ڈائری 3 اکتوبر 2020


چھوٹے بچے کسی نئے شخص کے آنے یا پہلے سے شناسا فرد سے دیر بعد ملاقات کے بعد آپے سے باہر ہو جاتے ہیں۔ عافین کو بھی ایسے ہی کرنا تھا۔ اپنی من مانیوں کے سبب اس نے کل شام ساڑھے چار بجے دراز ہوئی اپنی ماں کو لمحہ بھر سونے نہیں دیا۔ بڑا بھائی باہر لے گیا تو بچوں کے کھیل کے مقام پر اس نے دوسرے کسی بچے کی کھلونا گاڑی پر تصرف جما لیا۔ بھائی نے روکا تو فرش پر لیٹ کر ہاتھ پاؤں پٹخ کے رونے لگا چنانچہ بھائی اسے فوراً واپس گھر لے آیا۔

ماں کے کام پر جانے کے بعد پھر کبھی کرسی کی پشت پر پیٹ کے بل کھڑے ہو کر نشست پہ سر رکھنے کی کوشش کرتا تو کبھی اسی قسم کا کوئی ناممکن یا قابل خطر کرتب۔ پہلے روکا پھر ڈانٹا تو اس نے پھر رونا شروع کر دیا۔ پھر رٹ لگا دی کہ ماما کو فون کرو۔ وہ کام پہ فون سننے کے سبب پہلے ہی جرمانے کے طور پر مشاہرہ سے اچھی بھلی رقم ہار چکی تھی مگر فون کرنا ہی پڑا۔ اس کی حرکتیں جاری رہیں اور ماں کو فون کرنے کی ضد بھی۔

بڑی مشکل سے کوئی پونے دس بجے بھائی نے اسے ساتھ لٹایا اور میں روشنی گل کر کے عشا پڑھنے کچن میں چلا گیا۔ ایسے لگتا تھا جیسے کھوپڑی میں سوراخ ہو گئے ہوں۔ سوچا نماز ادا کر لوں تو چائے لوں گا مگر نیند آ رہی تھی۔ اس خدشہ سے کہ کہیں رات کو اٹھنا نہ پڑے صرف آدھی پیالی پانی کے ساتھ فشار خون قابو میں رکھنے کا قرص نگلا اور سونے کو لیٹ گیا۔ عافین ابھی تک کھسر پھسر کر رہا تھا۔

رات کو ٹھنڈ لگتی رہی اور کہیں ایک بجے آٹھ کے فارغ ہونا پڑا اور شادی ٹھنڈ کے ہی سبب کوئی گھنٹہ ڈیڑھ گھنٹہ پھر۔ نیند خراب ہوئی اور ایک بار پھر پونے چھ بجے اٹھنا پڑا۔ وقت سے متعلق یوں معلوم ہوا کہ کوئی پندرہ منٹ بعد راہداری میں کچھ بجنے لگا۔ تمجید کو جگا کے پوچھا کہ کیا ہے یہ۔ وہ اٹھا اور ہوم فون کو آف کیا۔ چھ بجے تھے۔ اس لیے اٹھ کے نماز فجر ادا کر لی۔ نیٹ دیکھتا رہا۔ بچوں کی ماں کہہ گئی تھی کہ میں ساڑھے آٹھ بجے لوٹوں تو آپ تیار رہیں، بچوں کا گھر میں نام لکھوانے ایگوریوسک نام کے شہر جانا ہے۔

میں بہ فرمان دشمن جان تیار ہو گیا۔ مگر اسے آ کے سب کو ناشتہ تو دینا تھا۔ کوئی سوا نو بجے نکلے اور میٹرو کے آخری سٹیشن ”کوتیلنیکی“ سے نکل کر شہر سے باہر جانے والی بسوں کے اڈے پہنچے۔ متعلقہ شہر کی بس میں مسافر سوار ہو رہے تھے۔ ہم دونوں بھی 400 روبل ( مساوی 1000 پاکستانی ) دے کے سوار ہو گئے۔

میں نرگس کو میتھیلی ٹھاکر کا گایا گیت سنوانے لگا تو تھوڑی دیر بعد اگلی نشست پر کھڑکی کی جانب بیٹھی تیس پینتیس سالہ عورت نے چمک کے کہا، ”یہ آپ کی طرف سے آ رہی ہے؟ کوئی شرم ہونی چاہیے“ اس نے میرے سفید بالوں کی حبہ بھر پرواہ کیے بغیر کہا ”لوگ کام سے واپس جا رہے ہیں۔ بند کریں“ ۔ دوسری جانب کی اگلی نشست پر ٹریک سوٹ کا پاجامہ پہنے پچاس سال کا مرد بولا، ”کیا خیال ہے آپ کو ہینڈ فری تحفہ نہ کر دیا جائے“ ۔ میں ہکا بکا مگر نرگس نے کہا کہ ابھی بس چلی نہیں۔ پھر مجھے کہا کہ ملال نہ کریں یہ سب دیہاتی شہر میں گارڈز قسم کی 24 سے 48 گھنٹے کی ڈیوٹیاں کرتے ہیں۔ اچھے پیسے ملتے ہیں۔

دس بجے بس چل پڑی اور پندرہ منٹ بعد مضافاتی شہر لیوبیرتس پہنچی اور اس کے بیچ سے گزرتی شاہراہ پر ٹریفک جام میں سے بمشکل آدھ گھنٹہ بعد نکل پائی۔ ابھی ساڑھے گیارہ ہوئے ہیں۔ سڑک کے دونوں جانب سڑک سے پندرہ فٹ نیچے جنگل ہیں اور بس ٹریفک زیادہ ہونے کے باعث آہستہ آہستہ چل رہی ہے۔ میرے گلے میں خراش ہے۔ سڑک پر کوئی ہلکا سا دھماکہ ہوا تو ساتھ بیٹھی اونگھتی نرگس بیدار ہو گئی۔ پوچھنے لگی کیا ہوا تھا۔ میں بولا معلوم نہیں۔

کہنے لگی کسی کو گولی تو نہیں ماری۔ میں نے کہا نہیں البتہ لگتا ہے مجھے کورونا ہو رہا ہے۔ جلدی جلدی جو کام مجھ سے لینے ہیں لے لو کہیں اناللہ نہ ہو جائے۔ استغفراللہ بولیے، توبہ۔ مگر اب بس رکی ہوئی ہے۔ دائیں جانب جنگل کے ساتھ۔ بائیں جانب سڑک سے کچھ دور سفید گھروں سے ہیں۔ اس جانب ٹریفک چل رہی ہے اور ہماری جانب رکی ہوئی۔

ایک تو ہفتہ ہے، ویک اینڈ کے لیے شہر سے جانے اور شہر کو آنے والوں کا تانتا بندھا ہوتا ہے دوسرے اس سڑک سے بہت سی رابطہ سڑکیں ملتی ہیں یوں گاڑیاں زیادہ ہو جاتی ہیں۔ جب راستہ کچھ کھلا تو لکھا دیکھا ”شہر ایگوریوسک 33 کلومیٹر۔ اس سے پہلے بس شہر گژیل سے گزر رہی تھی۔ گژیل چینی مٹی کے بنے برتنوں اور یادگاریوں کی ایک صنف ہے جس میں سفید رنگ پر گہرے نیلے رنگ کے نقوش ہوتے ہیں۔ اس کی مناسبت سے یہاں موجود کارخانے کے کارندوں کی یہاں رہائش ہوئی۔ سڑک کے دونوں کناروں پر بڑے لان، سیب کے درخت اور پھولوں والے وسیع مکانات ہیں۔ یہاں سے بنے گژیل ملک بھر بلکہ دساور بھی جاتے ہیں۔

ہم مطلوبہ شہر پہنچ گئے۔ ویگن، ہمارے ہاں جیسی نہیں بلکہ لاری نما، نشست بہ نشست سواریوں والی میں بیٹھے اور پندرہ منٹ میں مطلوبہ دفتر جا پہنچے۔ پانچ دس منٹ میں کام ہو گیا کیونکہ ہر دفتر میں مشین سے نکال کے ٹوکن دیا جاتا ہے۔ آپ کا نمبر پکارا جاتا اور سکرین پر نمایاں کیا جاتا ہے۔ ہر شخص کا کام بلا تخصیص اپنی باری پر پکارے گئے نمبر کی سیٹ پہ جا کر ”ون ونڈو آپریشن“ کے تحت کیا جاتا ہے۔

دفتر سے نکلے۔ ایک بڑے چین سٹور سے کچھ کھانے پینے کو لیا۔ اس سے پہلے چبوترے پہ ٹکی 14 برس کی دو بچیوں میں ایک کو اتار کے ہم دونوں نے لینن کے مجسمے کے سامنے اپنی تصویر بنوا ہی لی تھی۔ سامان لے کے ایک بنچ پہ بیٹھ کے کھانے لگے اور ایک سیلفی لی۔ یہ بہت پرسکون شہر ہے، ماسکو سے 200 کلومیٹر دور۔ یہاں ہم نے ایک چھوٹی سی کٹیا خریدی ہوئی ہے جو میں نے خود دو بار آنے کے باوجود نہیں دیکھی لیکن ہم شہر ماسکو میں بچوں کی تعلیم کی وجہ سے یہاں نہیں رہتے بس اس رہائش کو قانونی تقاضے پورے کیے جانے کی خاطر استعمال کرتے ہیں۔

نرگس کے کہنے پر پیدل چلتے ہوئے بس اڈے کے بڑی سڑک کے سنگم پر کے بس سٹاپ پر پہنچے تو موڑ سے بس مڑتی دکھائی دی جو وہی بس تھی جس پہ ہم آئے تھے۔ سوار ہوئے۔ راستے میں ٹریفک زیادہ نہیں ہے۔ البتہ بس میں آکسیجن نام کو نہیں۔ صرف ہم دونوں نے ماسک پہنے ہوئے ہیں۔ آخری نشست سے چل کے نرگس ڈرائیور تک گئی اور اسے کنڈیشنر چلانے کو کہا جو اس نے شاید کم ترین پہ چلا دیا ہے۔ ہم 400 کلومیٹر کا سفر مکمل کریں اور نرگس ایک گھنٹے بعد پھر بارہ گھنٹے رات کی ڈیوٹی پر چلی جائے گی۔ خدا کرے آج عافین پر سکون رہے۔ نرگس کا اصل نام نوزیہ سعیدوونا ہے یعنی نازیہ سعید اور نرگس اس کا عرف ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).