ریاست مجھے خوف زدہ کیوں کر رہی ہے؟


24 ستمبر 2020 ء کو، دن 2 بجے اسلام آباد کے سرکاری نمبر سے کال موصول ہوئی اور کہا گیا کہ آپ کے خلاف ایف آئی اے سائبر کرائم ونگ میں درخواست آئی ہے۔ شکایت کنندہ کے مطابق آپ کے مضامین اور سوشل میڈیا پر سرگرمیاں، ریاست کے خلاف ہیں۔ دفتر طلب کیا گیا کہ صفائی دیں، بصورت دیگر یک طرفہ کارروائی کی جائے گی۔ کال سنتے ہی خوف اور پریشانی کے باعث شوگر اور بلڈ پریشر کا لیول بڑھ گیا۔ اہل خانہ سے بات چھپانا چاہتا تھا، مگر اہلیہ بات سن چکی تھی۔ بریس لگی ٹانگ گھسٹتے کمرے میں آتے ہی رونے لگی کہ تم نے ایسا کیا کر دیا ہے۔ سمجھایا کہ کچھ نہیں ہوا۔ سب ٹھیک ہے۔ بمشکل شانت کرایا اور واپس اسے اپنے کمرے میں بھیجا کہ بیٹیوں کو خبر نہ ہو۔

صحافی اور احباب کو مطلع کیا کہ یہ معاملہ ہے۔ نوجوان صحافی سبوخ سید، علی وارثی، امریکا سے حنیفہ عباسی، مریم خان، جرمنی سے عاطف توقیر اور بعد ازاں مطیع اللہ جان، رضا رومی، مرتضی سولنگی، جبران ناصر، حارث خلیق، کرنل (ر) انعام رحمن ایڈووکیٹ، ساجد تنولی ایڈووکیٹ سمیت ظفر منہاس، راجا ساجد، قریبی دوست راجا اعجاز، سوشل میڈیا کے دوستوں نے بھرپور طریقے سے سپورٹ کیا، کہ ہم آپ کے ساتھ ہیں، گھبرانے کی ضرورت نہیں۔ احباب کی تسلی سے حوصلہ ملا اور خوف کچھ کم ہوا ہی تھا کہ یکم اکتوبر کی صبح ایف آئی اے سائبر کرائم کی جانب سے نوٹس آ گیا۔ جس پر پوسٹ آفس کی مہر یکم اکتوبر کی تھی، مگر نوٹس میں طلبی کی تاریخ 30 ستمبر 2020 ء کی درج تھی۔

خوف کے سائے پھر منڈلانے لگے۔ شوگر کا مرض، معذوری، بے روزگاری، بچوں، اہلیہ کی بیماری اور معذوری کے مناظر کی خوفناک فلم چلنے لگی کہ کیا ہو گا۔ کیسی ریاست کا شہری ہوں، جو مجھے تحفظ دینے کی بجائے، خوف زدہ کر رہی ہے۔ پاکستان کے شناختی کارڈ، پاسپورٹ کا حامل ہوں، ٹیکس دیتا ہوں۔ ریاست مجھے کیا دے رہی ہے؟ بطور ریاست کا شہری میرے کوئی حقوق نہیں ہیں۔ ریاست کا کوئی فرض نہیں ہے کہ میرے حالات زار کا پوچھے اور مجھے ریاست کا شہری ہونے پر زندگی کی بنیادی سہولیات دے۔ جو آئینی اور قانونی حق ہے۔

فرض کریں، اگر ریاست مخالف لکھا ہے (جو کہ نہیں لکھا، بلکہ اخبارات اور ڈیجیٹل میڈیا پلیٹ فارم پر شایع شدہ مضامین میں اور سوشل میڈیا پر پوسٹ کی کسی تحریر میں ایک حرف بھی ایسا ثابت نہیں کیا جا سکتا، جو ریاست کے خلاف ہو) ۔ کیا ریاست کا یہ فرض نہیں کہ اپنے شہری کی ناراضی دور کرے؟ ریاست ماں کہ جیسی ہوتی ہے۔ ہر شہری کو بنیادی انسانی ضروریات کی فراہمی ریاست پر فرض ہے۔ جب ریاست اپنے فرائض سے غافل ہو، شہری انصاف، روزگار، صحت اور تعلیم سے محروم ہوں، تو پھر ان کے لئے ریاست بے معنی ہو کر رہ جاتی ہے۔ طاقت سے حب الوطنی پیدا ہوتی ہے اور نہ ریاست سے وفاداری قائم رکھی جا سکتی ہے۔

ریاست اپنے فرائض کی ادائی کے بعد ہی شہریوں کو ان کے فرائض کا کہہ سکتی ہے۔ ریاست آئین میں دیے گئے شہریوں کے حقوق دے اور پھر ان سے بازپرس کا آئینی فریضہ ادا کرے۔ بصورت دیگر اسے ریاست نہیں مافیا کہا جائے گا جو ریاست پر قابض ہے۔

ریاست کا یہ مطلب ہرگز نہیں ہے کہ صرف حکمران طبقے کی اجارہ داری ہو اور باقی شہری ان کے محکوم بن کر رہیں۔ عہد جدید جمہوریت، انسانی حقوق، مساوات اور شخصی آزادیوں کا ہے۔ غلامی اور محکومی کی ہر صورت اور شکل کو رد کرتے ہیں، اور اس پر کسی قسم کی مصلحت کوشی نہیں کی جا سکتی ہے۔

پاکستان کا آئین ہر شہری کو یہ حق دیتا ہے کہ اپنی رائے کا اظہار کرے۔ بنیادی انسانی حقوق کی مانگ کرے۔ آئین پاکستان سمیت، اقوام متحدہ کے عالمی معاہدوں، جس میں افراد باہم معذوری اور انسانی حقوق کے چارٹر پر ریاست پاکستان کے دستخط ہیں۔ ریاست پابند ہے کہ آئین اور عالمی چارٹر کی پاسداری کرے اور اپنے شہریوں کو ہر قسم کے حقوق دے۔ بنیادی انسانی حق ہے کہ ریاست سے سوال کروں، مجھے خوف زدہ کیوں کیا جا رہا ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).