پاکستان کو ایک نیا ’غدار‘ مبارک ہو


غدار بنانے اور جمع کرنے میں اہل پاکستان اپنا ثانی نہیں رکھتے۔ گزشتہ روز ایک ٹی وی انٹرویو میں وزیر اعظم عمران خان نے تین بار ملک کے وزیر اعظم رہنے والے نواز شریف کو بھارتی سرپرستی میں پاکستانی فوج کے خلاف پروپیگنڈا مہم کا ذمہ دار قرار دیا ہے۔ نواز شریف کے پے در پے بیانات اور سیاسی طور سے متحرک ہونے پر عمران خان اور حکومت کی پریشانی قابل فہم ہے لیکن سیاسی دباؤ میں کسی بھی وزیر اعظم کاایک ایسے شخص کو غدار قرار دینا زیب نہیں دیتا ہے جو تین بار ملک کا وزیر اعظم رہ چکا ہو۔

اگر نواز شریف بھارت کا ایجنٹ ہے اور وہ لندن میں بیٹھ کر بھارت کو ممنون کرنے اور اس کا مشن پورا کرنے کے لئے ویڈیو لنک کے ذریعے سیاسی تقریریں کررہا ہے تو اس ملک کے کس شخص کی حب الوطنی پر اعتبار کیا جاسکتا ہے؟ عمران خان نے یہ سنگین الزام لگاتے ہوئے ایک بار بھی یہ سوچنے کی زحمت نہیں کی ہوگی کہ وہ اب صرف کسی پارٹی کے چئیرمین نہیں ہیں بلکہ ملک کے وزیر اعظم بھی ہیں۔ ان کی زبان سے نکلا ہؤا ہر لفظ مستند ہونا چاہئے۔ اگر وزیر اعظم بھی سیاسی فائدے کے لئے جھوٹ، الزام تراشی اور بہتان کا سہارا لے گا تو یقین کرلینا چاہئے کہ وہ حکومت شدید دباؤ اور بحران کا شکار ہے۔ اس کے سربراہ کو نہ تو اپنی زبان پر کنٹرول ہے اور نہ ہی اس بات کا احساس ہے کہ نواز شریف پر بھارت کا آلہ کار ہونے کا دعویٰ کرتے ہوئے ، دراصل وہ ملکی نظام کے کھوکھلے پن اور اپنے ذہنی افلاس کا مظاہرہ کررہے ہیں۔ ایسا شخص کسی ملک کا وزیر اعظم تو کجا کسی گاؤں کا نمبردار بننے کے لائق بھی نہیں ہوسکتا۔ لیڈر کا کام ملک کے وقار میں اضافہ کرنا ہوتا ہے۔ سیاسی بدحواسی میں اس سے ایسی الزام تراشی کی توقع نہیں کی جاسکتی جس کا نقصان دراصل ملک و قوم کی ساکھ اور مفادات کو پہنچتا ہے۔

عمران خان کے بقول ’نواز شریف جو گیم کھیل رہے ہیں وہ بہت خطرناک ہے۔ یہی کام الطاف حسین نے کیا تھا۔ میں واضح طور پر کہتا ہوں کہ ان کے پیچھے 100 فیصد انڈیا ہے کیونکہ پاکستان کی فوج کمزور کرنے میں ہمارے دشمنوں کی دلچسپی ہے‘۔ گویا ملک کا وزیر اعظم یہ اعلان کررہا ہے کہ پاکستانی فوج ’ جس کے بغیر ملک کے تین ٹکڑے ہوگئے ہوتے‘،اس قابل بھی نہیں ہے کہ وہ کسی الزام تراشی کے خلاف اپنا دفاع کرسکے ۔ یا ایک سیاسی لیڈر کی طرف سے اٹھائے گئے سوالوں کا جواب دے سکے۔ اول تو وزیر اعظم کی اس بات کا کوئی جواز نہیں کہ پاکستان، فوج کے بغیر تین ٹکڑے ہوگیا ہوتا۔ملکوں کو فوجیں نہیں عوام مستحکم رکھتے ہیں۔ عمران خان ملکی انٹیلی جنس تک مکمل رسائی کے باوجود اپنے اس دعوے کا ثبوت فراہم کرنے سے قاصر ہوں گے۔ البتہ یہ بات ملکی تاریخ کا حصہ ہے کہ ایک فوجی لیڈر کی جاہ پرستی اور غلط فیصلوں کی وجہ سے پاکستان دو لخت ہوچکا ہے۔ عمران خان تاریخ سے سبق سیکھنے کا دعویٰ کرتے ہیں ۔ ان کا کہنا ہے کہ تاریخ نے ہمیں یہ سبق سکھایا ہے کہ اگر جمہوری حکومت غلط یا کمزو ر ہے، تو فوج کو اختیار دینے کی بجائے ، اس حکومت کی اصلاح کی جائے۔ عمران خان کے الفاظ میں’ اگر جمہوریت نقصان پہنچا رہی ہے تو اس کا مطلب یہ نہیں کہ اس کی جگہ مارشل لا آ جائے بلکہ اس کا مطلب یہ ہے جمہوریت کو ٹھیک کرنا ہے‘۔ جمہوریت ٹھیک کرنے کے لئے ضروری ہے کہ جمہوریت کو نقصان پہنچانے والے فیصلوں کو مسترد کیا جائے اور ان لوگوں کو کٹہرے میں کھڑا کیا جائے جو کسی بھی حیثیت میں ملکی آئین پامال کرنے اور جمہوری حکومتوں کا تختہ الٹنے میں ملوث رہے ہیں۔ نواز شریف نے یہی بات تو کہی ہے کہ سیاست میں فوج کی مداخلت بند کی جائے۔ اس میں کون سی خلاف واقعہ یا تاریخی تناظر میں ناجائز بات کہی گئی ہے؟

عمران خان کہتے ہیں کہ ’ہمیں فیصلہ کرنا ہوگا کہ اگر ماضی میں کسی آرمی چیف سے غلطی ہوئی تو کیا ہمیشہ کے لیے پوری آرمی کو برا بھلا کہنا ہے؟ اگر جسٹس منیر نے غلط فیصلہ کیا تو کیا ساری زندگی ہم نے عدلیہ کو برا بھلا کہنا ہے۔ اگر سیاست دان ملک کا پیسہ چوری کر کے باہر لے کر جاتے ہیں تو کیا سارے سیاست دان ہی برے ہیں؟‘ وزیر اعظم کی یہ سب باتیں درست ہیں لیکن کیا اس تفہیم سے یہ نتیجہ اخذ کیا جائے کہ ماضی میں جو آئین شکنی کی گئی اور عدالتوں کے ذریعے عوام کے حقوق پر جو ڈاکے ڈالے گئے، انہیں فراموش کرکے کوئی ایسا واضح اور ٹھوس اصول وضع نہ کیا جائے کہ ملکی معاملات انٹیلی جنس ایجنسیوں کے دفاتر اور جی ایچ کیو میں طے ہونے کی بجائے پارلیمنٹ میں طے ہوں؟ تاریخ سے سبق سیکھنے کی بات اگردرست ہے تو اس پر اسی صورت میں عمل ہوسکتا ہے کہ اگر ماضی کی غلطیوں کو غلط کہنے اور انہیں تسلیم کرنے کا حوصلہ پیدا کیا جائے۔ نہ کہ براہ راست مارشل لا کا طریقہ ترک کرکے سول مارشل لا کے حالات پیدا کئے جائیں جہاں نہ میڈیا آزاد ہے، نہ صحافی محفوظ ہے اور نہ ملک کا وزیر اعظم بااختیارہے۔ یہ کیسی آزادی ہے کہ عمران خان کو کسی درباری کی طرح ہر وقت فوجی قیادت کی قصیدہ گوئی کرنا پڑتی ہے۔

عمران خان ، نواز شریف کو نشانہ بنانے کے لئے ان کے فوج کی گود میں ’پلنے بڑھنے‘ کی داستان تو سناتے ہیں لیکن کہانی کے اس حصے کو بھولنا چاہتے ہیں جب وہ اسی گود میں پناہ لینے کے لئے بے چین تھے ، جس میں انہیں نواز شریف سیاسی طور سے پروان چڑھتے دکھائی دیتے ہیں۔ وہ آج یہ کہتے ہیں کہ دھرنے کے دوران جب وہ امپائر کی انگلی کی بات کرتے تھے تو ان کا مقصود ’اللہ‘ ہوتا تھا۔ جس اللہ کا نام عمران خان وزیر اعظم بن کر لے رہے ہیں ، نواز شریف کی حکومت میں جب وہ اپوزیشن لیڈر کے طور پر دھرنا دے رہے تھے ، کیا اس وقت اللہ کا نا م لینے پر پابندی عائد تھی؟ کیا وجہ ہے کہ اس وقت وہ اللہ پر کامل بھروسہ کرنے کی بجائے جنرل راحیل شریف اور لیفٹیننٹ جنرل ظہیر الاسلام کے ’دربار‘ پر حاضری لگواتے تھے؟

