کورونا وائرس: ’لاک ڈاون پاگل پن تھا، مگر مالی فائدہ بھی ہوا‘


پاؤلا اے

Paula A
تین بچوں کی امّاں پاؤلا کہتی ہیں کہ لاک ڈاؤن کے دنوں میں ان کے مالی حالات سدھرے ہیں

کوروناوائرس کی وبا نے عالمی معیشت کو زبردست دھچکا پہنچایا ہے، مگر بعض لوگوں کو ذاتی فائدہ پہنچا ہے۔

مارچ میں امریکہ میں لاک ڈاؤن کے بعد نیو ہیمپشر کی رہنے والی تین بچوں کی امّاں پاؤلا نے تقریباً 20 ہزار ڈالر کا وہ قرضہ چکا دیا جو ملازمت کی جگہ کی غیر متوقع تبدیلی کے بعد ان کے کریڈٹ کارڈ پر واجب الادا ہو گیا تھا۔

پینتیس سالہ پاؤلا کی ملازمت جون میں ختم ہوگئی تھی، مگر ان کے شوہر برسر روزگار تھے۔ انھیں ہفتہ وار 600 ڈالر کی اس ادائیگی کا فائدہ ہوا جس کی منظوری کانگریس نے وبائی بحران کے جواب میں بے روزگار افراد کو ادا کرنے کے لیے دی تھی۔

انھوں نے اس رقم سے کریڈٹ کارڈ کا قرض لوٹانا شروع کر دیا۔ اس کے ساتھ بچوں کی سکول فیس کی بچت بھی ہوئی۔ ان کا کہنا ہے کہ کفایت شعار تو وہ پہلے ہی تھیں، بحران کے دنوں میں یہ عادت اور بھی راسخ ہوگئی۔ ان کی سب سے بڑی عیاشی بائی سائیکل کی سواری ہے۔

وہ کہتی ہیں، ’ہمارے لیے قرطینہ بچت کے لیے اچھا ثابت ہوا۔‘

’ہم گھر میں رہے، پاگل پن تھا، خالصتاً پاگل پن مگر میرے خیال میں اس سے ہمیں مالی فائدہ ہوا۔‘

بچت میں اضافہ

امریکی میں فروری سے اپریل کے دوران ذاتی بچت میں 33.6 فی صد کا ریکارڈ اضافہ ہوا جو عام حالات کے مقابلے میں تقریباً چار گنا ہے۔

اگرچہ اس کے بعد سے لاک ڈاؤن میں نرمی ہے مگر لوگوں کی جمع پونجی میں کوروناوائرس کے سلسلے میں دی گئی مالی امداد سے اضافہ ہوا ہے۔ اگست میں ذاتی بچت کی شرح 14.1 فی صد رہی جو ملک میں 1975 کے بعد سب سے زیادہ ہے۔

چارٹ

کورونا وبا سے پہلے اور بعد کے دنوں میں ہونے والی ذاتی بچت ایک نظر میں

بچت میں اضافے سے امریکیوں کی خانگی دولت مئی سے جولائی کے عرصے میں ریکارڈ حد تک بڑھ گئی جبکہ مجموعی قرضے میں 2014 کے بعد پہلی بار کمی آئی۔

ماہر معاشیات سارہ جانسن کہتی ہیں کہ ’اس صورتحال کے بارے میں منفرد بات یہ ہے کہ سرکاری پروگرام ذاتی آمدنی میں اضافے کا سبب بنے جبکہ کاروبار بند ہونے کی وجہ سے خرچ کرنے کے مواقع میں کمی واقع ہوئی، جس کا نتیجہ ذاتی بچت کی شرح میں اضافے کی صورت میں نکلا۔‘

امیر اور غریب کا فرق

مگر یہ صورتحال اس وقت بدلنا شروع ہوجائے گی جب سرکاری امداد بند ہوگی۔

امریکی میں 600 ڈالر فی ہفتے کی سرکاری امداد جولائی میں بند ہو گئی اور واشنگٹن میں سیاستدان مزید امداد کے بارے میں فیصلہ نہیں کر پا رہے۔

اس ماہ واشنگٹن میں ایک سماعت کے دوران امریکی سینٹرل بینک کے سربراہ نے آنے والے خطرات کی جانب اشارہ کیا۔

فیڈرل ریزرو کے چیئرمین جیروم پاول نے کہا کہ ’بچت بہت ہوئی ہے۔ لیکن گیارہ ملین افراد بے روزگار بھی ہوئے ہیں، ان کا گزارہ اب بچت پر ہوگا جس کی وجہ سے خرچ کم ہو جائے گا۔ اس کے منفی اثرات معیشت پر مرتب ہوں گے۔‘

سرکاری امداد کے سبب کنبوں کی ذاتی بچت میں موجود فرق میں کمی واقع ہوئی ہے، مگر تحقیق بتاتی ہے کہ امیر گھرانوں نے، جن کی بے روزگاری اور آمدن میں کمی کا خدشہ کم ہے، زیادہ بچایا ہے۔

سرکاری مالی امداد میں جیسے جیسے کمی آئے گی، امیر اور غریب میں فرق بڑھتا چلا جائے گا کیونکہ بے روزگاروں کو اپنے روز مرہ اخراجات پورے کرنے کے لیے اپنی بچت پر انحصار کرنا پڑے گا۔

ایمرجنسی فنڈ

ایسے میں ماہرین معاشیات خبردار کر رہے ہیں کہ امیر گھرانے اس وقت تک اپنے اخراجات کم رکھیں گے جب تک صحت سے متعلق خدشات کم اور معیشت بہتر نہیں ہو جاتی۔

جان کینیڈی کا کنبہ

John Kennedy
جان کینیڈی اپنی بیوی اور دو بچوں کے ساتھ ٹنیسی میں رہائش پذیر ہیں

ٹنیسی کے رہائشی جان کینیڈی اور ان کی زوجہ دونوں تعلیم کے شعبے سے وابستہ ہیں۔ مارچ سے اب تک انھوں نے ہر ماہ 2 ہزار سے 4 ہزار ڈالر کی بچت کی ہے کیونکہ انھیں بچوں کی دیکھ بھال، دفتر میں لنچ اور کافی اور اسی طرح کے دوسرے اخراجات نہیں کرنا پڑے۔

بچوں کی دیکھ بھال کے اخراجات تو دوبارہ شروع ہو جائیں گے۔ مگر ان کا کہنا ہے کہ معیشت کی غیریقینی حالت کے پیش نظر وہ دوسرے اخراجات انتہائی کم رکھیں گے۔

ان کا کہنا ہے کہ ’ہم نے پہلے کے مقابلے میں بہت بچت کی ہے کیونکہ ہم ایسا کر سکتے ہیں، مگر اب ہمیں محسوس ہوتا ہے کہ ہمیں بچانا ہے۔ ہم دونوں برسرِ روزگار ہیں مگر اگلے چھ سے بارہ ماہ میں کیا ہوتا اس پر انحصار ہوگا کہ ہماری یہ بچت ہمارا ایمرجنسی فنڈ بنتی ہے یا نہیں۔‘

امریکا کی دو تہائی معیشت کا انحصار لوگوں کے اصراف پر ہے اس لیے لوگوں کا حد سے زیادہ بچانا ملک کی معاشی صحت کے لیے اچھا نہیں۔

سارہ جانسن کا کہنا ہے کہ ’عالمگیر وبا نے لوگوں کے خرچ کرنے پر زبردست ضرب لگائی ہے اور معیشت کا یہ ہی شعبہ معاشی بحالی کی سمت اور رفتار کا تعین کرے گا۔‘

موسم گرما میں لوگوں کے اخراجات بڑھنے لگے تھے جس سے امید ہو چلی تھی کہ بحالی جلد ہو سکے گی۔ مگر اس کے بعد اس کی رفتار میں کمی آئی ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32291 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp