پشاور میں دلیپ کمار کا گھر جہاں اب کوئی داخل نہیں ہو سکتا


دلیپ کمار کا گھر

نصف صدی قبل سے بھی پہلے پشاور کے قصہ خوانی بازار میں دور سے آنے والے تاجر پڑاؤ ڈالتے اور اپنے سفر کی داستان بیان کرتے جس کے جواب میں مقامی تاجر بھی کچھ قصے کہانیاں سنایا کرتے تھے۔

اس بازار کی تاریخ میں ایک قصہ محمد یوسف خان کا بھی ہے جنھیں دنیا اب دلیپ کمار کے نام سے جانتی ہے۔

پاکستان کے شہر پشاور میں دلیپ کمار کے آبائی گھر اور ممبئی کے علاقے باندرہ میں ان کی موجودہ رہائش گاہ کے درمیان برصغیر کی تقسیم اور سرحد کی لکیر کھچ چکی ہے لیکن دلیپ آج بھی پشاور کو ’میرا شہر‘ ہی کہتے ہیں جہاں کی یادیں شہر چھوڑنے کے 90 برس بعد بھی ان کے ساتھ ہیں۔

گزری دہائیوں میں دلیپ کمار دو بار پاکستان آئے اور ایک مرتبہ اپنے آبائی گھر کا دورہ بھی کیا۔

دلیپ اسی گھر میں 11 دسمبر 1922 کو پیدا ہوئے تھے۔ گذشتہ دنوں انھوں نے ٹوئٹر پر ایک پاکستانی صحافی کی جانب سے اپنے گھر کی تصاویر پوسٹ کرنے کے بعد اپنے پیغام میں مداحوں سے کہا کہ ان کے گھر کی تصاویر کو شئیر کریں۔

یہ بھی پڑھیے

دلیپ کمار کا خستہ حال آبائی گھر

دلیپ کمار کا مکان ثقافتی ورثہ

جب رشی کپور پشاور سے اپنے گھر کی مٹی ساتھ لے گئے۔۔۔

حکومت پاکستان کی جانب سے کہا گیا ہے کہ وہ دلیپ کمار کے گھر کو ثقافتی ورثے کا درجہ دے چکی ہے اور اب وہاں میوزیم بنایا جائے گا لیکن سنہ 2011 میں بھی ایسا ہی دعویٰ کیا گیا تھا مگر نو برس خاموشی سے گزر گئے۔

بی بی سی کی ٹیم نے سنہ 2014 میں اس گھر کا دورہ کیا تھا اور اب ایک بار پھر وہاں جانا ہوا۔

دلیپ کمار

دلیپ کمار اور ان کی اہلیہ داکارہ سائرہ بانو

ہماری ٹیم نے کیا دیکھا اسے جاننے سے پہلے دلیپ کمار کی جانب سے شیئر کی گئیں کچھ یادوں کو پڑھیں، جو ان کی کتاب ’دی سبسٹینس اینڈ دی شیڈو اور سنہ 2011 میں لکھے ایک بلاگ سے اقتباس ہیں۔

دلیپ اپنی سوانح حیات میں بتاتے ہیں کہ اس زمانے میں میرے شہر پشاور کو باغات، پھولوں اور غلے کا شہر کہا جاتا تھا۔ قلب شہر یعنی قصہ خوانی بازار میں ہمارا گھر واقع تھا۔

’ہمارا بچپن اسی بازار میں کھیلتے کودتے گزرا۔ آتے جاتے ہر وقت مسجد مہابت خان ہماری نگاہوں میں رہتی تھی۔۔۔ سردیوں کا یخ بستہ پانی اور موسم گرما کی آندھیاں طوفان اور جھلسا کر رکھ دینے والی شدید گرمی کی تپش اب بھی ذہن میں تازہ ہے۔‘

دلیپ کمار کا گھر

ماں کا پلو

دلیپ اس گھر سے جڑی یادوں میں اپنی والدہ کا ذکر بطور خاص کرتے ہیں اور کہتے ہیں کہ گھر میں اماں کی رضاکارانہ محنت کے حوالے سے بچپن کے ماہ و سال مجھے بہت یاد آتے ہیں۔