اب وہ دعویٰ کررہے ہیں کہ اگر کوئی آئی ایس آئی چیف ان سے استعفیٰ مانگتا تو وہ اس سے استعفیٰ لے لیتے اور اگر کوئی پرویز مشرف ان سے پوچھے بغیر کارگل پر حملہ کرتا تو وہ اسے نوکری سے نکال دیتے۔ کیا عمران خان نہیں جانتے کہ نواز شریف نے آٹھ برس کی جلاوطنی اسی کوشش میں کاٹی ہے کہ انہوں نے پرویز مشرف کے غلط فیصلے پر اس کی سرزنش کرنا ضروری سمجھا تھا۔ یہ عمران خان کی حکومت ہے جو پرویز مشرف کے خلاف ایک خصوصی عدالت کے فیصلے کو مسترد کرچکی ہے ۔ پھر کس منہ سے عمران خان تاریخ سے سبق سیکھنے کی بات کر سکتے ہیں؟

نواز شریف کی سیاسی جد و جہد کے حوالے سے ان کا مقابلہ الطاف حسین سے کرنا عمران خان کی بدحواسی اور تاریخ کی ناقص تفہیم کا منہ بولتا ثبوت ہے۔ الطاف حسین کی پرورش بھی اسی نرسری میں ہوئی تھی جس کے آنگن میں اب عمران خان نام کا پھول کھلا ہے۔ عمران خان ہی کے ممدوح پرویز مشرف کی سرپرستی میں الطاف حسین کی سیاست کو حیات نو نصیب ہوئی اور کراچی اور سندھ کے دیگر شہری علاقوں کو ایم کیو ایم کے رحم و کرم پر چھوڑ دیا گیا۔ جس طرح الطاف حسین اور ایم کیو ایم کو سیاسی طور سے طاقت فراہم کرنا غلط تھا، اسی طرح ایک تقریر کی پاداش میں ان کے خلاف سخت ترین اقدامات کرنا بھی درست نہیں ہوسکتا۔ الطاف حسین کو مائنس کرکے وہی ایم کیو ایم اب عمران خان کی حکومت کا حصہ ہے ۔کل کے وہ غدار جن کو سزا دلوانے کے لئے عمران خان دستاویزات کا انبار لے کر برطانیہ جانے کا اعلان کرتے تھے، اب ان کے وزیر و مشیر ہیں۔ کل عمران خان کو الطاف حسین اور ان کی جماعت سے خطرہ تھا ، اس لئے وہ غدار تھے اب نواز شریف عمران خان کی سیاست کو دفن کرنے کے مشن پر نکلے ہیں تو ان پر غدار کا لیبل لگایا جارہا ہے۔ کیا اسی طرز سیاست سے ملک کو متحد رکھا جائے گا اور قوم کو خوشحال بنایا جائے گا؟

نواز شریف اگر بھارت کا ایجنٹ ہے تو کیا وجہ ہے کہ وزیر اعظم ایک انٹرویو میں الزام لگا کر اپنا جی خوش کررہے ہیں۔ ان کی حکومت نواز شریف کی کرپشن کا ڈھول پیٹنے کی بجائے ان پر غداری، دشمن ملک کا ایجنٹ ہونے اور بھارت کی سرپرستی میں فوج کے خلاف مہم چلانے کا مقدمہ کیوں قائم نہیں کرتی۔ عمران خان کی مشکل یہ ہے کہ نواز شریف کی تازہ ترین سیاسی مہم میں عمران خان کی حیثیت صفر ہو کر رہ گئی ہے۔ وہ عمران خان کو نہ تو اپنا ہدف قرار دیتے ہیں اور نہ ہی ان سے مقابلہ کرنے کا اعلان کررہے ہیں۔ ملک کی وزارت عظمی کے عہدے پر متمکن شخص کی اس سے بڑی اور کیا توہین ہوسکتی ہےکہ اپوزیشن لیڈر آپ کو مقابلے کے قابل بھی نہیں سمجھتا۔

