خلائی مہمات کے لیے ناسا کا دو کروڑ 30 لاکھ ڈالر کا نیا ٹائلٹ


امریکی خلائی ادارے ناسا نے بین الاقوامی خلائی اسٹیشن اور چاند پر استعمال کے لیے ایک جدید ترین ٹائلٹ تیار کیا ہے۔ یہ خصوصی ٹائلٹ قیمتی دھات ٹائیٹینیم سے بنایا گیا ہے۔

نئے ٹائلٹ میں ان خامیوں کو دور کرنے کی کوشش کی گئی ہے جو اس سے قبل کے خلائی ٹائلٹس میں موجود تھیں۔ ٹائلٹ کو قیمتی دھات سے بنانے کا مقصد اسے ممکنہ کیمیائی تبدیلیوں سے محفوظ بنانا ہے۔

ٹائلٹ کا وزن 100 پاؤنڈز اور اس کی اونچائی تقریباً 28 انچ ہے۔ جو بین الاقوامی خلائی اسٹیشن میں پہلے سے نصب روسی ساختہ ٹائلٹ سے نصف ہے۔

یہ صرف ٹائلٹ ہی نہیں ہے بلکہ ری سائیکلنگ کا ایک مکمل اور چھوٹے سائز کا جدید ترین پلانٹ بھی ہے۔ کیوں کہ خلا میں کسی بھی چیز کو ٹھکانے لگانا آسان کام نہیں ہے۔

ناسا کا کہنا ہے کہ نئے ٹائلٹ کی تیاری میں مستقبل کی ضرورتوں کو مدِ نظر رکھا گیا ہے۔ کیوں کہ جلد ہی سیاحوں کو خلا میں لے جانے والی پروازوں کا آغاز ہونے والا ہے۔ جن کے لیے اضافی اور خصوصی ٹائلٹس کی ضرورت پڑے گی۔

اس تصویر میں خلائی ٹائلٹ کے مختلف حصوں کی نشاندہی کی گئی ہے۔
اس تصویر میں خلائی ٹائلٹ کے مختلف حصوں کی نشاندہی کی گئی ہے۔

خلائی سفر میں اب نجی شعبہ بھی شامل ہو چکا ہے۔ ‘اسپیس ایکس’ نے اپنے خلائی سفر اور خلابازوں کو بین الاقوامی خلائی اسٹیشن پہنچانے کے لیے اپنی پروازیں شروع کر دی ہیں۔ جب کہ ایک اور طیارہ ساز کمپنی ‘بوئنگ’ آئندہ برس اس میدان میں اترنے کی تیاری کر رہی ہے۔

امریکہ سے بین الاقوامی خلائی اسٹیشن کے لیے بھیجنے جانے والے 8000 پاؤنڈز سامان میں یہ ٹائلٹ بھی شامل ہے۔ جہاں اگلے چند ماہ کے دوران اس کی کارکردگی کو جانچا جائے گا۔ اگر تجربات کامیاب رہے تو اسے عام استعمال کے لیے کھول دیا جائے گا۔

بظاہر ٹائلٹ ایک عام سی چیز لگتی ہے۔ لیکن خلا میں اس کی اہمیت کہیں زیادہ بڑھ جاتی ہے۔ کیوں کہ بے وزنی کی کیفیت میں اس کا استعمال آسان نہیں ہوتا اور پھر فضلے کو ٹھکانے لگانا بھی ایک اہم مسئلہ ہوتا ہے۔

بین الاقوامی خلائی اسٹیشن پر پیشاب کو بھی ضائع نہیں کیا جاتا۔ بلکہ اسے ری سائیکل کر کے دوبارہ انسانی استعمال کے قابل بنایا جاتا ہے۔ جسے بعد ازاں مصرف میں لایا جاتا ہے۔

بین الاقوامی خلائی اسٹیشن سارا سال خلابازوں کے استعمال میں رہتا ہے۔ ان کی پانی کی ضروریات پوری کرنے کے لیے زمین سے بھاری مقدار میں پانی پہنچانا ممکن نہیں ہوتا اور نہ ہی خلائی اسٹیشن میں بڑے پیمانے پر پانی ذخیرہ کرنے کی گنجائش ہے۔

ناسا کے ایک خلا باز مائیک ہاپکنز کا کہنا ہے کہ خلا میں بہت آسان اور بہت معمولی چیزیں بھی دشوار ہو جاتی ہیں جس کی ایک واضح مثال ٹائلٹ کا استعمال ہے۔ کیوں کہ خلا میں کشش ثقل نہیں ہوتی۔ ہر چیز بے وزنی کا شکار ہو کر تیرنے لگتی ہے۔

جب انسان خود بھی معلق ہو تو اس کے لیے تیرتی چیزوں کو قابو میں رکھنا آسان نہیں ہوتا۔ خلا بازوں کو خلائی مہمات پر بھیجنے سے پہلے بے وزنی کی کیفیت میں اپنے امور سر انجام دینے کی تربیت دی جاتی ہے۔

مائیک پاپکنز ‘اسپیس ایکس’ کے دوسرے مشن کے کمانڈر ہیں اور ان کی قیادت میں 31 اکتوبر کو ایک خلائی جہاز اپنے سفر پر روانہ ہو رہا ہے۔

شینن واکر ناسا کی ایک خلا باز ہیں۔ وہ کچھ عرصہ بین الاقوامی خلائی اسٹیشن پر گزار چکی ہیں۔

انہوں نے نئے ٹائلٹ کے حوالے سے صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ خلا میں باتھ روم استعمال کرنا ایک مشکل تجربہ ہے۔ میں اس تجربے سے گزر چکی ہوں۔

ان کے بقول بین الاقوامی خلائی اسٹیشن پر اس وقت جو ٹائلٹ نصب ہیں۔ وہ خاص طور پر خواتین کے لیے مسائل پیدا کرتے ہیں۔ ان کے ڈیزائن میں تبدیلی کی ضرورت تھی۔

ناسا نے بیان میں کہا ہے کہ نئے ٹائلٹ سے خواتین خلا بازوں کی مشکلات میں کمی آئے گی۔

بین الاقوامی خلائی اسٹیشن پر ہر وقت دو یا تین خلا باز موجود رہتے ہیں۔ بعض موقعوں پر ان کی تعداد بڑھ کر چھ یا سات بھی ہو جاتی ہے۔

اس وقت خلائی اسٹیشن پر دو ٹائلٹس نصب ہیں۔ نیا ٹائلٹ لگنے سے ان کی تعداد تین ہو جائے گی۔ ٹائلٹس کی تعداد میں اضافہ اس لیے بھی ضروری ہے کیوں کہ آئندہ برس وہاں سیاحوں اور شوقیہ خلابازوں کی آمد و رفت بھی شروع ہو جائے گی۔

کئی تجارتی کمپنیاں بھی خلائی اسٹیشن اور خلا کو اپنی کمرشل مہمات کے ایک نئے افق کے طور پر دیکھ رہی ہیں۔

حال ہی میں کاسمیٹکس کی ایک کمپنی نے چہرے کی جھریاں دور کرنے سے متعلق اپنی اشتہاری مہم کے لیے خلائی اسٹیشن پر فوٹو شوٹ کا معاہدہ کیا ہے۔ جس پر ایک لاکھ 28 ہزار ڈالرز کے اخراجات آئیں گے۔ یہ اپنی نوعیت کی پہلی اشتہاری خلائی فوٹو شوٹ ہو گی۔

بین الاقوامی خلائی اسٹیشن انسان کی منزل نہیں ہے۔ بلکہ خلا کی جانب سفر کا پہلا پڑاؤ ہے۔ آنے والے برسوں میں سیاحوں کو چاند پر لے جانے کی تیاریاں ہو رہی ہیں۔ اس سفر کے لیے اور چاند پر قیام کے دوران خصوصی ری سائیکلنگ والے ٹائلٹس کی ضرورت پڑے گی۔

وائس آف امریکہ

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

وائس آف امریکہ

”ہم سب“ اور ”وائس آف امریکہ“ کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے مطابق ”وائس آف امریکہ“ کی خبریں اور مضامین ”ہم سب“ پر شائع کیے جاتے ہیں۔

voa has 3331 posts and counting.See all posts by voa