اجنبی افکار


سیاست کی بات ہو تو ہم بہت آسانی سے کہہ دیتے ہیں کہ سیاست تو نام ہی دھوکا دہی اور جھوٹ بولنے کا ہے، مگر یہ کون ہے جو کہتا ہے کہ سیاست عبادت ہے۔ یہ کیسے ہو سکتا ہے کہ ہو سیاست اور عبادت بھی ہو! بڑی عجیب بات کرتے ہو! پاگل ہو تم تو! بھئی سیاست اور شئے ہے اور عبادت اور چیز۔ نماز قائم کرو، روزہ رکھو، حج کا فرض ادا کرو، زکوٰۃ دو۔ یہ ہے عبادت۔ ایک دوسرے کے کام آؤ، صدقہ کرو، قرآن پڑھو۔ یہ ہے عبادت اور تم سیاست کو عبادت کہتے ہو؟ توبہ توبہ کیا بات کرتے ہو!

معیشت کی بات ہو اور کہو کہ بھائی سود کا نظام تباہی ہے، تو مثالیں دینے لگ جاتے ہیں کہ ان ترقی یافتہ ممالک کو دیکھو، وہاں بھی تو یہی نظام ہے۔ وہ کیوں ترقی کر گئے؟ او بھائی کیا بات کرتے ہو سود وود کچھ نہیں ہوتا، بس ہم میں بے ایمانی نہ ہو۔ پوری دنیا کی معیشت سود پر ہے، اور تم اسے ختم کرنے کی بات کرتے ہو؟؟ سماجی بات ہو تو عورت کو یورپ جیسی آزادی چاہیے کہ وہاں تو عورتوں کے حقوق ہیں۔ ہر عورت اپنی مرضی پہ چل سکتی ہے۔ یہاں بھی وہی حقوق عورتوں کو دینے چاہئیں۔ مرد مرد یا عورت عورت سے اپنی مرضی سے شادی کرنا چاہتا ہے، تو کرے۔ کوئی روک ٹوک نہ ہو۔ والدین بوڑھے ہو گئے ہیں، تو ان کے اولڈ ہاؤس بنا دیں اور بچے بن باپ کے ہوں، تو ان کی دیکھ بھال حکومت کو کرنی چاہیے۔

ہمارے ذہن میں اسلام کا تصور مذہب کا ہے، دین کا ہے ہی نہیں۔ ہم یہی سمجھتے ہیں کہ ہمارے عقائد ٹھیک ہوں، نماز، روزہ، حج، زکوٰۃ، شادی ہو، تو ایجاب و قبول کرائیں۔ مردے کو کفنائیں، دفنائیں۔ یہ ہمارا مذہب ہے، دین نہیں ہے۔ دین کا ہم میں تصور ہی نہیں۔ ہم اتنے خوگر ہو گئے محکومیت کے کہ دین کی اقامت کا تصور، دین کے غالب کرنے کا تصور، ہمارے ذہن میں ہے ہی نہیں۔ علما کو بھی اجنبی سی لگتی ہے یہ بات، کہ کیا بات کر رہے ہو! یہ تو کوئی اجنبی بات ہے!

ہم محکومیت سے نکل ہی نہیں پاے۔ انگریز نے ہمیں مذہب کی آزادی تو دے دی، مگر دین سے بے گانہ کر گیا۔ انگریز نے کہا کہ قانون ہمارا ہو گا، کرمینل لا ہمارا ہو گا، سول لا ہمارا ہو گا، ہاں نماز پڑھ سکتے ہو، اس سے ہمیں کوئی مسئلہ نہیں۔ ایک احسان یہ کیا کہ ہاں فیملی لا اپنے بنا لو، مگر ہم پر غلامی کے افکار اتنے چھائے ہوئے تھے کہ کئی مسلم ممالک نے گھریلو قانون بھی یورپ سے لیے، جس پر یورپ کے اخبارات نے طنزیہ لکھا کہ یہ قوم کہتی ہے، سب سے بہترین ان کا قانون ہے اور فیملی لا تک ہم سے مستعار لیتی ہے۔

انگریزوں کے دور میں علما نے محنت کی کہ غلامی میں بھی، انہوں نے مسجدوں کو آباد رکھا۔ قرآن و حدیث کی تعلیم دیتے رہے، مگر ہم نے ذہن بنا لیا کہ یہی دین ہے۔ اسی لیے جب بھی کوئی امریکی صدر کہتا ہے کہ ہمیں اسلام سے کوئی دشمنی نہیں، تو وہ ٹھیک کہتا ہے۔ کیوں کہ انہیں اس مذہب سے کوئی خطرہ نہیں، جو ہم نے اپنایا ہوا ہے۔ اسی لیے وہ کہتے ہیں کہ تم نے چرچ خرید کر مسجدیں بنا لیں، ہم نے روکا؟ تم نمازیں پڑھتے ہو، ہم نے روکا؟ بلکہ ہم تو افطاری بھی وائٹ ہاؤس میں کراتے ہیں۔ عید پر ڈاک کی مہر بھی جاری کر دیتے ہیں، اور اب تو گوگل بھی ہر اسلامی تہوار پر ’ڈوڈل‘ بناتا ہے۔ لیکن اسلام کا سیاسی، معاشی اور سماجی نظام ہمیں قبول نہیں۔ نظام ہمارا ہو گا۔ ہم اب بھی اسی غلامی میں ہیں۔ بقول حالی:
اے خاصہ خاصان رسل وقت دعا ہے
امت پہ تیری آ کے عجب وقت پڑا ہے

جو دین بڑی شان سے نکلا تھا وطن سے
پردیس میں وہ آج غریب الغربا ہے

جس دین کے مدعو تھے کبھی قیصر و کسرٰی
خود آج وہ مہمان سرائے فقرا ہے

وہ دین ہوئی بزم جہاں جس سے چراغاں
اب اس کی مجالس میں نہ بتی نہ دیا ہے

دین اسلام تو یہ تھا کہ ایمان لے آؤ، ہمارے برابر کے بھائی ہو جاؤ گے، نہیں تو اسلام کی بالا دستی قبول کرو، چھوٹے ہو کر رہو اور جزیہ دو مگر نظام اسلام کا ہو گا۔ پھر تم جو ہو، وہ رہو لیکن نظام اسلامی ہو گا اور اگر یہ بھی منظور نہیں، تو آؤ تلوار ہمارا فیصلہ کرے گی۔ یہ تھا ہمارا دین جو غالب ہونے کے لیے آیا تھا، مگر آج یہ اجنبی افکار لے کر کوئی دیوانہ، اس قوم میں چلا چلا کر مر جائے مگر کوئی اس کی بات پر دھیان دینے کو تیار نہیں ہوتا۔

اسلام تو آیا اسی لیے تھا کہ اسے پوری دنیا میں رائج کیا جائے تا کہ امن ہو سکے، مگر ہم نے اسلامی نظام ہی کو پس پشت ڈال دیا اور مغربی طور اطوار اپنا لیے۔ کہنے کو ہم مسلمان ہیں۔ کوئی ایک ایسا ملک روئے زمین پر نہیں، جس میں اسلامی نظام کا نفاذ ہو، جو کہ ہمارے ذمہ داری تھی کہ اگر کمزور ہو، اسلامی نظام لانے کے لیے قوت اکٹھی کرو۔ اور اگر طاقت رکھتے ہو تو پھر اسلامی نظام نافذ کرو۔ اگر نہیں کرتے تو ہم غداری کرتے ہیں اسلام سے اور اپنے خدا سے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).