حزب اختلاف کی سیاسی جنگ


کیا واقعی پاکستان میں موجود حزب اختلاف کی جماعتوں نے حکومت کے خلاف حتمی جنگ کا اعلان کر دیا ہے؟ حزب اختلاف کا بننے والا نیا سیاسی اتحاد ”پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ” پی ڈی ایم ایک بڑی سیاسی تحریک کو پیدا کرنے کی صلاحیت بھی رکھتا ہے؟ اور کیا ان کی یہ تحریک واقعی حکومت کو سیاسی محاذ پر ایک بند گلی میں دھکیل سکتی ہے؟ پاکستان کی سیاسی تاریخ کا المیہ یہ رہا ہے کہ یہاں حزب اختلاف کی سیاست کسی بھی شکل میں تعمیری کم اور مسائل کو پیدا کرنے کی زیادہ رہی ہے۔

حکومتوں کو قبول نہ کرنا، وقت سے پہلے گھر بھیجنا، پس پردہ قوتوں کی مدد سے سازشوں کو تیار کرنا یا اس پر عمل کرنا، سیاسی عدم استحکام پیدا کر کے سیاست اور معیشت دونوں کے لیے مشکلات پیدا کرنا، سیاسی جماعتوں کی سطح پر توڑ پھوڑ، منفی بنیادوں پر اتحادوں کا قیام، جلاؤ گھیراؤ اور ٹکراؤ کی سیاست کو غلبہ رہا ہے۔ یہ کام کسی ایک حزب اختلاف کا نہیں بلکہ مجموعی طور پر ہر حزب اختلاف کی سیاست انہی مقاصد کے گرد گھومتی ہے۔

بنیادی طور پر موجودہ حزب اختلاف کا اہم نکتہ عمران خان کی حکومت کی رخصتی اور نئے انتخابات کی راہ ہموار کرنا ہے۔ اگرچہ جمہوری نظام کو چلانے کی بات تو کی جاتی ہے لیکن اس سے مراد، منفی عمران خان ہی ہے۔ حزب اختلاف اس حکومت کی رخصتی کو عوامی طاقت سے گھر بھیجنے کی بجائے اسٹیبلیشمنٹ یا بقول حزب اختلاف سلیکٹرز کی مدد سے حکومتی رخصتی چاہتے ہیں۔ بقول نواز شریف ہماری جنگ عمران خان سے نہیں بلکہ ان لوگوں یعنی اسٹیبلیشمنٹ سے ہے جو ان کو لائے ہیں۔

حزب اختلاف سمجھتی ہے کہ حکومتوں کو گرانا عوامی طاقت سے ممکن نہیں بلکہ اس کے لیے یا تو ہمیں حکومت اور اسٹیبلیشمنٹ کے درمیان ٹکراؤ کو پیدا کرنا ہے یا اسٹیبلیشمنٹ پر دباؤ ڈالنا ہے کہ وہ عمران خان کی حکومت کی سیاسی حمایت سے گریز کرے۔ یہی وجہ ہے کہ سیاسی محاذ پر حکومت فوری طور پر حکومت کے خلاف تحریک عدم اعتماد پیش کرنے سے گریز کرتی ہے اور ان کو لگتا ہے کہ یہ تحریک اسی صورت میں کامیاب ہو گی، جب اسٹیبلیشمنٹ ان کی حمایت کرے گی۔

جہاں تک حزب اختلاف کی جانب سے اسمبلیوں سے مستعفی ہونے کا فیصلہ ہے تو اس پر بھی ان میں کوئی بڑا اتفاق نہیں۔ نواز شریف و مولانا فضل الرحمن یا مریم نواز کی استعفے دینے کی خواہش تو ہو سکتی ہے، لیکن پیپلز پارٹی اور شہباز شریف استعفوں کی سیاست کے حامی نہیں۔ بالخصوص پیپلز پارٹی سندھ حکومت کا حصہ ہے اور وہ کسی بھی صورت میں استعفے دینے کی حمایت نہیں کرے گی۔ کیونکہ پیپلز پارٹی سمجھتی ہے کہ اگر وفاق کی حکومت ختم ہوتی ہے تو اس صورت میں ان کی صوبائی حکومت کو بھی خطرات کا سامنا کرنا پڑے گا۔ جبکہ شہباز شریف کو بھی دیکھیں تو وہ تمام تر مسائل کے باوجود نہ تو مفاہمت کی سیاست سے دست بردار ہوں گے اور نہ ہی استعفوں کی سیاست کی حمایت کریں گے۔

اگر واقعی حزب اختلاف اجتماعی طور پر مستعفی ہونے کا فیصلہ کر لے تو یقینی طور پر ایک بڑا سیاسی بحران پیدا ہو گا اور اتنی بڑی تعداد میں حکومت کا ان نشستوں پر ضمنی انتخابات کروانا ممکن نہیں ہو گا۔ لیکن ایسا ممکن نظر نہیں آتا۔

اگر واقعی حزب اختلاف کا فوری مقصد حکومت کو گرانا ہوتا تو اس کی دو ہی حکمت عملیاں ہو سکتی ہیں۔ اول تحریک عدم اعتماد اور دوئم اسمبلیوں کی نشستوں سے فوری طور پر اجتماعی استعفے۔ اگر یہ ممکن نہیں تو فوری طور پر حکومت کو بھی اس نئے بننے والے اتحاد سے کوئی بڑا خطرہ نہیں۔ ویسے بھی چھبیس نکاتی حزب اختلاف کا ایجنڈا ظاہر کرتا ہے کہ کھیل فوری طور پر حکومت گرانا نہیں بلکہ حکومت پر بڑا دباؤ ڈال کر اسے یا اسٹیبلیشمنٹ کو اپنی شرائط پر لانا ہے۔

پیپلز پارٹی سندھ میں کوئی ایسی بڑی تحریک کا منظر نہیں بننے دے گی جو اسے خود سیاسی اور انتظامی محاذ پر حکمرانی کے تناظر میں مشکلات کا سامنا کرنا پڑے۔ آصف زرداری کی سیاست میں فوری طور پر کوئی ٹکراؤ کی سیاسی حکمت عملی نہیں اور وہ کسی بھی صورت میں خود کو مسلم لیگ نون کے ایجنڈے میں نہیں دھکیلیں گے۔ بالخصوص پیپلز پارٹی نواز شریف کے موجودہ سخت گیر موقف جو انہوں نے اداروں یا اسٹیبلیشمنٹ کے خلاف اختیار کیا ہے، ساتھ نہیں دے گی۔

نواز شریف اور مولانا فضل الرحمن بڑی سیاسی طاقت رکھتے ہیں۔ نواز شریف کا مسئلہ یہ ہے کہ وہ لندن سے بیٹھ کر تحریک چلانا چاہتے ہیں جو ان کی پاکستان میں عدم موجودگی کی وجہ سے کوئی بڑا منظر پیش نہیں کرسکے گی۔ جبکہ مولانا فضل الرحمن کی سیاسی حکمت عملیوں یا جارحانہ طرز کی سیاست سے پیپلز پارٹی اور شہباز شریف خود کو دور رکھیں گے۔ جہاں تک مریم نواز کا تعلق ہے تو دیکھنا ہو گا کہ وہ سوشل میڈیا کی سیاست سے خود کو کتنا باہر نکال کر عملی طور پر سیاسی میدان میں کودتی ہیں اور تحریک میں پیش پیش نظر آتی ہیں۔

ان کو بھی قانونی محاذ پر کئی مشکلات کا سامنا ہے اور سب جانتے ہیں کہ سابق گورنر سندھ سے فوجی سربراہ اور ڈی جی آئی ایس آئی سے ہونے والی ملاقات کا اصل کردار مریم نواز ہی ہیں اور انہوں نے بھی اس ملاقات کی تردید نہیں کی۔ یہ بھی کہا جاسکتا ہے کہ اس وقت ہمیں جو نواز شریف کے لب و لہجہ میں اسٹیبلیشمنٹ مخالف غصہ نظر آتا ہے اس کی بنیادی وجہ ان کی یا ان کے خاندان کی اسٹیبلیشمنٹ سے پس پردہ معاملات کو طے کرنے میں ناکامی ہے اور جو کچھ ہمیں اس وقت نواز شریف یا مریم کی صورت میں دیکھنے کو مل رہا ہے وہ اسی ناکامی کا ردعمل بھی ہے۔

نواز شریف اور مریم نواز کی سیاست کا ایک اہم پہلو یہ بھی دیکھنا ہو گا کہ ان کی مسلم لیگ جو بظاہر اندر سے تقسیم ہے کس طرح سے نواز شریف کے اس سخت گیر اسٹیبلیشمنٹ بیانیہ کی حمایت میں پرجوش نظر آئے گا۔ کیا شہباز شریف اور ان کے بہت سے ساتھی سمیت ارکان اسمبلی کی بڑی تعداد عملی طور پر میدان میں نواز شریف کے بیانیہ کے ساتھ کھڑے ہوں گے؟ کیونکہ مسلم لیگ نون کا مجموعی مزاج اسٹیبلیشمنٹ کے ساتھ ہمیشہ سے مفاہمت کا رہا ہے، مزاحمت محض ان کا سیاسی کارڈ ہوتا ہے عملاً وہ مزاحمت کو دکھا کر مفاہمت سے اپنا حصہ مانگنے کی کوشش کرتے ہیں۔

ایک بات تو واضح ہے کہ محض جلسے جلوس یا ریلیوں سمیت دھرنوں یا لانگ مارچ سے حکومت نہیں گرے گی۔ کیونکہ ایک تو حزب اختلاف کا خود کو متحد کرنا اور دوسرا لاکھوں لوگوں کو سڑکوں پر لانے کے امکانات بہت محدود ہیں۔ لیکن جو موجودہ صورتحال ہے اس میں حکومت نے بھی اپنا لنگوٹ کس لیا ہے اور جہاں حزب اختلاف حکومت مخالفت میں پیش پیش ہو گی تو اسی طرح ہمیں حکومت بھی حزب اختلاف مخالف سرگرمیوں میں پیش پیش ہو گی۔ حکومت کی کوشش ہوگی کہ ایک طرف حزب اختلاف ناکام ہو تو دوسری طرف ان کے اپنے اندر اتحاد کا عمل برقرار نہ رہ سکے۔ کئی حزب اختلاف کے ارکان احتساب کے شکنجے میں آسکتے ہیں اور خود مریم نواز بھی اگر بہت زیادہ فعال ہوں گی تو ان کی گرفتاری بھی متوقع ہے۔

نواز شریف کی سرگرمیوں کو روکنے کے لیے بھی سیاسی اور قانونی محاذ پر بہت کچھ سامنے آ سکتا ہے۔ اس حزب اختلاف کی تحریک سے دو کردار زیادہ سیاسی تنہائی کا شکار ہوسکتے ہیں جن میں نواز شریف اور مریم نواز، جبکہ دوسری جانب مولانا فضل الرحمن کی سیاست ہو گی۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).