’چائے پر بیٹھتے وقت خواتین اور مرد سب اپنے اپنے مکالمات میں مصروف رہتے۔۔۔ میری ماں اکیلی کچن میں کھانے اور لوازمات تیار کر رہی ہوتی تھیں۔ چولہے پر کام کرنا انتہائی تکلیف دہ عمل تھا۔ دھویں سے اماں کا سانس تک بند ہونے لگتا تھا مگر پھر بھی وہ جتی رہتی تھیں۔‘

وہ کہتے ہیں ’اماں کا پلو پکڑ کر ان کے پیچھے پیچھے چلنے سے مجھے بہت مسرت ملتی تھی۔ اماں اپنے کاموں کے سلسلے میں تیزی سے ایک سے دوسرے کمرے میں جاتیں، تو بھی میں ان کا دم چھلا بنا رہتا۔‘

’گرمیوں میں چبوترے پر چٹائیاں بچھائی جاتیں اور گھر کے لوگ نیچے سویا کرتے تھے۔ ایسے میں جب کبھی چاند کی روشنی اماں پر پڑتی تھی تو میں ان کے چہرے کی خوبصورتی اور متانت میں حیرت زدہ رہ جاتا ہے۔‘

دلیپ کمار کا گھر

اپنے بلاگ میں دلیپ نے لکھا تھا کہ مجھے یاد ہے ایک کمرے میں گھر کے لوگ اکھٹے ہوتے تھے چائے پیتے تھے۔ ایک بڑا کمرا جہاں خواتین نماز پڑھتی تھیں، چھت اور سونے کے کمرے، سب کچھ۔

’سردیوں کی راتیں بچوں کے لیے تفریح طبع کا سامان لاتی تھیں۔ خاندان کے تمام افراد وسیع و عریض چبوترے پر جلائی گئی آگ کے گرد جمع ہو جاتے تھے۔۔۔۔ کہانی سانا یا گیت گانا اہم اور لازمی روایت تھی۔‘

’گھر کے قریب بہتی نہر، لمبی دوپہروں میں گھر سے باہر نکل جانا اور اس کے علاوہ قصہ خوانی بازار میں بیٹھے تاجروں کے قصے دلیپ کمار نے بھی سنے۔ ان کی نظر میں ان قصوں کو سن کر انھیں اپنے کرئیر میں فلم انڈسٹری کا انتخاب کرتے ہوئے سکرپٹ کو جانچنے اور کام میں مدد ملی۔

فقیر کی پیشگوئی، دادی اور کالا ٹیکہ

سوانح حیات میں دلیپ نے بتایا ہے کہ میں پانچ برس کا ہوا تو ایک روز ہمارے دروازے پر ایک فقیر آیا۔

دلیپ کمار کا گھر

’اس وقت خاندان کے تقریباً سارے بچے وہیں موجود تھے مگر فقیر نے صرف میری جانب دیکھا اور ایسا دیکھا کہ میرے چہرے پر نظریں گاڑھ دیں۔۔۔ اس نے میری دادی سے کہا دیکھو میری بات غور سے سنو یہ کوئی معمولی بچہ نہیں، اس نے عظیم شہرت، خاص شہرت حاصل کرنی ہے اور بے مثال کارنامے سرانجام دینے ہیں۔۔۔ اسے قبل ازوقت کھونا نہیں چاہتے ہو تو اس کو ماتھے پر کالا ٹیکہ لگا کر رکھا کرو۔‘

دلیپ کی دادی نے فقیر کی نصحیت سننے کے بعد ان کو گنجا کر دیا اور اگلی صبح ان کی پیشانی پر کالا ٹیکا بھی لگا دیا۔

دلیپ کمار بتاتے ہیں کہ ’سکول پہنچا تو بچوں نے خوب مذاق اڑایا اور تنگ بھی کیا۔۔۔ سر کے بال مونڈنے اور ٹیکہ لگانے کا عمل جاری رہا۔ اپنے نئے حلیے کے ساتھ میں تنہا تہنا اور خاموش خاموش رہنے لگا۔‘

سڑھیوں تلے شگاف اور سکے

دلی کمار کے مطابق ان کے دادا انھیں کندھے پر بٹھا کر نہر پر لے جاتے تھے اور دادا پوتا دیر تک کھڑے نہر کے رواں دواں پانی کو غور سے دیکھتے رہتے۔

دلیپ کمار کا گھر

’ایک بار میرے دادا نے کہا کہ یہ جو گھر کی سیڑھیوں کے نیچے شگاف بنا ہے اس میں جنات کا بسیرا ہے۔ یہاں اگر رقم رکھ دی جائے تو وہ جادوئی قوت سے آگے بڑھتی چلی جاتی ہے مگر شرط یہ ہے کہ رقم رکھنے والا یہ راز افشا نہ کرے اور شگاف کو بار بار دیکھے بھی نہیں۔‘

’میں نے اور ایوب نے کچھ سکے اس میں چھپا دیے۔ بعد ازاں ہم ممبئی منقتل ہو گئے۔ ہم دونوں بھائی اس بات کو بھول بھال گئے۔ ایک طویل مدت کے بعد ہمارا پشاور جانا ہوا تو ایوب نے پیسوں والی بات یاد دلائی مگر اب تو ہمارے گھر کا نقشہ ہی بدل گیا تھا۔ ہم نے جہاں سکے چھپائے وہاں کاڑ کباڑ کا انبار لگا ہوا تھا۔ بڑی جدوجہد اور مشکلات کے بعد ہم دنوں نے مطلوبہ جگہ ڈھونڈ لی مگر وائے افسوس وہاں کچھ بھی نہ تھا۔۔۔‘

’جیسے ماہ و سال سے کوئی گھر میں داخل نہیں ہوا‘

بی بی سی کے کیمرہ مین بلال احمد نے چھ برس قبل اس گھر کی ویڈیو بنائی اور اب دلیپ کمار کا ٹویٹر پیغام پڑھنے کے بعد ایک بار پھر اس گھر میں جا کر ان کی خواہش پوری کرنے کے لیے کچھ تصویریں بنائی ہیں۔

قصہ خوانی بازار

حکومت کے اس اعلان کے بعد کہ اس گھر کو میوزیم بنایا جائے گا، بی بی سی نے سنہ 2014 میں رپورٹ بنائی تھی کہ اس پر عمل درآمد کب ہو گا۔

اس وقت اس گھر کی حالت آج سے قدرے بہتر حالت میں تھی۔ چار مرلے کے اس گھر کی دو منزلیں ہیں۔

ہمارے ساتھی بلال احمد نے بتایا: ’گلی میں اب چھوٹی چھوٹی دکانیں بھی دکھائی دیتی ہیں جو عورتوں کے لباس کی زیبائش اور میک اپ کے سامان کی ہیں۔ ایک دکاندار سے میں نے پوچھا کہ اس گھر کی چابی کس کے پاس ہے تو جواب ملا ایک حاجی نام کا بندہ ہے اس کا گھر ہے لیکن اندر تو آپ نہیں جا سکتے کیوںکہ گھر بہت ہی خستہ حالت میں ہے۔‘

’اس گھر میں داخل ہوتے ہی سامنے ایک کمرہ تھا جس کے اندر لکڑی کا کام ہوا ہوا تھا، ساتھ ہی ایک کچن بھی تھا۔ سیڑھیوں سے اوپر کھلی جگہ تھی اور دو کمرے بنے تھے۔ گو کہ اس وقت بھی اوپر والے کمرے رہنے کے قابل نہیں تھے لیکن جب دو روز پہلے میں دوبارہ اس گھر میں گیا تو میں گھر کی حالت دیکھ کر حیران رہ گیا۔ بند دروازے پر پہنچ کر لگا جیسے کئی ماہ سے کوئی اندر نہیں گیا۔ میں اندر جانا چاہتا تھا لیکن وہاں لوگوں نے کہا کہ یہ بالکل گرا ہوا ہے، ہاں اس گھر کے ساتھ مارکیٹ بنی ہوئی ہے جہاں اوپر جا کر آپ کو یہ گھر باآسانی دکھائی دے گا۔‘

دلیپ کمار کا گھر

جب میں مارکیٹ کی چھت پر گیا تو میں حیران رہ گیا کہ اوپر کے تمام کمرے گر چکے ہیں اور سب کھنڈر بن چکا ہے۔ میں نے کچھ تصویریں لیں اور وہیں سے لوٹ آیا۔

بلال احمد کے مطابق سنہ 2014 میں بھی اس گھر کے مالک نے اسے گودام کے طور پر رکھا ہوا تھا۔

دلیپ کمار کا گھر

ڈپٹی کمشنر پشاور دفتر کے مطابق ڈائریکٹر آف آرکیالوجی اور میوزیم صوبہ خیبر پختونخواہ کا خط ملنے کے بعد دلیپ کمار کے گھر اور کپور حویلی کو حاصل کرنے کے لیے ضروری کارروائی کا آغاز کر دیا گیا ہے۔

ڈائریکٹر آف آرکیالوجی اینڈ میوزیم خیبر پختونخوا ڈاکٹر عبدالصمد کے مطابق دلیپ کمار کے آبائی مکان کے موجودہ مالکان کئی مرتبہ ان عمارتوں کو گرا کر پلازہ بنانے کی کوشش کرچکے ہیں مگر ہر دفعہ ان کی کوشش قانون کے ذریعے سے ناکام بنائی گئی تھی کیونکہ آثار قدیمہ کے قوانین کی رو سے یہ دونوں عمارتیں تاریخی ورثہ ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ اب ان کو حاصل کر کے ان کو سب سے پہلے ان کو ان کی اصل حالت میں بحال کیا جائے گا، جس کے بعد یہاں پر میوزیم قائم کیا جائے گا۔

ڈاکٹر عبدالصمد کہتے ہیں کہ سنہ 2011 اور 2013 میں جو اعلانات ہوئے تھے وہ سیاستدانوں کے زبانی احکامات تھے جبکہ اسے ثقافتی ورثہ قرارد دینے کا نوٹفیکشن 2017 میں جاری ہوا تھا۔

وہ کہتے ہیں کہ گھر کے موجودہ مالک اس گھر کو گرا کر یہاں کمرشل پلازہ بنانا چاہتے تھے لیکن محکمہ آرکیالوجی کے نوادرات سے متعلق ایکٹ 2016 کے تحت اس عمارت کو گرانے سے روکا لیکن اس وقت تک کافی نقصان ہو چکا تھا۔

’اب ہم چاہتے ہیں کہ خریدی زمین کی ملکیت کے ایکٹ کے تحت اس پر سیکشن فور لگے اور اس کے بعد اس گھر کو اس کی حالت میں واپس لائیں گے اور پھر اسے میوزیم کے لیے استعمال کریں۔‘

اب زمین کی ملکیت کے ایکٹ کے تحت زمین کو خریدنے کا فیصلہ کیا گیا ہے اور اس سلسلے میں ضلعی انتظامیہ کو خط بھی لکھا گیا ہے۔

دلیپ کمار کا گھر ہو یا پرتھوی راج کا یا پھر دیگر سینکڑوں مقامات، یہ بحال تو ہو سکتے ہیں لیکن کب اس کا جواب شاید ابھی متعلقہ حکام کے پاس نہیں۔

عبدالصمد کہتے ہیں کہ اس کے بارے میں ابھی یہ نہیں بتایا جا سکتا کہ اس گھر کی بحالی میں کتنا وقت لگے گا کیونکہ یہ عام تعمیرات سے مختلف کام ہوتا ہے۔

دلیپ کمار تو آٹھ یا دس برس کی عمر میں پشاور سے ممبئی چلے گئے لیکن ان کی یادیں یہیں ہیں اور ان سمیت ان کے مداح پرامید ہیں کہ شاید قصہ خوانی کی ایک گلی میں موجود یہ گھر ہمشیہ کے لیے دلیپ کمار کی یادوں کو نقش کر دے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32510 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp