کیا اصل مسئلہ ریپ ہے؟


16 دسمبر 2012 کو نئی دہلی کی سڑکوں پر سائیکو تھراپی کی ایک 23 سالہ طالبہ جیوتی سنگھ کو ایک چلتی بس میں چھ مردوں نے اجتماعی زیادتی کا نشانہ بنایا۔ ریپ کے بعد جیوتی کے اندرونی اعضاء کو ایک سریے سے اس قدر مجروح کر دیا کہ پہلے نئی دہلی اور بعد میں سنگاپور کے ڈاکٹروں کی بے انتہا کوشش کے باوجود بھی اسے بچایا نہیں جا سکا۔ اور اس واقعے کے دو ہفتے بعد وہ اس دنیا سے رخصت ہو گئی۔ اس واقعے میں چھ نوجوان ملوث تھے ان میں سے پانچ کی عمریں 19۔ 35 سال کے درمیان تھیں جبکہ چھٹا لڑکا 18 سال سے کم عمر تھا۔ اس واقعے کے مرکزی کردار رام سنگھ کو دہلی پولیس نے واقعے کے ایک دن بعد ہی گرفتار کر لیا تھا جس نے بعد ازاں عدالت کے فیصلے سے پہلے ہی جیل میں خودکشی کرلی تھی۔ پولیس کو اپنے بیان میں اس نے جو کچھ بتایا اس میں چند باتیں بہت اہم تھی۔
جیوتی اپنے دوست اوندرا پرتاپ کے ساتھ سینما دیکھ کر واپس آ رہی تھی گھر واپسی کے لیے لیے وہ اس بس پر بیٹھی جو رام سنگھ کا بھائی چلا رہا تھا بس میں جیوتی اور اوندرا کے علاوہ رام سنگھ کے 5 اور دوست بھی سوار تھے ان سب نے مل کر دلی کی سڑکوں پر چلتی ہوئی بس میں اوندرا کو مارپیٹ کر بے بس کرنے کے بعد جیوتی کو اجتماعی زیادتی کا نشانہ بنایا اور شدید زخمی کر دیا۔ انتہائی زخمی حالت میں ان دونوں کو سڑک کے کنارے پھینک کر یہ ملزمان فرار ہو گئے۔ جب پولیس نے رام سنگھ سے پوچھا کہ اس نے ایسا کیوں کیا تو اس نے پولیس کو بتایا کہ جیوتی نے نازیبا لباس پہن رکھا تھا اور جیوتی اور اوندرا بس میں نازیبا حرکات کر رہے تھے۔ ایسے میں دیکھنے والے خود کو کیسے کنٹرول کر سکتے ہیں۔
جب اس سے یہ پوچھا گیا کہ جیوتی کو لوہے کی راڈ سے زخمی کس نے کیا تو اس نے اعتراف کرتے ہوئے کہا کہ یہ میں نے کیا کیونکہ جیوتی مزاحمت کرنے سے باز نہیں آ رہی تھی۔
ذرا ان دونوں باتوں کو یاد رکھیے۔ ایسا اس لیے ہوا کیونکہ جیوتی نامناسب لباس میں نازیبا حرکات کر رہی تھی اور لوہے کی راڈ سے جیوتی کے اندرونی اعضا مجروح اس لئے کر دیے گئے کیونکہ وہ مزاحمت کر رہی تھی۔ رام سنگھ نے ریپ اور زخمی ہونے کی تمام تر ذمہ داری جیوتی پر ڈال دی۔ ایک قابل غور بات اور دیکھیے کہ اس نے جو کیا تھا اس کے نتائج سے فرار اختیار کرتے ہوئے عدالت کا فیصلہ آنے سے پہلے ہی اس نے خودکشی کر لی۔


جیوتی اور اس کے ساتھ پیش آنے والا واقعہ ہندوستان میں ایک علامت بن گیا۔ شروع میں جیوتی کی شناخت چھپائی گئی مگر اس کی والدہ آشا دیوی نے اپنی بیٹی کی شناخت یہ کہہ کے ظاہر کی کہ وہ چاہتی ہیں کہ ریپ کی شکار ہونے والی خواتین چپ نہ بیٹھیں۔ سامنے آئیں اور یہ نہ سوچیں کہ ریپ ہونے میں ان کا کوئی قصور تھا۔
جیوتی کے ساتھ پیش آنے والے واقعے کو ایک علامت سمجھئے اور نتائج نکالیے۔
جیوتی کو اس لئے ریپ کیا گیا کیونکہ اس کو دیکھ کر حملہ آور اپنے جذبات کو کنٹرول میں نہ رکھ سکے۔
اس کے جنسی اعضاء کو مجروح اس لیے کیا گیا کیونکہ اصل میں وہی فساد کی جڑ تھے۔
اس کو شدید تشدد کا نشانہ اس لیے بنایا گیا کیونکہ اس نے خاموشی سے ظلم برداشت نہ کیا اور مزاحمت کی کوشش کی۔
ملزمان اور ان کے وکلا نے اس واقعے کی کوئی بھی ذمہ داری قبول کرنے سے انکار کر دیا۔
بالفاظ دیگر اگر کمزور کے جسم یا اس کے ووٹ پر ظالم کی نظر ہے تو بلا چون وچرا خود سپردگی کمزور پر لازم ہے۔ اگر وہ ایسا نہ کرے تو اس کے وہ اعضاء جو ظالم کے حوالے نہ کیے جائیں ظالم کی جارحیت کا نشانہ بن سکتے ہیں اب وہ عورت کے جنسی اعضا ہوں، بات کہنے والی زبان ہو، یا پھر نہ جھکنے والا سر۔ واقعے کے بعد ملزمان کے وکیل انسانیت اور اخلاق کی نہیں طاقت کی منطق سے دلیل لاتے ہیں۔ حق اور باطل کا فیصلہ کرنے کے بجائے، سچ اور جھوٹ کا تعین کرنے کے بجائے اس واقعے کو ایک حادثہ سمجھ کر آگے بڑھنے کا مشورہ دیتے ہوئے ہاتھ جھاڑ کر دیگر مباحث چھیڑ دیتے ہیں۔
رام سنگھ کے علاوہ باقی چار ملزمان کو عدالت نے پھانسی کی سزا سنائی۔ پانچویں ملزم کو نابالغ ہونے کے سبب صرف تین سال قید کی سزا سنائی گئی۔ چار بالغ ملزمان نے اپنی سزا کے خلاف اپیل کی جو کئی سال پر محیط طویل سماعتوں کے بعد خارج ہوئی اور اس سال 20 مارچ کے دن ان کو تہاڑ جیل میں پھانسی پر لٹکا دیا گیا۔
مگر کیا شدید سماجی اور حکومتی رد عمل اور ممکن ترین سخت سزا کے بعد ہندوستان میں ہونے والے واقعات میں کوئی کمی ہوئی؟ ہندوستان میں ہونے والے ریپ کے واقعات کے اعداد و شمار دیکھیں تو جواب مل جائے گا۔

شاید ان چار ملزمان کے بارے میں چند بنیادی معلومات کو دوہرانا ہماری تفہیم میں مدد گار ثابت ہو۔

ان میں سے ایک کا نام مکیش سنگھ تھا۔ یہ رام سنگھ کا جھوٹا بھائی تھا اور اس وقت وہ بس چلا رہا تھا جب جیوتی اور اوندرا بس پر سوار ہوئے۔ رام سنگھ کے ساتھ ہی دلی کی ایک انتہائی غریب آبادی میں کرائے کے چھوٹے سے گھر میں رہتا تھا اپنے ایک انٹرویو میں اس نے کہا۔ ”تالی کبھی ایک ہاتھ سے نہیں بجتی۔ ریپ کی زیادہ ذمہ داری لڑکے کی نسبت لڑکی پر عائد ہوتی ہے۔ غلط کپڑے پہننے، غلط کام کرنے، ڈسکو اور بار میں جانے کے بجائے لڑکیوں کو گھر سنبھالنے چاہیے“

اپنی موت کی سزا کے بارے میں اس نے کہا کہ اس طرح کی سزاؤں سے لڑکیوں کے لئے خطرات بڑھ جائیں گے کیونکہ آئندہ ریپ کرنے والے ہماری طرح لڑکی کو زندہ نہیں چھوڑیں گے۔ ہندوستان میں ہونے والے ریپ کے واقعات کا ایک عمومی جائزہ مکیش کی پیش گوئی کو سچ ثابت کرنے کے لیے کافی ہے۔

ونے شرما ان حملہ آوروں میں سے واحد تھا جو تعلیم یافتہ تھا اور ایک جم میں انسٹرکٹر کا کام کرتا تھا۔

اکشے ٹھاکر ایک بس میں کلینر کا کام کرتا تھا جبکہ چوتھا مجرم پون گپتا تھا۔ وہ دلی کی سڑکوں پر پھول فروخت کرتا تھا۔ نابالغ حملہ آور کی شناخت تاحال ظاہر نہیں کی گئی۔ رپورٹس کے مطابق وہ اپنی تین سالہ سزا مکمل کرنے کے بعد اب ایک نئی شناخت کے ساتھ ایک آزاد زندگی گزار رہا ہے۔

دسمبر 2012 اور جنوری 2013 میں اس واقعے کے خلاف بڑے بڑے مظاہروں کا اہتمام کیا گیا ہندوستان کی سول سوسائٹی، خواتین اور طلبہ کی تنظیموں اور سیاسی جماعتوں نے ان مظاہروں میں بڑی تعداد میں شرکت کی لیکن یہ سب کچھ ہندوستان میں ریپ کے واقعات میں کمی نہ لا سکے۔ سرکاری اعداد و شمار کے مطابق ہر پندرہ منٹ کے بعد ہندوستان میں ریپ کا ایک واقعہ وقوع پذیر ہوتا ہے۔

جس طرح پاکستان میں قصور کی معصوم زینب اور حال ہی میں موٹروے پر ہونے والے واقعے کے بعد ہم نے دیکھا عین اسی طرح ہندوستان میں بھی پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا پر بھانت بھانت کی بولیاں بولی گئیں۔ پولیس، قانون نافذ کرنے والے دیگر ادارے، نظام انصاف معاشی نا انصافی، سماجی تفریق اور پدرسری نظام ہر ممکنہ موضوع کو اس ضمن میں زیر بحث لایا گیا اور بڑھتے ہوئے ریپ کے واقعات کے رشتے ان عوامل سے جوڑنے کی کوشش کی گئی۔ ہندوستان کے اخبارات میں بھی صحافیوں نے دنیا بھر کے اعداد و شمار کے انبار لگا دیے۔ ایک عجب طرفہ تماشا یہ ہے کہ اعداد و شمار کے ذریعے صحافی اپنی رپورٹس کو یہ جانے بغیر سائنسی رنگ دینے کی کوشش فرماتے ہیں کہ محض اعداد و شمار کچھ نہیں بتاتے۔

”ہم سب“ پر بھی ایک نابغہ نے فرانس میں ریپ واقعات کے اعداد و شمار پیش فرمائے تھے۔ کیا ان واقعات کے ذیل میں فقط اعداد و شمار کی روشنی میں موازنہ ممکن ہے؟ ہرگز نہیں۔ مغرب کے اکثر ممالک میں ہونے والے ریپ کے واقعات کی نوعیت پاکستان اور ہندوستان میں ہونے والے واقعات سے یکسر مختلف ہے۔ مگر واقعات کی تفصیل میں جانے کا نہ ہمیں یارا ہے اور نہ وہ نظر جو اس کام کے لیے درکار ہے۔ ہندوستان میں اس وقت ریپ رپورٹ ہونے والا چوتھا بڑا جرم ہے۔ میں پہلے بھی عرض کر چکا ہوں اب پھر بوجھل دل کے ساتھ عرض کرتا ہوں کہ کوئی دن جاتا ہے کہ ہمارے ہاں صورتحال یہی ہونے جا رہی ہے۔ کیا سخت سزاؤں سے ریپ کے واقعات کی روک تھام ممکن ہے۔ اس طالبعلم کا جواب نفی میں ہے۔

آپ جانتے ہیں کہ ریپ کے پیچھے ایک عمومی محرک جنسی خواہش ہوتی ہے۔ عموماً مرد کی جنسی خواہش جب اس کے قابو سے باہر ہوتی ہے تو وہ کسی خاتون، بچے یا بچی کا ریپ کرتا ہے۔ لیکن جنسی خواہش کو ریپ کی واحد وجہ سمجھنا صرف ایک غلطی نہیں بلکہ ایک گمراہ کن غلطی ہے۔ چونکہ ریپ کے واقعات میں مرد ملوث ہوتے ہیں اس لیے سوسن براؤن ملر نے اپنی مشہور زمانہ کتاب Against our will میں لکھا تھا کہ ریپ ایک غیر عقلی، جذباتی اور قابو سے باہر ہوس کا شاخسانہ نہیں ہے بلکہ خود کو ایک فاتح سمجھنے والے (یعنی مرد) کی ایک انتہائی سوچی سمجھی جارحانہ حکمت عملی کا حصہ ہے جو وہ وہ (عورت پر) اپنے قبضے کے اظہار کے لئے اختیار کرتا ہے۔ یہ کتاب 1975 میں شائع ہوئی تھی اور جیسا کہ اس کے بنیادی مرکزی خیال سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے اس وقت اس پر خوب تنقید بھی ہوئی جو آج تک جاری ہے۔

اس کتاب نے جو بحث چھیڑی وہ یہ تھی کہ کیا ریپ جنسی محرکات کی وجہ سے ہوتا ہے یا اس کی وجوہات میں طاقت اور غصے کا اظہار بھی شامل ہے۔ ذہنی صحت کے شعبے میں ان تینوں عوامل پر مختلف محققین نے اپنی رائے دی ہے اور ریپ کے واقعات کی نئی کلاسی فیکیشن بھی کی ہے۔ تاہم مغرب میں ہونے والے جنسی ہراسانی کے واقعات میں خواتین کے ملوث ہونے کے واقعات نے اس بحث کو ایک نیا رخ دیا ہے۔ آپ کو امریکی ناولسٹ اور فلم میکر ڈاکٹر مائیکل کرشٹن کا ناول Disclosure یاد ہوگا۔

یہ ایک حقیقی واقعہ پر مبنی ناول یے۔ اس ناول کا ایک متوازی خیال یہ بھی تھا کہ جنسی ہراسانی صرف جنسی مقاصد کے لیے نہیں ہوتی اور یہ مقصد صرف مردوں کا ہی نہیں، عورتوں کا بھی ہو سکتا ہے۔ مغرب میں رپورٹ ہونے والے جنسی ہراسانی کے واقعات کو یاد کیجئے اور ان خواتین کو ملنے والی رقوم اور ان واقعات کی تفصیلات دیکھیں تو آپ بھی سوچنے پر مجبور ہو جائیں گے کہ زیادہ تر واقعات میں نامور اداکاروں، ہدایتکاروں، کھلاڑیوں، فوجی جرنیلوں، اور سیاست دانوں کے نام ہی کیوں آتے ہیں۔

پاکستان میں جو اصحاب ان واقعات کے ڈانڈے فحاشی، عریانی، بے راہ روی اور اخلاقی بگاڑ سے جوڑتے ہیں وہ ان واقعات کی تشریح نہیں کر پاتے کہ جہاں مذہبی مبلغین، مدرسین، اور قرآن پڑھانے والے قاری بچے اور بچیوں کو جنسی تشدد کا مدارس اور مساجد میں بیٹھ کر نشانہ بناتے ہیں۔ یا پھر جب ان واقعات میں معاشی حوالے سے انتہائی غریب طبقہ یا متوسط طبقات میں بھی نچلے درجے سے تعلق رکھنے والے مرد ملوث ہوتے ہیں۔ معاشرے کی بالادست طبقے کے مرد ہر دور اور ہر زمانے میں ریپ کے واقعات میں ملوث رہے ہیں۔

تفریحاً بھی اور انتقاماً بھی۔ لیکن معاشی طور پر پسماندہ طبقات کے مرد جب ان واقعات میں ملوث ہوں تو یہاں واقعات کی نوعیت بالکل بدل جاتی ہے یہ وہ نوعیت ہے جو ہندوستان اور پاکستان میں کثرت سے رپورٹ ہو رہی ہے۔ آپ دنیا بھر میں ریپ کے واقعات کی تفصیلات دیکھئیے آپ کو پاکستان اور ہندوستان کے واقعات اس لحاظ سے مختلف نظر آئیں گے۔ اول تو مغرب کے کئی ممالک میں ریپ کے واقعات میں ایک بڑی کمی دیکھنے میں آئی ہے مثال کے طور پر جس ملک میں اس وقت بیٹھ کر یہ تحریر لکھی جا رہی ہے گزشتہ برس ایک لاکھ کی آبادی میں ریپ کی شکار ہونے والی خواتین کی تعداد صرف 10.70 تھی۔ آسٹریا میں 10.40 لکسمبرگ میں 11.90 تھی اور تو اور بنگلہ دیش میں یہ تعداد 9.20 ہے۔

لمحہ فکریہ یہ ہے کہ پاکستان اور ہندوستان میں ریپ اور اس کے انتہائی بہیمانہ انجام یعنی ریپ کے بعد قتل کر دینے والے واقعات میں اضافہ کیوں ہے۔

ریپ اور بالخصوص اور تشدد ریپ کے واقعات کسی معاشرے کی اجتماعی ذہنی حالت سے الگ کر کے نہیں دیکھے جا سکتے۔ دیکھنے کی بات یہ ہے کہ ریپ اصل میں کس ذہنی حالت کا اظہار ہے۔ ”ریپ اپنے مفاد کی تسکین کے لیے طاقتور کا کمزور کو بلا اجازت استعمال کرنے کا رویہ ہے“ ۔ جب ایک طاقتور (خواہ یہ طاقت جسمانی ہو، رتبے اور مقام کی ہو، دولت کی ہو یا بندوق کی) کمزوروں کو ان کی مرضی اور منشا کے بغیر اپنی مطلب برآری کے لئے استعمال کرے تو یہ عمل ریپ کہلاتا ہے۔

سوسن براؤن ملر نے بالکل ٹھیک کہا تھا تھا کہ ریپ جارحیت اور طاقت کا ایک سوچا سمجھا اظہار ہے۔ مگر اس کی کتاب کے ساتھ ایک مسئلہ یہ ہوا کہ یہ 1975 میں شائع ہوئی۔ انیس سو پچھتر کے بعد سے لے کر آج تک عورتوں کے سماجی کردار میں ایک بہت بڑی تبدیلی آئی ہے۔

عورتوں کا جنسی ہراسانی کے واقعات میں ملوث ہونا سوسن کے سامنے نہیں تھا۔ دوسرے یہ کہ طاقت کے بہیمانہ اظہار کو کسی ایک طبقے کی بجائے صنف (یعنی مرد) سے مخصوص کر دینا معاملے کی تفہیم میں مدد گار ثابت نہیں ہوتا۔ میں ذاتی طور پر سوسن کی اس تعریف سے متفق ہوں مگر مجھے اس تعریف کو صرف ایک صنف تک محدود کر دینے نے پر اعتراض ہے۔ مجھے معلوم ہے کہ بعض جید ماہرین نفسیات نے طاقت کے بہیمانہ اظہار اور اس کے استعمال کو مرد کی نفسیات سے جوڑا ہے لیکن یہ طالبعلم سردست اس تحریر کی حد تک اس نظریے پر گفتگو کیے بغیر آگے بڑھنا چاہتا ہے۔

اگر ہم ریپ کی اس تعریف کو سامنے رکھیں جس کے مطابق یہ طاقتور کی ایک حکمت عملی ہے جس کے ذریعے وہ کمزور کو اپنے مقاصد کے لیے اس کی اجازت کے بغیر استعمال کرنا چاہتا ہے تو پاکستان اور ہندوستان میں ریپ کے واقعات میں ہونے والا اضافہ قابل فہم بن جاتا ہے۔

پاکستان اور ہندوستان میں موجود مشترکات کا جائزہ لیجیے۔ یہ دونوں پوسٹ کالونیل معاشرے ہیں۔ پوسٹ کالونیل معاشروں کی پرداخت اور تشکیل پانے والی ساخت پر میں تفصیل سے لکھ چکا ہوں۔ دونوں ممالک اس وقت بڑھتی ہوئی مذہبی جنونیت کی زد میں ہیں۔ دونوں ملکوں میں اپنے سے مختلف مذہبی عقائد رکھنے والے اس وقت شدت پسندوں کے نشانے پر ہیں۔ آپ نے دیکھا کہ ہندوستان نے کشمیر کے بارے میں ایک بہت بڑا فیصلہ کشمیریوں کی مرضی کے بغیر ان پر مسلط کیا۔ پاکستان میں حکومتیں عوام پر ان کی مرضی کے بغیر مسلط کردی جاتی ہیں۔ دونوں ملکوں میں حکومتوں کی سرپرستی میں اقلیتوں کی نسل کشی کا سامان کیا جا رہا ہے۔ کیا یہ یاد دلانے کی ضرورت ہے کہ کل تک گجرات کا قصاب کہلانے والا آج ہندوستان کا منتخب وزیر اعظم ہے۔

کون نہیں جانتا کہ ہزارہ مسلمانوں کی ایک بڑی تعداد کو قتل کرنے والا حساس اداروں کی تحویل سے فرار ہوا تھا۔ قابل غور بات یہ ہے کہ گجرات کا قصاب دوسری مرتبہ واضح اکثریت کے ساتھ گاندھی اور نہرو کے ہندوستان کا وزیراعظم منتخب ہوتا ہے اور ہزارہ اپنے قاتل کو فرار کرانے والوں سے حفاظت کی بھیک مانگتے ہیں۔ جب معاشرے پاور سنٹرز کی اس طرح پرستش شروع کر دیں کہ قاتل کو جاننے کے باوجود اسی کو اپنی حفاظت اور قیادت کے لیے اسی کو منتخب کرنا شروع کردیں تو نتیجہ طاقت کے بہیمانہ استعمال کے علاوہ اور کیا نکل سکتا ہے۔ ایسے میں سیادت اور قیادت کا ہر مدعی طاقت کے حصول اور استعمال کے لیے ہر ذریعہ اور ہر طریقہ اختیار کرے گا۔

ہمارے ایسے معاشروں میں طاقت پرستی کا رجحان اس قدر زوروں پر ہے کہ اخلاقی قدروں پر اب عام افراد تو کجا ان کے دانشوروں کی نظر بھی نہیں جاتی۔ وہ مذہبی سکالرز بھی جو مذہب کو بنیادی طور پر ایک اخلاقی نظام سمجھنے اور سمجھانے پر زور دیتے تھے۔ اب واقعات کی تشریح طاقت کی زبان میں کرتے ہیں۔ ظالم اور مظلوم، حق اور باطل، اور سچ اور جھوٹ کے فیصلے اب خارج از بحث ٹھہرا دیے گئے ہیں۔ یہ سکالرز بھی اب لاہور پولیس کے اہلکار اور دہلی ریپ کیس میں ملزمان کے وکیل کی طرح قاتل کی بجائے قتل ہو جانے والوں کی غلطیاں اور ذمہ داریاں گنواتے ہیں۔ آپ ملاحظہ فرما سکتے ہیں کہ جس طرح موٹروے واقعہ میں یہ خاتون کی غلطی تھی کہ وہ رات کے وقت اکیلی سفر کر رہی تھی اور اس نے کار میں پٹرول کی مقدار سفر کرنے سے پہلے کیوں نہ دیکھی۔

بین السطور نہیں، لاہور کے پولیس افسر اور دہلی ریپ کیس میں ملزمان کے وکیل اے پی سنگھ یہ واضح طور پر کہہ گئے کہ اگر عورت رات کے وقت اکیلی نظر آئے گی تو ریپ تو وہ ہوگی۔ یعنی آپ کمزور کے لیے لازم ہے کہ وہ اپنی حفاظت کے انتظامات کرے یا پھر اپنے آپ کو طاقتور بنائے۔ جب معاشرے میں بقا کا انحصار اپنی طاقت میں اضافے پر ہوتا ہے تو آپ جانتے ہیں کیا ہوتا ہے۔ یا ہر انسان ہاتھ میں بندوق اٹھاتا ہے یا مجبوراً بندوق والوں کے حلقہ ارادت میں شامل ہو جاتا ہے۔ انسانیت، دلیل، علم، حق، اور راستی ایسے معاشروں میں عملی طور پر بے معنی اور خالی الفاظ بن کے رہ جاتے ہیں۔ ہم ایک ایسے ہی معاشرے میں رہتے ہیں۔

پھر عرض کرتا ہوں، دل پر پتھر رکھ کر عرض کرتا ہوں، اپنے غلط ہونے کی دعا کے بعد کہتا ہوں۔ آپ پھانسی کی بات کرتے ہیں آپ ریپ کرنے والوں کو آگ میں زندہ بھی جلا دیں تب بھی یہ واقعات نہیں رکیں گے۔ ملک میں طاقت کی حکمرانی اگر اسی طرح قائم رہی اور زندہ رہنے کے لئے انسان کی بجائے طاقتور ہونا اسی طرح ضروری رہا تو کوئی بھی انسان موقع ملتے ہی کسی بھی دوسرے انسان کا ریپ کرنے سے نہیں چوکے گا۔ ریپ کی وسیع تعریف اگر نظر میں رہے تو ریپ ہونے کے لئے بچہ یا عورت ہونا بھی لازم نہیں ہو گا۔

اشاعت مکرر : 4 اکتوبر 2020ء


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).