عمران خان کا انٹرویو تضادات کا نمونہ ہے۔ وہ فوج کو اپنے زیر فرمان تو کہتے ہیں لیکن ساتھ ہی یہ بھی کہتے ہیں کہ نواز شریف کی سب سے بڑی غلطی یہ تھی کہ وہ فوج کو کنٹرول کرنا چاہتے تھے۔ گویا جو غلطی نواز شریف سے بار بار سرزد ہوتی رہی، عمران خان نے اس سے سبق سیکھ کر فوج کی اطاعت قبول کرنے میں ہی عافیت سمجھی ہے۔ بلکہ سیاست میں دو دہائی تک بے خانماں رہنے کے بعد بھی جب وہ کوئی نمایاں حیثیت حاصل نہیں کرسکے تو انہوں نے فوج کی انگلی پکڑ کر اقتدار تک پہنچنے کا آزمودہ طریقہ اختیار کیا۔ اس میں ویژن اور پالیسی کہاں سے آگئی؟ البتہ اسے حرص، طمع، کسی بھی قیمت پر اقتدار کےحصول کی خواہش اور وزیر اعظم بنے رہنے کے لئے کسی بھی اصول کی قربانی کا نام دیا جاسکتاہے۔

جناب وزیر اعظم! دعوے کرنا بہت آسان ہوتا ہے۔ جیسے یہ کہنا سہل ہےکہ ظہیر الاسلام مجھ سے استعفیٰ مانگتا تو میں اس سے استعفیٰ لے لیتا یا پرویز مشرف کو کارگل حملہ پر برخاست کردیتا ۔ اسی طرح یہ دعویٰ بھی نامکمل سچ پر استوار ہے کہ آرمی چیف نے اپوزیشن لیڈروں سے ان کی ’اجازت‘ سے گلگت بلتستان کے معاملے پر گفتگو کی تھی۔ حقیقت یہ ہے کہ بطور وزیر اعظم اور قائد ایوان یہ ان کا فرض تھا کہ ایک آئینی مسئلہ پر اپوزیشن کے ساتھ اتفاق رائے پیدا کرتے ۔ وہ خود تو یہ حوصلہ نہیں کرسکے ، اس لئے آرمی چیف سے کہا کہ آپ میرا یہ کام کردیں۔ عمران خان کوتو یہ بتانا چاہئے کہ کیا آرمی چیف نے محمد زبیر سے بھی عمران خان کی ’اجازت‘ لے کر ملاقاتیں کی تھیں؟ اور کیا انہیں بتایا گیا تھا کہ چار چار گھنٹے پر محیط ان ملاقاتوں میں کیا کچھ زیر بحث آیا تھا؟ اس اجازت اور پروٹوکول کا کوئی نہ کوئی ریکارڈ کہیں نہ کہیں موجود ہونا چاہئے۔ عمران خان وہ ریکارڈ سامنے لائیں۔ سچ جھوٹ نتھر کر سامنے آجائے گا۔

فوجی لیڈروں سے جوابدہی کا اتنا ہی شوق ہے تو یہی بتا دیں کہ کیا وزیر اعظم نے آزادی مارچ کے دنوں میں آرمی چیف سے کہا تھا کہ مولانا فضل الرحمان اور مولانا عبدالغفور حیدری سے ملاقات کریں اور ان پر واضح کردیں کہ ’ہم نواز شریف کے خلاف جو کررہے ہیں، آپ اس میں مداخلت نہ کریں‘۔ ہاتھ کنگن کو آرسی کیا، عمران خان کو تو جمہوری اور بہادر ثابت کرنے کا موقع ان کے بد ترین سیاسی مخالفین نے خود ہی یہ ’الزام‘ عائد کرنے فراہم کردیا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ اس کے بعد چھا جانے والا سناٹا عمران خان کی بجائے نواز شریف کی سچائی کو سامنے لاتا ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

سید مجاہد علی

(بشکریہ کاروان ناروے)

syed-mujahid-ali has 2750 posts and counting.See all posts by syed-mujahid-ali