جب مجھے بیٹی نہیں بیٹا چاہیے تھا


انسان رب کی جن رحمتوں کو آنکھوں سے دیکھ نہیں پاتا، ان میں ایک نام ایسے چہرے کا بھی ہے، جس نے میری ذاتی زندگی بدل دی۔ کہتے ہیں کہ بیٹا اللہ کی نعمت ہے اور نعمت کا حساب ہوتا ہے، جب کہ بیٹیاں اللہ کی رحمت ہیں اور رحمت کا کوئی حساب نہیں۔ اس بات کو پانچ سال ہو گئے، شادی ہوئی تو ایک خواہش تھی کہ پہلی اولاد بیٹا ہو، پڑھا لکھا ڈاکٹر، بیوی ڈاکٹر، ماں باپ ڈاکٹر، پر سوشل پریشر اتنا تھا کہ نجانے کہاں سے اس خواہش نے جنم لے لیا اور یوں ایک عجیب سا اضطراب رہنے لگا، یہ اضطراب بڑھنے لگا اور بڑھتے بڑھتے اس نے ایک جنون کی سی کیفیت اختیار کرلی۔

یہ کیفیت، اس قدر حاوی ہونے لگی کہ میں پریشان سا رہنے لگا۔ نجانے کیوں یہ سب تھا، مگر زندگی تھی کہ بدلنے سی لگ گئی، میرے وہ کام جو رک گئے تھے، وہ ہونے لگ گئے۔ زندگی آگے چلنے لگی۔ اس دوران ملک میں سنٹرل انڈکشن پالیسی کا ابال تھا، اور یہ پالیسی اس قدر سخت تھی کہ مجھے میری مرضی کی فیلڈ میں سپیشلائیزیشن حاصل کرنے میں شدید مشکلات کا سامنا تھا۔ اچانک سے زندگی کی چیزیں بدلنے لگیں اور مجھے میری مرضی کی فیلڈ میں ایک انتہائی اچھے سنٹر میں اسلام آباد ٹریننگ مل گئی۔

میں ملتان تھا، اہلیہ کے ہاں رحمت کا نزول ہونے والا تھا اور میں اسلام آباد چلا گیا۔ بس پھر وقت بدلنے لگا۔ مجھے آج بھی وہ دن یاد ہے، جب میں اسلام آباد سے ملتان گاڑی چلا رہا تھا کہ مجھے وٹس ایپ میسج پر آئرہ کی پہلی تصویر موصول ہوئی۔ میں بے اختیار رونے لگا اور مجھے پہلی بار احساس ہوا کہ ہم جن چیزوں کو فار گرانٹڈ لیتے ہیں، رب کے ہاں ان کی اصل ہماری اصل سے بھی زیادہ ہے۔ آئرہ کے آنے کے بعد اہلیہ بھی اسلام آباد آ گئیں۔

میں اہلیہ کی نوکری کے لیے پریشان تھا، کیونکہ اس نے ڈاکٹری کا پبلک سروس کمیشن ٹاپ کیا تھا اور پوسٹنگ کے لیے اس نے ملتان کا انتخاب کیا، اب اگر اس کی پوسٹنگ آ جاتی تو اس کو اسلام آباد کروانا ایک الگ عذاب تھا۔ یہ سب میری سمجھ سے بالاتر تھا، مگر قسمت اپنے کھیل کھیلتی گئی۔ ڈیفنس میں ہمارے گھر کے ساتھ ہی ایک ہیلتھ یونٹ تھا، جہاں پوسٹنگ ناممکن کام تھا، رب نے ایسا ہاتھ پکڑا کہ بیگم کا وہاں تبادلہ ہو گیا۔

یہ فیصلہ میری اہلیہ کی زندگی کا ٹرننگ پوائنٹ ثابت ہوا۔ اس ہیلتھ یونٹ پر دو سال اہلیہ نے بہترین کام کیا۔ وہاں سے اہلیہ کو من پسند شعبے میں سپیشلائیزیشن کرنے کے لیے نمبر ملے اور یوں بالآخر اس کو میرے ہی والے سرکاری ہسپتال میں فیلو شپ کے لیے ٹریننگ مل گئی۔ اب میں معدہ و جگر میں سپیشلائیزیشن کر رہا تھا اور وہ ریڈیالوجی میں۔ آئرہ کے آنے کے بعد زندگی میں اتار چڑھاؤ آتے رہے، مگر مجھے نجانے کیوں لگا کہ کوئی غیبی طاقت ہے، جو ہم دونوں کی مدد کرتی جا رہی ہے۔

میں نے باہر کے امتحان پاس کیے، میڈیا میں کالم شہرت پانے لگے، ڈیجیٹل میڈیا کی دنیا میں دونوں میاں بیوی نے بطور اینکر پرسن قدم رکھا تو وہ سب ایک دم وائرل ہونے لگا۔ مطلب میں مٹی میں ہاتھ ڈالتا اور وہ سونا ہوتا گیا۔ میری ٹریننگ ختم ہوئی تو معدہ و جگر کے آخری امتحان کا سخت ترین مرحلہ تھا، یہ انتہائی مشکل امتحان تھا، اور پانچ سال ٹریننگ کے بعد بھی اس امتحان میں میرے کئی سینئر کئی سالوں سے پھنسے ہوئے تھے۔

میں نے ڈیڑھ سال سے اس امتحان تیاری شروع کر رکھی تھی اور ہر وقت پریشان اور اکتایا رہتا تھا۔ عجیب سی زندگی تھی۔ ٹریننگ ختم ہوئی تو نوکری ختم ہو گئی، اور سرکاری پوسٹنگ جہاں آئی وہاں اب سینئر ڈاکٹر ہو کر کام کرنا، اپنے آپ کو ضائع کرنے کے مترادف تھا۔ سو نوکری سے رخصت لے لی اور امتحان کی تیاری کرنے لگا۔ یہ شدید مایوس کن دن تھے، کیونکہ امتحان پاس نہ کرنے پر نوکری صرف ذلالت تھی اور پاس کب ہو گا یہ وقت معین نہیں تھا؟

ایسے میں، اللہ پاک نے مجھے پر ایک اور کرم کیا اور کرم بھی آئرہ کی رحمت سے ہی ہوا۔ مجھے میری من پسند سپر سپیشلسٹ فیلڈ، جس کا میں نے ہمیشہ خواب دیکھا تھا، اس میں فیلوشپ مل گئی۔ یہ سندھ کے علاقے گمبٹ میں، میرے سینئر استاد ڈاکٹر عبد الوہاب ڈوگر کی وجہ سے ممکن ہوا اور میں اسلام آباد سے گمبٹ آ گیا۔ میں کئی بار آئرہ کو یاد کرتا، مگر اس تین چار سال کی فرشتہ لڑکی کے چہرے پر میں نے ہمیشہ حوصلہ دیکھا، ایک نئی چمک دیکھی۔

کبھی زندگی کے ان سالوں میں، اور یہاں تک کے مشکل ترین وقت میں بھی، اس نے مجھے حوصلہ نہیں ہارنے دیا۔ ایف سی پی ایس ( گیسٹرانٹرالوجی) کی سپیشلائیزیشن کا امتحان جو زندگیاں لے جاتا ہے، میرا پہلی بار ہی نکل گیا، اور والدین کے ساتھ یہ سب آئرہ کی رحمت تھی۔ والد کے جگر کی پیوند کاری کے بعد ایک خواب تھا، جس کو لے کر چلا ہوں، اسی کو پورا کرنے کے لیے جگر کی پیوند کاری میں بطور فزیشن، ٹرانسپلانٹ ہیپاٹولوجی کی فیلڈ میں آگے مزید سپیشلائیزیشن کر رہا ہوں۔

چین میں گزارے والد کی جگر کی پیوندکاری کے چند ماہ، میری ٹریننگ کا بھی حصہ رہے، کیونکہ اس عرصے میں، میں دنیا کے بڑے پیوندکاری یونٹ تیانجن میں بھی اسی شعبے میں فیلوشپ ٹریننگ کرتا رہا۔ وہاں برف کے دریا پر ٹی شرٹ پہن کر آدھی آدھی رات والد کے لیے دعا کیا کرتا تھا، اس وقت میں اولاد تھا۔ پھر وہی وقت پلٹا کھا گیا، جب میں نے آئرہ کو تین سال کی عمر میں میرے لیے دعائیں کرتے دیکھا۔ گمبٹ کی ریت میں جگر کی پیوندکاری کے ٹرانسپلانٹ ہیپاٹولوجی کے شعبے میں مزید آگے بڑھتے، مجھے نجانے کہاں سے اس کا مسکراتا چہرہ، روشن نوید دینے لگتا ہے۔

زندگی شاید خود ایک صحرا جیسی ہے، اس صحرا کو کاٹنے کے لیے ہمیں، کہیں کسی ہرے درخت کی ٹھنڈی چھاؤں، کہیں کسی پانی کے ٹھنڈے چشمے کی ضرورت ہوتی اور میرا پوری طرح ماننا ہے کہ میری اور میری اہلیہ کی زندگی میں یہ کردار آئرہ کا رہا ہے۔ یہ میری زندگی کی ایک تلخ حقیقت ہے کہ جب آئرہ پیدا ہونے والی تھی تو مجھ پر ایک معاشرتی نفسیات کا دباؤ تھا، اتنا پڑھ لکھ کر بھی ایک پریشر سا تھا، زیادہ نہیں مگر ایک انجان سا خوف ضرور تھا۔

مجھے لگتا تھا کہ بیٹی ذمہ داری ہوتی ہے، بیٹی کا باپ بن کر شاید انسان کمزور سا ہونے لگتا ہے، یہ سب وہ خوف تھے جو معاشرتی جاہلانہ روش نے دل میں وہم کی طرح ڈال دیے تھے۔ مگر آئرہ نے آ کر اپنی چھوٹی سی عمر میں ہی مجھے طاقتور بنا دیا۔ اس کے پیدا ہوتے ہی رب کی رحمتوں کا نزول ہوا، اور ہر گزرتے دن کے ساتھ یہ رحمت بڑھتی گئی۔ یہ بات کی حقیقت ہے کہ اس پھول کی پیدائش سے آج تک ایک دن بھی ایسا نہیں کہ جب میں نے معاش کے بارے میں سوچا ہو، رب نجانے کہاں کہاں سے وسیلے بناتا گیا۔

جب کہیں پھنستا، مجھے یقین ہوتا کہ کہیں سے رب کی رحمت ضرور نازل ہوگی۔ کبھی انتہائی مشکل دنوں میں جب میں بالکل ٹوٹ گیا، تو میں راتوں کو اکثر بیٹی کے پاس جاتا، وہ سو رہی ہوتی، اس کا ہاتھ تھام لیا کرتا اور رب سے دعا کرتا۔ میں نے بیٹی کی دعا کو سات آسمان چیرتے دیکھا ہے۔ میں نے ہر مشکل کو، ہر امتحان کو، لمحوں میں آسان ہوتے دیکھا ہے۔ میں نے دیکھا ہے کہ کس طرح طوفانوں کے تھپیڑے کھاتے زندگی کی ناؤ، سخت طوفانی راتوں میں بھی، بیڑے پار لگتی ہے۔

یہ سب اللہ کے تحفے ہیں، سیانے کہتے ہیں بیٹا نعمت ہے، اس کا حساب ہوگا اور بیٹی رحمت ہے، یہ رحمت کی بارش بن کر برستی ہے۔ انسان ذاتی مشاہدات اور تجربے، صرف اس لیے قلم کے حوالے کرتا ہے کہ معاشرے ان سے اصلاح کے عمل کا پہلو نکالیں۔ ہمیں اجتماعی طور پر رب کی رحمتوں کی قدر کرنی چاہیے۔ اللہ پاک جس گھر کو اس رحمت سے نوازے، وہ یہ سمجھ لے کہ اس گھر کے باسیوں کی زندگی آگے آسان ہو گئی۔ اب جب بھی مشکل آتی ہے، بیٹی سے دور ہوتا ہوں، تو اس کی یاد بھی بہت آتی ہے، مگر ایک ایسا حوصلہ ہوتا ہے جو سینے میں دل بن کر دھڑکتا ہے، زندگی کی ہر مشکل سے ٹکرانے کا حوصلہ، رب کی رحمت پر پر غرور فخر کا حوصلہ۔ یہ بھی ایک سرور ہے اور اس کا مزہ صرف بیٹیوں کے باپ جانتے ہیں۔ رحمت کا سرور۔

تقدیر الہٰی کے نوشتے بھی وہی ہیں
اللہ بھی وہی، اس کے فرشتے بھی وہی ہیں
اتر سکتے ہیں تیری مدد کو ملائک اب بھی
گر ذات الہٰی سے تیرے رشتے بھی وہی ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).