ڈونلڈ ٹرمپ کورونا سے متاثر: امریکی انتخابات کا مستقبل کیا ہو سکتا ہے؟


ٹرمپ

صدر ڈونلڈ ٹرمپ اور خاتونِ اول میلانیا ٹرمپ کے کووِڈ-19 سے متاثر ہونے کی خبر کے بعد امریکی تاریخ کے 59 ویں صدارتی انتخابات کے 3 نومبر بروز منگل انعقاد کے بارے میں اب کئی سوالات کیے جا رہے ہیں۔

کیا انتخابات وقت پر ہوں گے؟ اس بارے میں امریکہ کی تاریخ واضح ہے کہ خانہ جنگی سے لے کر مالیاتی بحران جیسے مسائل کے باوجود سوائے ایک دو مرتبہ انتظامی وجوہات کے امریکہ کے صدارتی انتخابات ہمیشہ اپنے طے شدہ وقت پر ہوتے رہے ہیں۔

لیکن صدر ٹرمپ جو 74 برس کے ہیں اور کورونا وائرس کے سب سے زیادہ خطرے کی زد میں موجود متاثرین کے خانے میں شمار ہوں گے۔ اگر انھیں کچھ ہو جاتا ہے تو کیا ہوگا؟ تب بھی انتخابات ہوں گے؟ وہ بچ جاتے ہیں لیکن جسمانی یا ذہنی طور پر کام نہیں کر پاتے ہیں تو کیا ہوگا؟

اِن آئینی معاملات کا جائزہ بعد میں لیتے ہیں پہلے دیکھتے ہیں کہ صدر ٹرمپ کے کورونا وائرس سے متاثر ہونے کی وجہ سے انتخابی مہم اور دیگر اہم سیاسی معاملات پر کیا اثر بنے گا۔ بی بی سی کے نارتھ امریکہ کے رپورٹر انتھونی زرچر کا خیال ہے مسٹر ٹرمپ کو ہمدردی کا ووٹ مل سکتا ہے۔

ہمدردی بھی مل سکتی ہے

امریکی انتخابات سے صرف ایک ماہ قبل صدر ٹرمپ کے کورونا وائرس سے متاثر ہونے کی وجہ سے ایک بات واضح ہے کہ اب انہیں اندازاً دو ہفتوں کے لیے قرنطینہ میں رہنا پڑے گا جس کا مطلب ہے کہ وہ اب انتخابی مہم میں حصہ نہیں لے سکیں گے۔ ان حالات نے امریکی انتخابات کی تاریخ میں ایک منفرد صورتِ حال پیدا کردی ہے۔

اس المیے کی وجہ سے امکان یہ ہے کہ امریکی قوم کی عمومی ہمدردیاں صدر کے ساتھ ہوں گے۔ اس دوران جب صدر ٹرمپ کی انتظامیہ کو ان کے پچھلے بیانات کی وجہ سے تنقید کا سامنا کرنا پڑے، تو ساتھ ہی انھیں اور خاتونِ اول کو لوگوں کی ہمدردی بھی ملے گی۔

ڈیموکریٹس بار بار کہیں گے کہ ‘ہم نے نہیں کہا تھا کہ یہ تو ہو گا’ وغیرہ وغیرہ، اور پھر صدر ٹرمپ کے مخالفین یہ بھی کہیں گے کہ ان کو وائرس کا لگنا ان کے اپنے کیے کا پھل ہے۔ لیکن ایسا کرنے سے مخالفین پر سنگ دل ہونے کے الزامات بھی لگنے کا خطرہ ہوگا۔

