرمپ کے بارے میں کہا گیا ہے کہ ان میں ‘معتدل علامات’ ہیں تاہم اگر وہ اتنے بیمار پڑ گئے کہ اپنی ذمہ داریاں بھی نہ پوری کر سکیں تو امریکی آئین میں اس حوالے سے بھی رہنمائی موجود ہے۔

آئین کی پچیسویں ترمیم کے مطابق صدر اپنے اختیارات نائب صدر کو منتقل کر سکتا ہے جس سے مائیک پینس صدر بن جائیں گے۔ صحتیاب ہونے پر وہ اپنے عہدے پر واپس آ سکتے ہیں۔ یہ رونلڈ ریگن اور جارج ڈبلیو بش کے ادوار میں ہو چکا ہے۔

اگر صدر اس قدر بیمار ہوجائیں کہ اپنے اختیارات بھی نہ منتقل کر سکیں، تو کابینہ اور نائب صدر یہ اعلان کر سکتے ہیں کہ صدر اپنا کام جاری نہیں رکھ سکتے۔ ایسی صورت میں بھی نائب صدر مائیک پینس اس عہدے پر آ جائیں گے۔

اگر اسی دوران مائیک پینس بھی اتنے بیمار ہوجائیں کہ کام کرنے کی صلاحیت کھو بیٹھیں، تو صدارتی جانشینی ایکٹ کے تحت ایوانِ نمائندگان کی سپیکر ڈیموکریٹک پارٹی کی نینسی پیلوسی کو یہ اختیارات منتقل ہوں گے۔

تاہم آئینی ماہرین کا کہنا ہے کہ اختیارات کی ایسی کوئی بھی منتقلی قانونی جنگوں کا سبب بن سکتی ہے۔

اگر نینسی پیلوسی بھی صدر کی جگہ لینے میں ناکام رہتی ہیں یا عدم دلچسپی کا اظہار کرتی ہیں تو قانون کے تحت اگلی باری سینیٹ کے سب سے سینیئر سینیٹر چارلس گراسلی کی ہوگی جو ریپبلیکن پارٹی سے تعلق رکھتے ہیں اور 87 سال کے ہیں۔ عین یقینی ہے کہ اس میں بھی قانونی چیلنجز سامنے آئیں گے۔

اگر ٹرمپ انتخابات میں حصہ نہیں لے پاتے تو بیلٹ پر کس کا نام چھپے گا؟

اگر کسی بھی وجہ سے کسی پارٹی کا نامزد کردہ صدارتی امیدوار اس کردار کو پورا نہیں کر سکتا تو اس حوالے سے بھی واضح ہدایات موجود ہیں۔

ویسے تو نائب صدر مائیک پینس ابتدائی طور پر صدارتی فرائض سنبھالیں گے مگر ضروری نہیں کہ وہ ریپبلیکن پارٹی کے انتخابی امیدوار بنیں، کیونکہ پارٹی پہلے ہی ٹرمپ کو باضابطہ طور پر نامزد کر چکی ہے۔

پارٹی کے قواعد کے مطابق ریپبلک نیشنل کمیٹی (آر این سی) کے 168 ارکان کو نئے صدارتی امیدوار کے لیے ووٹ دینا ہوگا جس میں مائیک پینس متوقع امیدواروں میں سے ہیں۔

اگر پینس کو بطور صدارتی امیدوار چنا گیا تو اس کے بعد ان کے نائب صدارتی امیدوار کو بھی نامزد کرنا ہوگا۔

تاہم آج تک ایسا نہیں ہوا ہے کہ ریپبلیکنز یا ڈیموکریٹس نے باضابطہ طور پر صدارتی امیدوار نامزد کرنے کے بعد انھیں تبدیل کیا ہو۔

جلد ڈالے گئے ووٹوں کا کیا ہوگا؟

ماہرین کا کہنا ہے کہ اس سے بہت غیر یقینی صورتحال پیدا ہوجائے گی کیونکہ ڈاک کے ذریعے لاکھوں ووٹ پہلے ہی پارٹیوں کے نامزد کردہ صدارتی امیدواروں کے نام بھیجے جا چکے ہیں۔

اس کے علاوہ کچھ ریاستوں میں پولنگ سٹیشن جا کر جلد ووٹ ڈالنے کا مرحلہ بھی شروع ہو چکا ہے۔

اروائن میں واقع یونیورسٹی آف کیلیفورنیا میں قانون کے پروفیسر رِک ہیزن لکھتے ہیں کہ ووٹنگ ممکنہ طور پر دوڑ سے باہر نکل چکے امیدوار کے نام پر ہی ہوگی۔

مگر اس حوالے سے سوالات ہوں گے کہ کیا امریکی ریاستی قوانین کے تحت امریکی الیکٹورل کالج کے ارکان کو متبادل امیدوار کے نام پر ووٹ ڈالنے کی اجازت ہے؟

اور اگر کوئی امیدوار دستبردار ہوجائے تو کیا امیدوار کا نام تبدیل کیا جا سکتا ہے؟

انتخابات کے ماہر قانون کے پروفیسر رچرڈ پلڈیز کے مطابق ‘تقریباً یقینی طور پر بیلٹ پر صدر ٹرمپ کا ہی نام رہے گا، چاہے کچھ بھی ہوجائے۔’

وہ کہتے ہیں کہ ویسے تو ریپبلیکن پارٹی عدالتی حکم حاصل کر کے امیدوار کا نام تبدیل کر سکتی ہے مگر درحقیقت ان کے پاس اس کے لیے وقت نہیں ہوگا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32503 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp