معلومات کی ونڈو شاپنگ


انسان کی سب کچھ جان لینے کی خواہش اور جستجو، روز اول سے شروع ہوئی، جو آج تک قائم ہے۔ اسی خواہش نے ہمیں ایک ایسے زمانے میں لا کھڑا کیا ہے، جہاں معلومات کا خزانہ ہواؤں میں اڑتا اور سمندروں میں بہتا ہے۔ پرانے وقتوں میں کسی بھی خبر یا چیز کی معلومات نایاب ہوتی تھیں۔ جس کو حاصل کرنے کی جد و جہد، نا صرف انسان کو عمل سے جوڑتی بلکہ ذہنی سکون، قابلیت، کچھ کر دکھانے کی جستجو پیدا کرنے کا سبب بھی بنتی تھی، لیکن آج ماحول میں رچی بسی ہر قسم کی معلومات آپ کے چاہتے یا نہ چاہتے ہوئے بھی، کسی پسندیدہ یا نا پسندیدہ خوشبو کے مانند آپ تک پہنچ ہی جاتی ہے۔ چاروں طرف سے حملہ آور معلومات کا یہ وافر اور بے ہنگم خزانہ، بیماری کی شکل اختیار کر تا جا رہا ہے۔ اس کو کئی نام دیے جا سکتے ہیں، جس طرح انسومینیا کا شکار انسان، اپنی صلاحیتوں کا صحیح سے استعمال نہیں کر پاتا، ویسے ہی انفومینیا کا شکار انسان بھی، معلومات کو صحیح طور سے استعمال میں نہیں لا سکتا، نہ آگے بڑھا سکتا ہے۔

آلودہ ہواؤں میں سانس لینے والا شخص، اچھے سے سمجھ سکتا ہے کہ infoxication اس کی صحت کے لئے زہریلی ثابت ہو سکتی ہے۔ موٹاپے کا شکار انسان، زندگی کی کئی دلکشیوں سے دور ہو جاتا ہے۔ ویسے ہی infobesity کا حامل انسان، معلومات کا اسمارٹ استعمال کرنا نہیں جانتا اور جس طرح فوگ اور اسموگ کا موسم، کسی ماہر ڈرائیور کی رفتار کو بھی بریکیں لگوا دیتا ہے، بالکل اسی طرح ڈیٹا smog بھی ہمارے ذہنوں میں جمود طاری کر کے، ہماری قوت فیصلہ کو متاثر کرتا ہے۔

گئے وقتوں میں، کسی ایک چیز کے بارے میں جاننے کے لئے لائبریریوں کی خاک چھان کر اور کتابوں کی گرد جھاڑ کر وہ معلومات حاصل کی جاتی تھیں، جن سے نا صرف ہمارے علم میں اضافہ ہوتا تھا، بلکہ حاصل کی ہوئی جانکاری یا معلومات دیر پا اور مصدقہ ہوتی تھیں، جو انسانی ذہن پر گھڑی دو گھڑی نہیں، بلکہ سالہا سال نقش رہنے کی وجہ سے، انسانی علم کو طویل زندگی عطا کر دیتی تھی۔ آج سیکڑوں ٹی وی چینل، اخبارات کی بھرمار اور ان سب میں سب سے آگے سوشل میڈیا، لمحوں میں مہیا کرنے والی معلومات کو لمحے سے بھی کم میں، انسانی ذہن سے محو کر دیتا ہے۔ یوں لگتا ہے معلومات کی ونڈو شاپنگ جاری ہے۔ دیکھتے جائیں آگے بڑھتے جائیں۔ سب بہت اچھی لگتی ہیں۔ کچھ چونکا دینے والی ہوتی ہیں، لیکن جب یاد داشت کی گٹھڑیاں سنبھالیں، تو سب خالی معلوم ہوتا ہے۔ جناب! ہم نے تو کچھ لیا ہی نہیں۔

سوشل میڈیا کے ذریعے، تیزی سے پھیلتی سچی، جھوٹی، آدھی ادھوری خبریں، گمراہی پھیلانے میں سب سے آگے ہیں۔ ایک منٹ میں دس ٹویٹ پڑھنے والا انسان، ایک پر بھی توجہ دینے کے قابل نہیں رہتا۔ اچھی خبر کے اگلے لمحے ہی کوئی بری خبر، خوشی کا مزہ کرکرا کر دیتی ہے۔ جس طرح غذائیت سے بھرپور کھانا ہضم ہونے کے بعد ہی انسان کو فائدہ پہنچاتا ہے، بالکل ایسے ہی کسی معلومات یا علم بھی سوچ بچار کے بعد ہی، عمل میں ڈھلتا ہے۔ لیکن ایک کے پیچھے ایک آنے والی جانکاری کی اوور ڈوز، پیٹ کی خرابی کا باعث بنتی ہے۔ نظروں کے سامنے اتنا مواد موجود ہے کہ صحیح غلط کا فیصلہ کرنا بھی مشکل ہے۔

معروف کمپیوٹر ساز کمپنی ’ایچ پی‘ کی ایک اسٹڈی کے مطابق، تیزی سے بڑھتا انفومینیا، کسر فہم اور کسر ذہانت جسے عرف عام میں آئی کیو لیول کہا جاتا ہے، اس میں 10 سے 15 فی صد کمی لا چکا ہے۔ اس کی وجہ سے انفو ایج کے فوائد کے بجائے، نقصانات ہمیں گھیرے ہوئے ہیں۔ معلومات کی زیادتی، انسان کو ضرورت کی چھوٹی بڑی کسی بھی چیز کے خریداری کے باوجود، مطمئن نہیں ہونے دیتی۔ ایک چیز کی خامی اور دوسرے کی خوبی اسے ہمیشہ غیر مطمئن رکھتی ہے۔ ہفتے میں دو کتابیں پڑھنے والا طالب علم، سو کتابوں کی انتخاب میں فیصلہ نہیں کر پاتا کہ کون سی کتاب پہلے پڑھی جائے۔ انٹرنیٹ پر کام کرنے والے کو ہائپر لنک غیر ضروری اور تواتر سے آتے اشتہارات، با خبری پھیلانے کے بجائے، ذہن کو منتشر کرنے کا سامان مہیا کرتے ہیں۔

ضرورت سے زیادہ معلومات کا بوجھ پریشانی، ڈپریشن اور انزائٹی پیدا کرتا ہے اور ہم با خبر ہونے کے بجائے کنفیوژن کا شکار ہو کر، اپنے مقاصد سے ہٹ جاتے ہیں۔ کسی ایک شے کے بارے میں مکمل اور جامع معلومات رکھنے والا شخص، اس سے کہیں بہتر ہے، جو ہر غیر ضروری معلومات کی ادھوری جانکاری رکھتا ہو۔ یعنی ایسا شخص اپنا نظریہ رکھنے کے قابل نہیں رہتا۔

اوور لوڈ اور فوکس معلومات رکھنے والے افراد میں فرق، رات اور دن کے تفریق کی طرح بالکل واضح ہوتا ہے۔ اپنے ذہن اور دماغ کو انفومینیا اور infobesity جیسی بیماریوں سے بچانے کے لئے ضروری ہے کہ ہم معلومات کی ونڈو شاپنگ بند کریں۔ کسی بھی چیز کا مکمل علم اور جانکاری حاصل کریں اور اس کے لئے کسی استاد سے جڑنا صحیح اور غلط کی فیصلہ سازی میں مدد فراہم کرتا ہے۔ کیوں کہ کم معلومات رکھنا، غلط معلومات کے شکنجے میں جکڑے ہونے سے کہیں زیادہ بہتر ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).