یہ بھی پڑھیے

ڈونلڈ ٹرمپ بمقابلہ جو بائیڈن: پہلا صدارتی مباحثہ کس کے نام رہا؟

پہلا صدارتی مباحثہ: وہ رات جب امریکی جمہوریت بدترین تنزلی کا شکار ہوئی

اگر ٹرمپ بیماری کے باعث صدارتی ذمہ داریاں پوری کرنے کے قابل نہ رہیں تو؟

رائے عامہ کے تازہ جائزوں کے مطابق جو بائیڈن اب تک صدر ٹرمپ سے زیادہ مقبول ہیں لیکن ان ریاستوں میں جہاں کے الیکٹورل کالجز پر ری پبلیکنز کی نظر ہے وہاں یہ برتری کم ہو رہی ہے۔ یہ رجحان ٹرمپ کی کامیابی کو یقینی بنا سکتا ہے۔ لیکن اس کے لیے صدرٹرمپ کو وقت درکار ہے۔

کورونا وائرس کے دوران ان کی کارکردگی پر کئی سوالات ہو رہے ہیں۔ رائے عامہ کے جائزے ظاہر کرتے ہیں کہ مالیاتی مدد کے پیکج کے اعلان کے وقت ان کی مقبولیت بڑھی تھی لیکن بعد میں ہلاکتوں اور متاثرین کی تعداد بڑھنے کی وجہ سے یہ مقبولیت کا گراف گرتا گیا ہے۔

صدر ٹرمپ کورونا وائرس کی وبا کے آغاز سے ہی اس کے بارے میں مضحکہ خیز بیانات دیتے رہے ہیں۔ یہاں تک کہ جب وہ اپنے آخری صدارتی مباحثے میں اپنے حریف سے بحث کر رہے تھے تو ماسک پہننے پر ان کا مذاق اڑا رہے تھے۔ انہوں نے کئی بار سائینسی حقائق کا بھی مذاق اُڑایا۔

صدر ٹرمپ نے اس دوران اپنی حکومت کے ایسے اہلکاروں کا پر تنقید کی جو وبا سے بچنے کے قواعد و ضوابط پر عملدرآمد پر اصرار کرتے تھے اور سکولوں اور کاروبار کو کھولنے کے بارے میں اقدامات کی محالفت کرتے تھے۔

ان کے اس وائرس سے متاثر ہونے سے کم از کم یہ ضرور ہوا ہے کہ انھیں اس کی حقیقت کا اندازہ ہو گیا گا۔ لیکن دیکھنا یہ ہے کہ کیا وہ اب قومی سطح پر اور وائٹ ہاؤس کی پالیسیوں میں تبدیلیاں متعارف کرواتے ہیں یا نہیں۔

ڈونلڈ ٹرمپ، مائیک پینس

کیا انتخابی مہم معطل ہو گئی ہے؟

کورونا وائرس ٹیسٹ مثبت آنے کی خبر کا فوری رد عمل تو یہی نظر آرہا ہے کہ مہم معطل ہو گئی ہے۔ ٹیلی ویژن پر آئندہ ہونے والے صدارتی امیدواروں کے مباحثے اور کئی اہم امریکی ریاستوں کے دورے سب کے سب اب مشکل سے ہی ہو پائیں گے۔

لیکن اگر حالات ایسے ہوئے اور ڈاکٹروں نے اجازت دی تو ہو سکتا ہے کہ صدر ٹرمپ اپنی انتخابی مہم اور اپنے ووٹروں کے سوالات کے جوابات ٹوئٹر کے ذریعے اور آن لائن رابطوں کے ذریعے دیتے رہیں اور اس طرح انتخابی مہم کو گرم جوش بناتے رہیں۔ تاہم معمول کا ملنا جلنا تو معطل رہے گا۔

مائیک پینس فعال ہو سکتے ہیں

صدر ٹرمپ کی جگہ ان کی پارٹی کے کئی رہنما ان کی مہم اور عوامی رابطوں کا سلسلہ جاری رکھیں گے۔ خاص کر ان کی ٹیم میں ان کے نائب صدر مائیک پینس ان کی مہم کو شاید بہتر انداز میں چلا سکیں۔ ٹرمپ کی وجہ سے وہ پس پردہ کام کرتے رہے ہیں لیکن زیادہ کامیاب رہے ہیں۔

بائیڈن کے مقابلے میں ٹرمپ زیادہ متاثر کن شخصیات ثابت نہیں ہوئے ہیں۔ پہلے صدارتی مباحثے نے بائیڈن کی مقبولیت میں اضافہ کیا۔ تاہم بدھ کو اگلا مباحثہ نائب صدارت کے امیدواروں کے درمیان ہے جس میں مائک پینس ڈیموکریٹس کی کملا ہیریس سے بہتر کارکردگی دکھا سکتے ہیں۔

ممکن ہے کہ ٹرمپ کی سیاسی ساکھ کو مائیک پینس بحال کرنے میں ایک اہم کردار ادا کریں۔ لیکن ابھی تک کوئی بھی اس خیال کے بارے میں سنجیدگی سے بات نہیں کر رہا ہے کہ انتخابات مؤخر کردیے جائیں۔ بلکہ بعض ریاستوں میں ووٹنگ کا آغاز بھی ہو چکا ہے۔

ڈیموکریٹس کے لیے کیا خطرات ہیں؟

اس وقت امریکہ میں کورونا وائرس سے متاثرین کی تعداد 70 لاکھ سے زیادہ ہو چکی ہے جبکہ ہلاکتوں کی تعداد دو لاکھ سے زیادہ ہے۔ ایسے حالات میں کسی متاثر پر تنقید سیاسی اور سماجی طور پر عوامی تائید نہیں حاصل کر پائے گی۔

ان حالات میں بائیڈن کے لیے رد عمل کی حکمت عملی کو احتیاط کے ساتھ تشکیل دینا ایک مشکل کام ہوگا۔ ڈیموکریٹس کے امیدوار نے کئی مہینوں تک اپنے آپ کو زیادہ نمایاں نہیں رکھا تاکہ وہ میڈیا کی کسی مہم جوئی کا نشانہ نہ بنیں۔ صدر ٹرمپ نے تو مذاق اڑاتے ہوئے ان پر کسی تہہ خانے میں بند ہونا کا الزام بھی لگایا تھا۔

ڈونلڈ ٹرمپ، جو بائیڈن

بائیڈن نے انتخابی مہم کو چند ہفتے قبل ہی فعال کیا ہے۔ اب وہ صدر ٹرمپ کی مہم کا لوگوں سے ملنے کا انداز اپناتے ہوئے نظر آرہے ہیں حالانکہ وہ اس سے قبل اس انداز کی وجہ سے ٹرمپ کو تنقید کا نشانہ بناتے تھے۔

قرائن یہ بتا رہے ہیں کہ اس دوران جب صدر ٹرمپ اور خاتونِ اول میلانیا قرنطینہ میں صاحب فراش ہوں گی، بائیڈن اپنی انتخابی مہم کو تیزی سے چلانے کو کوشش کریں۔ اس پس منظر میں انھیں اپنی انتخابی مہم کی حکمت عملی کا از سرِ نو جائزہ لینا ہوگا۔

انھوں نے صدر ٹرمپ اور خاتونِ اول میلانیا ٹرمپ کے لیے خیر سگالی کے جذبات کا اظہار کرتے ہوئے بیان تو جاری کیا ہے لیکن دیکھنا یہ ہے کہ کیا ان کا بیان ماحول کو بہتر کر سکے گا؟ کیا ان کے حامی معتدل رویہ اختیار کریں گے؟

کیا اس سے سپریم کورٹ میں نامزدگی متاثر ہوگی؟

صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے کورونا ٹیسٹ مثبت آنے کی خبر سے امریکی دارالحکومت میں کافی زلزلے آ رہے ہیں۔ اب جبکہ کانگریس انتخابی مہم کے لیے رخصت پر جانے کی تیاری کر رہی ہے اس کے سامنے دو بڑے کام ہیں: نئے جج کی نامزدگی اور کورونا وائرس سے وابستہ مالیاتی پیکیج کی۔

ٹرمپ انتظامیہ کے وزیرِ خزانہ سٹیو منوچِن ایوان نمائنگان کی سپیکر نینسی پیلوسی سے اس ریلیف پیکیج کی منظوری کے لیے بات چیت کر رہے ہیں۔ اور نائب صدر سینیٹ میں ری پبلیکن ارکان سے رابطے میں ہیں جنھوں نے نامزد خاتوں جج کی توثیق کرنی ہے۔

بی بی سی کے شمالی امریکہ کے رپورٹر اینتھونی زرچر کہتے ہیں کہ ڈیموکریٹس کی جانب سے رکاوٹیں پیدا کرنے کی وجہ سے اب یہ یقینی طور پر کہا سکتا ہے کہ خاتون جج کی نامزدگی کی توثیق انتخابات کے بعد ہوگی، جو اس وقت تک ری پبلیکنز کے لیے مشکل ہو جائے گی۔

اگر صدر ٹرمپ کو کچھ ہو گیا تو؟

صدر ٹرمپ کے شدید بیمار ہونے کی صورت میں نائب صدر مائیک پینس صدر کی ذمہ داریاں سنبھال لیں گے۔ امریکی آئین میں یہ طہ شدہ بات ہے کہ صدر کی غیر موجودگی، استعفیٰ دینے کی صورت، ذہنی طور پر نااہل ہونے یا ہلاکت کی صورت میں نائب صدر کو صدر قرار دیا جاتا ہے۔

اب جبکہ امریکی انتخابات میں ایک مہینہ رہ گیا ہے اور فرض کرلیں کہ صدر ٹرمپ کسی وجہ یا کسی بھی صورت کی وجہ سے انتخابات نہیں لڑ پاتے ہیں تو نائب صدر ان کی جگہ کام کرتے رہیں گے اور انتخابی مہم بھی چلائیں گے۔

اگر بالفرض صدر ٹرمپ کا انتقال ہوجاتا ہے تو بھی انتخابات ملتوی نہیں ہوں گے بلکہ ان کا نام بیلٹ پیپر پر موجود رہے گا اور اگر وہ کامیاب ہو جاتے ہیں تو پھر مائیک پینس امریکہ کے صدر بن جائیں گے اور اگلی میعاد کے لیے بھی صدر کا حلف اٹھائیں گے۔

کیا انتخابات ملتوی ہوسکتے ہیں؟

سنہ 1789 سے ہر چار برس بعد ہونے والے امریکی صدارتی انتخابات کی تاریخ میں اب تک کبھی بھی کسی موقع پر ان انتخابات کو ملتوی نہیں کیا گیا ہے اگرچہ امریکی آئین کی شق 2 کی دفعہ 1 کی ذیلی شق 4 کے مطابق کانگریس کو اختیار ہے کہ وہ انتخابات کا دن طے کرے۔

امریکی آئین کے مطابق، امریکی انتظامیہ جس کے سربراہ صدر ہوتے ہیں، کو انتخابات کی تاریخ میں تبدیلی کا اختیار نہیں ہے، البتہ کانگریس اگر چاہے تو اپنی صوابدید پر انتخابات کو ملتوی کرنے کا اختیار صدر کو تفویض کرسکتی ہے۔

امریکی کانگریس (ایوانِ نمائندگان اور سینیٹ) یا امریکی وفاق کی ریاستیں کسی دہشت گردی کے حملے کی صورت میں جس کی وجہ سے انتخابات کے انعقاد میں بڑا خلل پیدا ہو جائے تو ووٹ ڈالنے کی تاریخ تبدیل کر سکتی ہیں۔

نینسی پیلوسی

امریکہ کی آزادی کے بعد کے ابتدائی 60 برسوں میں انتظامی تقاضوں کی وجہ سے صرف دو مرتبہ ووٹنگ کی تاریخ میں تبدیلی کی گئی تھی، لیکن سنہ 1845 میں انتخابات کے دن کے معین کیے جانے کی قانون سازی کے بعد صدارتی انتخابات کی تاریخ میں کبھی تبدیلی نہیں کی گئی۔

البتہ سنہ 2001 میں 11 ستمبر کے دہشت گردی کے حملوں کے بعد نیویارک کے مقامی انتخابات کی تاریخ میں تبدیلی کی گئی اور اس سے قبل سنہ 1992 میں سمندری طوفان کی وجہ سے فلوریڈا کے ایک شہر میں انتخابی تعطل پیدا ہوا تھا، لیکن وہ بھی ڈیڈ نامی ایک شہر تک محدود تھا۔

تاہم سنہ 2020 کے صدارتی انتخابات کے وقت کورونا وائرس کی وجہ سے ایک غیر معمولی بات یہ نظر آ رہی ہے جس کی تصدیق پیو ریسرچ سینٹر کے جائزے سے بھی ہوئی ہے کہ امریکی ووٹروں کی اکثریت پولنگ سٹیشنوں پر جاکر اپنا ووٹ ڈالنے سے گریز کرنا چاہتی ہے۔

پیو ریسرچ سینٹر کے اِس جائزے کے مطابق، 66 فیصد امریکیوں کا کہنا ہے کہ وہ موجودہ وبائی بحران کے ماحول میں پولنگ سٹیشنوں پر جا کر ووٹ ڈالنے میں اپنے آپ کو محفوظ نہیں سمجھیں گے۔

اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ امریکی صدارتی انتخابات میں آج تک کوئی تبدیلی نہیں کی گئی ہے۔ امریکہ میں خانہ جنگی ہوئی تھی، پہلی اور دوسری عالمی جنگیں لڑی گئیں اور بہت بڑا مالیاتی بحران آیا، مگر انتخابات وقت پر ہوئے۔

تاہم سنہ 2004 میں یہ تشویش پیدا ہوئی تھی کہ انتخابات سے ایک روز قبل یعنی 2 نومبر کو عین صدارتی انتخابات سے قبل ان میں رکاوٹ ڈالنے کے لیے دہشت گردی کے حملے ہو سکتے تھے۔ اس وجہ سے یہ سوچا گیا کہ ان حملوں کے روکنے کے لیے کیا کیا جا سکتا ہے اور ایسی صورت میں انتخابات کا کیا جائے گا۔

اس پس منظر میں امریکی کانگریس کی رہنمائی کے لیے کانگریس کے ایک تحقیقی ادارے نے اکتوبر سنہ 2004 میں ایک رپورٹ جاری کی۔ اس رپورٹ کا سارا محور دہشت گردی کے حملوں کا خدشہ تھا، لیکن اس میں انتخابات مؤخر کرنے کے امکانات پر کافی بحث کی گئی۔

انتخابات مؤخر کرنے کے بارے میں یہ نکتہ اٹھایا گیا کہ اس اقدام کے لیے آئینی اختیار کس کے پاس ہوگا، کس کو یہ اختیار تفویض کیا جائے گا، اور اس اختیار کی حدود کیا کیا ہوں گی۔ کانگریس کی نگرانی کا دار و مدار اس بات پر ہوگا کہ کس قسم کے انتخابات ہو رہے ہیں، وغیرہ۔

کئی ریاستوں کی قانون ساز اسمبلیاں اپنی ریاستوں کے گورنروں کو ہنگامی حالات میں اپنی ریاستوں کے مخصوص قوانین کو معطل کرنے کا اختیار دیتی ہیں۔ ممکن ہے کہ ہنگامی حالات کے دوران ایسے قوانین کو انتخابات کےعمل کو معطل کرنے کے لیے بھی استعمال کیا جا سکے۔

کانگریس کی رہنمائی کے لیے بنائی گئی رپورٹ کے مطابق، آیا کانگریس انتخابات کو محفوظ بنانے کے لیے کسی اقدام پر غور کرتی ہے یا نہیں اس کا انحصار امریکہ میں یا دنیا کے کسی حصے میں ہونے والے واقعے کی نوعیت پر ہوگا۔ کورونا وائرس کی وبا کو تاحال انتخابات ملتوی کرنے کی وجہ نہیں سمجھا جا رہا ہے۔

کانگریس کے پاس جو راستے ہو سکتے ہیں ان میں ایک تو یہ کہ قانون سازی کے بجائے انتظامیہ کو مکمل اختیار تفویض کردے کہ وہ آئین کے حد میں رہتے ہوئے بہتر تعاون کا نظام وضع کرے، اور جلد از جلد غیر حاضر ووٹروں کی ووٹنگ کا انتظام کرے۔

اگر کانگریس نے انتخابات ملتوی کردیے تو کیا ہوگا؟

اگرچہ یہ ایک مفروضہ ہے لیکن اسے مکمل طور پر مسترد نہیں کیا جا سکتا۔ امریکی تحقیقی ادارے نیشنل کانسٹیٹیوشن سینٹر کے مطابق، فرض کریں کہ اگر کانگریس کورونا وائرس کی وبا کی وجہ سے انتخابات کی تاریخ تبدیل کرتی ہے تو اُسے ان قوانین میں ترمیم کرنی ہوگی جو عام انتخابات سے متعلقہ ہیں۔

اس کے علاوہ اس تاریخ کو بھی قانونی ترمیم کے ذریعے بدلنا ہوگا جس کے مطابق ریاستیں انتخابات میں منتخب ہونے والے اپنے ریاستی الیکٹرز (ایلکٹورل کالجز) کے ووٹوں کو کانگریس میں گننے کے لیے دسمبر میں بھیجنے کی پابند ہیں۔

امریکی قانون کے مطابق، صدر اور نائب صدر کو منتخب کرنے کے لیے ہر ریاست کے منتخب شدہ الیکٹرز ‘دسمبر کے دوسرے بدھ کے بعد آنے والے پہلے پیر کو اپنی ریاست کی مقرر شدہ جگہ پر اپنے ووٹ دینے کے لیے جمع ہوں گے۔’ اس مرتبہ یہ تاریخ 14 دسمبر بنتی ہے۔

امریکی آئین کے بارے میں ایک تحقیقی ادارے نیشنل کانسٹیٹیوشن سینٹر کے مطابق، دونوں انتخابات کی تاریخ میں تبدیلی کے لیے کانگریس کے دونوں ایوانوں کو متعلقہ قوانین میں ترمیم کے لیے نئی قانون سازی کرنا ہوگی۔

لیکن اس قانون سازی کے لیے بھی کچھ حدود ہیں۔ امریکی آئین میں بیسویں ترمیم کی وجہ سے اب یہ طے کردیا گیا ہے کہ صدر کی چار برس کی میعاد انتخاب والے برس کے بعد 20 جنوری کو ختم ہوجاتی ہے قطع نظر اس کے کہ انتخابات ہوئے یا نہیں۔

انتخابات نہ ہونے کی صورت میں صدر کون بنے گا؟

کانگریس کی اپنی تحقیقی رپورٹ کے مطابق، ‘آئین میں ایسی کوئی گنجائش نہیں ہے کہ اس تاریخ کے گزرنے کے بعد صدر اپنے عہدے پر فائز رہ سکتا ہے، چاہے کوئی قومی ہنگامی حالت ہی کیوں نہ ہو، البتہ آئینی ترمیم کی صورت میں ایسا ہو سکتا ہے۔’

اب سوال پیدا ہوتا ہے کہ اگر انتخابات نومبر میں نہیں ہوتے اور آئین میں ترمیم بھی نہیں ہوتی تو 20 جنوری کے بعد امریکہ کا کون صدر ہوگا؟ کانگریس کی رپورٹ کے مطابق ایسی صورت میں جانشینی قواعد پر عملدرآمد کیا جائے گا اور ایوانِ نمائیندگان کی سپیکر صدر قرار پائیں گی جو کہ اس وقت ڈیموکریٹس کی نینسی پلوسی ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32554 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp