’مبینہ ریپ: 18 برس سے چرچ سے انصاف کی منتظر خاتون پادری


خاتون پادری جون میجر 18 سال سے انصاف کی جنگ لڑ رہی ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ جنوبی افریقہ میں ان کے ایک ساتھی پادری نے انھیں ریپ کیا تھا۔

انھوں نے جنوبی افریقہ کی اینگلیکن چرچ کو اپنے کیس سمیت دیگر کئی کیسز میں تحقیقات شروع کرنے کے لیے متعدد بار غیر روایتی احتجاج کیے ہیں۔

9 اگست 2020 کو جنوبی افریقہ کے یوم خواتین کے موقع پر، ریو میجر ان متعدد خواتین اور سماجی کارکنوں میں شامل تھیں، جنھوں نے آرچ بشپ تھابو میک گوبا کی رہائش گاہ کی باڑ پر انڈرویئر لٹکائے تھے۔

یہ خواتین جنسی بدسلوکی اور ریپ کے الزامات پر جنوبی افریقہ کی اینگلیکن چرچ کی جانب سے ناکافی کارروائی کے خلاف احتجاج کر رہی تھیں۔ ریو میجر کا کہنا ہے کہ چرچ میں ان کے ایک ساتھی پادری نے ان کا ریپ کیا تھا۔

یہ بھی پڑھیے

بچوں سے زیادتی، چرچ معافی کا طلبگار

تھر میں مبینہ گینگ ریپ کی شکار ہندو لڑکی کی ’خودکشی‘

انڈیا میں 86 سالہ خاتون کے ریپ پر غم و غصہ

انھوں نے جنوبی افریقہ کے میڈیا کو بتایا: ’میری لڑائی چرچ کے خلاف نہیں، یہ خواتین کو خاموش کرانے والے نظام اور پدرشاہی نظام کے خلاف ہے، جو ہمیں خاموش رہنے کے لیے کہتا ہے اور مجرم کو وہ کرنے کی اجازت دیتا ہے جو وہ کر رہے ہیں۔‘

لیکن یہ پہلا موقع نہیں تھا جب جون میجر نے اس مسئلے پر چرچ کی مبینہ خاموشی کے خلاف احتجاج کیا تھا۔

’میں مرنے کے لیے تیار تھی‘

‘سنہ 2016 میں انھوں نے پہلی بار بھوک ہڑتال کی اور اس کے چار برس بعد یعنی اس سال جولائی میں انھوں نے دوبارہ بھوک ہڑتال کی اور اس بار انھوں نے آرچ بشپ میک گوبا کے گھر کے باہر کیمپ لگایا۔

انھوں نے بی بی سی کو بتایا: ’میں اس راستے پر مرنے کے لیے تیار تھی، صرف اپنے لیے نہیں بلکہ ہر اس عورت اور بچے کے لیے جسے انصاف نہیں ملا۔‘

جون میجر کے مطابق سنہ 2002 میں، جب وہ ایک مدرسے میں تھیں‘ تو ان پر حملہ ہوا۔

ریو میجر کا کہنا ہے کہ پادری اس کمرے میں داخل ہوا، جہاں مدرسے کے ایک خاندان نے ان کی میزبانی کی تھی اور ان پر حملہ کیا۔

’میں نے ان کا مقابلہ کیا لیکن ایک پوائنٹ پر اس کے ہاتھ میرے گلے پر تھے۔ میں چلائی نہیں کیونکہ گھر میں بچے تھے۔ وہ یہ سب کرنے کے بعد چلا گیا۔‘

’اس کے بعد میں کانپ رہی تھی اور خوفزدہ تھی۔ میں مر جانا چاہتی تھی۔ میں نے اپنے ایک دوست کو فون کیا اور اسے بتایا کہ کیا ہوا ہے۔‘

وہ کہتی ہیں کہ ان پر حملہ کرنے والا دوبارہ آیا اور اس وقت واپس گیا جب تک جون میجر نے انھیں یہ نہیں بتا دیا کہ وہ اپنے ایک دوست کو اس بارے میں بتا چکی ہیں۔‘

خاموشی اور خوف کی زندگی

ریو میجر کا کہنا ہے کہ 18 برس قبل ہوئے اس حملے کے بعد سے وہ اب تک تکلیف میں زندگی گزار رہی ہیں۔

’ایک دوست نے مشورہ دیا کہ ہمیں یہ معاملہ آپس میں ہی رکھنا چاہیے اور مجھے ریپ کرنے والے نے وعدہ کیا کہ وہ آئندہ ایسی حرکت نہیں کرے گا۔‘

’میں نے اس سے اتفاق کیا کیونکہ چند مہینوں کے عرصے میں ہم الگ شہروں میں رہنے والے تھے اور میں نے سوچا کہ یہ کافی حد تک صحیح اختتام ہے۔‘

تاہم دو سال بعد ریو میجر نے فیصلہ کیا کہ وہ چرچ سے اس معاملے کی تحقیقات کروائیں۔

’مجھے دوبارہ خاموش رہنے کے لیے کہا گیا۔ میں یہ سوچتے ہوئے رضامند ہو گئی کہ مجھے چرچ کے نام کی حفاظت کرنی ہے، ایک ادارہ جس سے مجھے بہت پیار ہے۔ بدقسمتی سے یہ خاموشی مجھ پر حاوی ہونے لگی۔‘

وہ کہتی ہیں کہ انھیں مستقل بنیادوں پر ڈراؤنے خواب آتے ہیں اور ایسے کمروں میں رہنے سے خوف آتا ہے جو لاک نہیں ہو سکتے۔

وہ کہتی ہیں ’میں لوگوں اور مردوں کو اپنے قریب نہیں آنے دیتی کیونکہ مجھے اس نے نقصان پہنچایا تھا جسے میں اپنا بہت قریبی سمجھتی تھی۔‘

چرچ پر منافقت کا الزام

ریو میجر نے اپنی کہانی اس وقت منظر عام پر لانے کا فیصلہ کیا جب ان کے جاننے والوں میں سے کوئی ریپ کا شکار ہوا۔ انھیں امید تھی کہ اس سے وہ بہتر محسوس کریں گی اور دوسرے متاثرین کی حوصلے افزائی کریں گی کہ وہ اپنے حملہ آوروں کے خلاف رپورٹ درج کرانے کی ہمت پیدا کریں۔

وہ انصاف کی اپنی اس لڑائی کو سب سے پہلے پولیس کے پاس لے کر گئیں تاکہ فوجداری کارروائی کا آغاز کیا جائے لیکن اس کا کوئی نتیجہ نہیں نکلا۔

جس کے بعد وہ اس معاملے کو چرچ کے پاس لے گئیں اس امید کے ساتھ کے چرچ ان کے ساتھ ہوئے مبینہ ریب سمیت جنسی زیادتی کے دوسرے الزامات کا ازالہ بھی کرے گی۔

وہ کہتی ہیں کہ چرچ سے کوئی خاص جواب نہیں ملا، جس کے بعد انھوں نے سنہ 2016 میں پہلی بار بھوک ہڑتال پر جانے کا فیصلہ کیا۔ وہ کہتی ہیں کہ اس کے بعد چرچ نے جواب دیا اور ان کی بھوک ہڑتال کے ساتویں روز چرچ انتظامیہ نے اس معاملے ہر نظرثانی کا وعدہ کیا تاہم ان کا کہنا ہے کہ ابھی تک کچھ نہیں ہوا۔

دوسری جانب چرچ کا کہنا ہے کہ اس نے پولیس سے تحقیقات کو دوبارہ کھولنے کا مطالبہ کیا ہے۔

یکم جولائی کو، اپنے اس طرح کے پہلے اقدام کے چار سال بعد، وہ کہتی ہیں کہ چرچ کی جانب سے منافقت محسوس ہونے کے بعد وہ ایک اور بھوک ہڑتال پر جانے پر مجبور ہوئیں۔

’جس برس میں پہلی بار بھوک ہڑتال پر گئی میں نے ایک پادری کی حیثیت سے اپنی آمدن کھو دی۔ میں اپنی نئی ملازمت کے لیے آسٹریلیا جانا چاہتی تھی اس لیے میں نے استعفیٰ دے دیا تاہم مجھے اپنی نئی ملازمت کے لیے ایک تعریفی لیٹر کی ضرورت تھی۔‘

’شروع میں مجھ سے وعدہ کیا گیا کہ مجھے یہ لیٹر جاری کر دیا جائے گا لیکن ایسا کبھی نہیں ہوا اور تب سے میں بحیثیت پادری کام نہیں کر سکی۔‘

اس کے بعد ریو میجر نے آمدن کے ضیاع کے لیے چرچ پر مقدمہ کرنے کا انتخاب کیا۔ یہ معاملہ ابھی تک عدالت میں ہے۔

وہ کہتی ہیں ’جو چیز مجھے غصہ دلاتی ہے وہ یہ کہ آرچ بشپ جنسی تعلقات، صنف پر مبنی تشدد اور پدرانہ اقتدار کے خلاف بات کرتے ہیں، لیکن اس کے باوجود میں آج جہاں ہوں وہاں ہونے کی وجہ چرچ کی کاہلی ہے۔‘

’یہ افسوسناک ہے کہ ایک عورت کی حیثیت سے آپ کو اس طرح کی انتہا پسندی پر جانا پڑتا ہے اور اپنے جسم کو خطرے میں ڈالنا پڑتا ہے لیکن میں میک گوبا سے بات کر کے یہ جاننا چاہتی تھی کہ وہ اس بارے میں کیا کریں گے اور انصاف کا مطالبہ کرنا چاہتی تھی۔‘

چرچ کا کیا کہنا ہے؟

بھوک ہڑتال پر جانے کے چھ دن بعد ریو میجر آرچ بشپ سے ملاقات کے بعد ہڑتال ختم کرنے پر رضامند ہو گئیں۔ آرچ بشپ نے انھیں اپنے مطالبات لکھ کر ای میل کرنے کا کہا۔

’اگلے پیر کو آرچ بشپ نے مجھے یہ کہتے ہوئے جواب دیا کہ وہ ایک انضباطی سماعت شروع کریں گے اور یہ کیس دوبارہ کھولنے کے لیے پراسیکیوٹر سے رابطہ کریں گے۔ اسی بنا پر میں نے اپنی بھوک ہڑتال روک دی۔‘

میک گوبا

آرچ بشپ میک گوبا نے یہ انکشاف بھی کیا کہ چرچ کے کچھ پادریوں پر جنسی زیادتی کا الزام عائد کرتے ہوئے متعدد دیگر متاثرین بھی سامنے آئے ہیں

چرچ نے انھیں ای میل کی کہ ’وہ اس بات کی یقین دہانی کرنے کے لیے پرعزم ہیں کہ اس معاملے کو اس سنجیدگی سے حل کیا جائے جس کا یہ مستحق ہے۔‘

سنہ 2018 میں شکایات سننے اور ’ایک محفوظ چرچ بنانے‘ کے لیے ایک فریم ورک تیار کیا گیا جبکہ سنہ 2019 میں انصاف کی بحالی اور فراہمی کے لیے جگہیں پیدا کرنے کا عہد کیا گیا۔

تاہم دو برس بعد ریو میجر اور سماجی کارکنوں نے احتجاج کرتے ہوئے آرچ بشپ کے گیٹ پر انڈر ویئر لٹکا دیے۔ اپنے فیس بک پیج پر جاری ایک بیان میں ریو میجر نے کہا: ’مجھے یقین ہے کہ ان لوگوں کے ذریعہ کی جانے والی تحقیقات، جو تنخواہ پر ہیں اور چرچ سے منسلک ہیں، مجھ پر مزید تشدد کا باعث بنے گیں۔‘

وہ چاہتی ہیں کہ ایک آزاد ادارہ تفتیش کرے۔ انھوں نے چرچ کے ساتھ اس کا حل نکال لیا ہے اور اس عمل کو آگے بڑھانے پر اتفاق کیا ہے۔

چرچ کی جانب سے جاری بیان کے مطابق ریو میجر وکلا کی خدمات حاصل کرنے کے لیے آزاد تھیں اور حتیٰ کہ مدد حاصل کرنے میں چرچ بھی ان کی مدد کرنے کو تیار ہے، اگر اسے ضروری سمجھا جائے۔‘

اس کے علاوہ چرچ کا کہنا ہے کہ ’ریو میجر کے خدشات کے جواب میں، اس نے جینڈر کمیشن کے ایک معروف پارٹ ٹائم کمشنر کو پینل میں شامل کیا ہے جو ان (ریو میجر) کی شکایت کی تحقیقات کرے گا۔ امید کی جاتی ہے کہ ایسا کرنے سے ریو میجر کو اس عمل سے اعتماد اور سکون کا احساس ملے گا۔‘

چرچ پر ماضی میں لگائے گئے الزامات

جنوبی افریقہ کے اینگلیکن چرچ کو پادریوں کے ذریعے جنسی بدسلوکی کے متعدد مقدمات کا سامنا کرنا پڑا ہے۔

جنوبی افریقہ کے ایوارڈ یافتہ مصنف اشتیاق شکری نے سنہ 2018 میں ایک کھلا خط لکھا جس میں کہا گیا تھا کہ انھیں بچپن میں اینگلیکن پادریوں کے ہاتھوں کئی سال جنسی زیادتی کا سامنا کرنا پڑا تھا۔

آرچ بشپ میک گوبا نے چرچ کی جانب سے معافی مانگی اور اسے ماضی کی غلطیوں اور جنسی استحصال کے دعووں پر توجہ دینے میں ناکامی قرار دیا۔ کئی دن بعد انھوں نے یہ انکشاف بھی کیا کہ چرچ کے کچھ پادریوں پر جنسی زیادتی کا الزام عائد کرتے ہوئے متعدد دیگر متاثرین بھی سامنے آئے ہیں۔

چرچ نے ایسے دوسرے کیسز کا بھی اعلان کیا جن پر نظر ثانی کی جا رہی ہے۔

ریو میجر نے کہا ہے کہ وہ اینگلیکن چرچ کے تفتیشی عمل سے گزرنے کے لیے تیار ہیں۔ ایک بیان میں انھوں نے کہا کہ ان کے لیے اور چرچ کے لیے ضروری ہے کہ انصاف فراہم کیا جائے۔

وہ کہتی ہیں کہ انھوں نے اکثر چرچ کے بجائے عدالتوں کے ذریعے اس کیس کی پیروی کرنے پر غور کیا ہے ’لیکن رب نے میری زندگی کا مقصد چرچ میں رکھا تھا اور مجھے یقین ہے کہ وہ اب بھی مجھے اپنے عاجز بندے کی حیثیت سے اپنی خدمت میں حاضر کرنا چاہتا ہے۔‘


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32291 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp