کرپشن کے بعد غداری: عوامی مینڈیٹ چوری کرنے کے ہتھکنڈے


عمران خان کی قیادت میں حکومت اور تحریک انصاف یہ ثابت کرنے پر کمربستہ ہیں کہ نواز شریف فوج کی پیداوار ہیں مگر عمران خان فوج کے حقیقی کماندار اور نگران ہیں۔ آرمی چیف، وزیر اعظم کی مرضی کے بغیر ایک قدم اٹھانے کی ’جرات‘ نہیں کر سکتے۔ یہ آئیڈیل صورت سننے میں جتنی سہانی لگتی ہے اگر حقیقت میں بھی ویسی ہی ہو تو نواز شریف کا سیاست میں فوجی مداخلت کے خلاف بیانیہ خود اپنی موت مر سکتا ہے۔ عمران خان یا ان کے ساتھیوں کو اس سلسلہ میں پریشان ہونے کی چنداں ضرورت نہیں۔ تاہم وزیر اعظم اور حکمران جماعت کی بدحواسی اور پریشانی دیکھ کر یہ اندازہ کرنا مشکل نہیں کہ اس وقت پورا حکومتی نظام کاغذی ناؤ میں سوار ہے۔

وزیر اعظم نے کابینہ کے اہم وزیروں پر مشتمل ایک کمیٹی قائم کی ہے جسے اپوزیشن کی تحریک اور احتجاج کا مقابلہ کرنے کی حکمت عملی بنانے کا ٹاسک دیا گیا ہے۔ عمران خان نے آج اجلاس کی صدارت کرتے ہوئے شرکا کو متحرک ہونے کی ہدایت کی اور کہا کہ نواز شریف کو برطانیہ سے واپس لانے کے لئے ٹھوس قانونی حکمت عملی تیار کی جائے۔ یعنی عمران خان جو کام حکومتی اداروں سے لینے میں ناکام رہے ہیں، اب تحریک انصاف کے نابغے اسے سرانجام دیں گے۔ کمیٹی کے اجلاس میں پارٹی زعما کو مسلم لیگ (ن) میں نقب لگانے اور ایسے ارکان اسمبلی کو توڑنے کا کام بھی سونپا گیا ہے جو کسی نہ کسی وجہ سے مسلم لیگی قیادت سے نالاں ہیں اور متبادل راستے تلاش کر رہے ہیں۔ تحریک انصاف، ان مٹھی بھر ارکان اسمبلی کو اگر ساتھ ملانے میں کامیاب ہوجاتی ہے تو وقتی طور پر پنجاب میں اس کی حکومت مستحکم ہو جائے گی لیکن کرپشن کے خلاف تحریک انصاف اور عمران خان کے ڈھول کا پول بھی کھل جائے گا۔ حکومت اور عمران خان البتہ اس وقت ان نزاکتوں کی پرواہ کرنے پر تیار نہیں ہیں۔ انہیں خوف ہے کہ اپوزیشن کا نیا اتحاد ان کے اقتدار کے لئے خطرہ بن سکتا ہے، اس لئے ان کی صفوں میں انتشار پیدا کرنا اہم ہے۔

مسلم لیگ (ن) یا کسی مخالف پارٹی میں بغاوت کروانے یا اس کی صفوں میں انتشار پیدا کرنے کی کوششیں پہلی بار نہیں ہوئیں۔ گزشتہ انتخابات کے وقت سے بھی مسلسل ایسی کوششیں کی جاتی رہی ہیں۔ حیرت ہے کہ عمران خان سمجھتے ہیں کہ وہ مخالف پارٹی کے چند ارکان کوساتھ ملا کر ملک میں شروع ہونے والی سیاسی جنگ جیت جائیں گے۔ حالانکہ اس وقت اپوزیشن اور بطور خاص نواز شریف کی لڑائی حکومت کو گرانے سے زیادہ یہ اصول منوانے کی بنیاد پر ہے کہ انتخابات سے لے کر پارلیمانی فیصلوں تک میں عسکری اداروں کی مداخلت بند کی جائے اور منتخب حکومت کو اپنی مرضی اور منشور کے مطابق کام کرنے دیا جائے۔

ملک میں اگر یہ اصول تسلیم ہو جائے اور عسکری ادارے واقعی سیاسی حرکیات میں کردار ادا کرنے سے تائب ہوجائیں تو تھیوری کی حد تک اس کا سب سے زیادہ فائدہ موجودہ حکومت یا عمران خان کو ہو سکتا ہے۔ وزیر اعظم نے دو روز قبل ایک ٹیلی ویژن انٹرویو میں واشگاف الفاظ میں کہا ہے کہ تاریخ ہمیں یہ سبق سکھاتی ہے کہ سیاسی معاملات میں فوجی مداخلت سے مسائل حل نہیں ہوتے۔ اگر جمہوریت میں خرابی ہے تو اسے دور کرنے کی کوشش کی جائے نہ کہ مارشل لا لگا دیا جائے۔ اگر عمران خان واقعی اسی اصول پر حکومت چلارہے ہیں تو وہ نواز شریف کے بیانیہ سے ہراساں اور بدحواس کیوں ہیں؟ نواز شریف بھی تو یہی کہہ رہے ہیں کہ ماضی میں بار بار فوجی مداخلت اور حکومتوں پر عسکری اداروں کی بالادستی سے معاملات خراب ہوئے ہیں۔ اس لئے یہ طریقہ اب ختم ہونا چاہیے۔

اس اہم معاملہ پر ’یکساں‘ موقف رکھنے کے باوجود عمران خان مسلسل نواز شریف کو ملک دشمن اور بھارتی ایجنٹ قرار دینے پر کیوں مصر ہیں؟ کیا اس کی واضح وجہ یہ نہیں کہ وزیر اعظم کے عہدے پر فائز ہونے کے باوجود، انہیں نہ پارلیمنٹ پر اعتبار ہے، نہ عوام پر بھروسا ہے اور نہ ہی یہ یقین ہے کہ وہ فوج کی اعانت و سرپرستی کے بغیر ایک دن بھی برسر اقتدار رہ سکتے ہیں۔ عمران خان کا سب سے بڑا خوف یہی ہے کہ ملک میں اگر کوئی ایسا انتظام مستحکم ہو گیا جس میں پچھلے دروازوں سے داخل ہو کر معاہدے اور سمجھوتے کرنے کا طریقہ ہمیشہ کے لئے ختم ہو گیا تو ان کی اپنی سیاست اور پارٹی کا کیا بنے گا۔

فوج اگر عمران خان کے سر سے ہاتھ اٹھا لے تو سب سے پہلے قومی اسمبلی کسی تاخیر کے بغیر عمران خان کے خلاف تحریک عدم اعتماد منظور کر سکتی ہے۔ ان کی پارٹی کو حاصل چھوٹے چھوٹے گروہوں کی امداد بھاپ کی طرح غائب ہو جائے گی۔ اس کے بعد وہ پارٹی جس کے بارے میں عمران خان دعویٰ کرتے ہیں کہ انہوں نے 22 سال کی سیاسی مشقت کے بعد استوار کی ہے، ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہو جائے گی۔ عمران خان اپنے دائیں بائیں نظر دوڑائیں، ان کے سارے ساتھی وہی عناصر ہیں جو ہر دور میں حکومتوں کا حصہ رہے ہیں۔ کیا عمران خان نے کبھی نہیں سوچا کہ جو لوگ آج ان کی سیاسی طاقت بنے ہوئے ہیں، کل وہ کس کے دستر خوان سے لقمہ اٹھاتے تھے؟ دراصل یہ سارے لوگ کبھی پارٹی نہیں بدلتے، وہ ہمیشہ ’حکمران پارٹی‘ کا حصہ ہوتے ہیں۔ آج عمران خان کو حکمران بنانا اور برقرار رکھنا مقصود ہے تو وہ ان کے ساتھ ہیں۔ اگر یہ ارادہ تبدیل ہو گیا تو عمران خان اکیلے کھڑے ہوں گے۔

اس صورت حال کو سمجھنے کے لئے عمران خان کو یہ غور کرنا چاہیے کہ کیا کوئی ایسے لوگ بھی ان کے ہمرکاب ہیں جن کے ساتھ مل کر انہوں نے 1996 میں تحریک انصاف کا آغاز کیا تھا۔ گزشتہ چند برس میں ان کے سارے سیاسی ساتھی ان عناصر سے بدل چکے ہیں جو صرف ’حکمران پارٹی‘ میں شامل ہوتے ہیں۔ یہ ان لوگوں کا نہیں عمران خان کے طریقہ انتخاب کا قصور ہے۔ انہوں نے خود جد و جہد کی بجائے درپردہ سمجھوتے اور عسکری اداروں کی قیادت کے ذریعے برسر اقتدار آنے کا قصد کیا تھا۔ وہ اس مقصدمیں کامیاب تو رہے ہیں۔ یہ عین ممکن ہے کہ وزیر اعظم بننے سے پہلے وہ واقعی دل سے یہ سمجھتے ہوں کہ اقتدار سنبھالتے ہی وہ پلک جھپکتے سب معاملات درست کردیں گے لیکن دو سالہ حکمرانی میں ناکامیوں کی طویل فہرست دیکھتے ہوئے انہیں اپنی خام خیالی سے باہر نکلنے اور عبرت پکڑنے کی ضرورت ہے۔

عمران خان کی دلیل ہے کہ فوج اس لئے ان کے تابع فرمان ہے اور انہیں حقیقی وزیر اعظم مانتی ہے کیوں کہ وہ ایماندار ہیں۔ یہ محیر العقل منطق ہے جسے تاریخی یا عملی تجربے کے تناظر میں درست ثابت نہیں کیا جاسکتا۔ ایک تو یہ بات پاکستان کے پورے سیاسی نظام پر تہمت کے مترادف ہے کہ عمران خان سے پہلے کوئی دیانت دار شخص ملک کا وزیر اعظم نہیں بنا۔ گویا ملک کے کروڑوں لوگوں میں عمران خان اکلوتے ہونہا ر ہیں جنہوں نے کبھی بے ایمانی نہیں کی۔ ملکی سیاست میں مالی بدعنوانی کا آغاز کسی حد تک عمران خان کے ممدوح سابق فوجی آمر ایوب خان کے دور میں ہوا تھا لیکن اسے نقطہ عروج تک ضیا الحق نے پہنچایا۔ لیاقت علی خان سے لے کر فیروز خان نون تک کسی کو بھی چند ماہ سے زیادہ حکومت کرنے کا موقع نہیں دیا گیا حالانکہ ان میں سے کسی پر بدعنوانی کا الزام عائد نہیں تھا۔ سقوط ڈھاکہ کے بعد 1973 کا متفقہ آئین منظور ہونے پر ذوالفقار علی بھٹو وزیر اعظم بنے۔ ان پر بھی بدعنوانی کا کوئی الزام نہیں تھا لیکن ایک فوجی جنرل نے ان کی حکومت کا تختہ الٹا۔ ضیا الحق، بھٹو کی سیاسی قوت سے اس قدر خوفزدہ رہا کہ انہیں پھانسی دے کر ہی دم لیا۔

دیانت دار وزیر اعظم اور فوج کی تابعداری کی دلیل یوں بھی بودی اور ناقص ہے کہ ملک کا آئین کسی آرمی چیف یا فوجی اداروں کو یہ فیصلہ کرنے کا استحقاق نہیں دیتا کہ وہ ایماندار وزیر اعظم کا حکم مانیں۔ اور اگر وزیر اعظم بدعنوان ہو تو اس کی بات سننے کی بجائے، اس سے اپنی بات منوانے کا طریقہ اختیار کریں۔ اگر یہ اصول تسلیم کر لیا جائے تو عملی طور سے ملک میں آئین کی حکمرانی کی بجائے فوجی قیادت کی حکومت ہوگی۔ اور دیانت کا معیار لین دین، بول چال، قول و فعل میں راستی کی بجائے ایک ریاستی اہل کار کی صوابدید قرار پائے گا۔

کسی بھی مہذب معاشرے میں اس اصول کو دیانت کی بنیاد نہیں مانا جاسکتا۔ نیتوں کا حال کسی کو معلوم نہیں لیکن ملک پر شخصی حکمرانی مسلط کرنے کے کھیل میں سیاسی کرداروں کو کٹھ پتلیاں بنا کر چور سپاہی کا ایک مخصوص اسٹیج تیار کیا گیا ہے۔ کھیل کے ان اصولوں سے بغاوت کرنے والوں کو چور اچکے قرار دینے کا جو نعرہ بلند کرتے ہوئے عمران خان، نواز شریف اور آصف زرداری کے خلاف سیاست چمکانے کی کوشش کرتے رہے ہیں، وہ بھی ان کا اپنا ایجاد کردہ نہیں ہے۔ بدعنوانی اور ملک دشمنی دو ایسے نعرے ہیں جنہیں قبول عام دلوا کر اس ملک میں عوام کا مینڈیٹ چوری کرنے کی روایت مستحکم کی گئی ہے۔

کرپشن کے الزامات کے بعد بھی جب نواز شریف کو مکمل طور سے خاموش کروانے میں کامیابی نہ مل سکی تو عمران خان اب انہیں بھارتی ایجنٹ اور ملک کا غدار قرار دینے کی سرتوڑ کوشش کر رہے ہیں۔ عمران خان اس غلط فہمی میں نہ رہیں کہ وہ خود شکاری کے ترکش کا آخری تیر (خدنگ آخریں) ہیں۔ وہ اس وقت سے ڈریں جب وہ خود ان الزامات کا سامنا کر رہے ہوں گے اور ان کا ساتھ دینے والا کوئی نہیں ہوگا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

سید مجاہد علی

(بشکریہ کاروان ناروے)

syed-mujahid-ali has 2750 posts and counting.See all posts by syed-mujahid-ali