ریاستیں کیوں ناکام ہوتی ہیں؟


ہارورڈ یونیورسٹی کے ماہر سیاست پروفیسر جیمز اے رابنسن اور ایم آئی آٹی کے ماہرمعیشت ڈیرن ایس موگلو کی لکھی ہوئی کتاب ”Why Nations Fail: Origin of power, prosperity and poverty“ میری پسندیدہ ترین کتابوں میں سے ایک ہے۔ پانچ سو اکہتر صفحات پر پھیلی یہ کتاب اس سوال پر بحث کرتی ہے کہ ریاستیں کیوں کامیاب یا ناکام ہوتی ہیں۔

کتاب میں سوال کیا گیا ہے کہ ایک اوسط امریکی، پیرو کے شہری سے دس گنا، سب صحارا افریقہ کے شہری سے بیس گنا، اور مالی یا سیریلیون کے شہری سے چالیس گنا زیادہ مالدار اور خوشحال کیوں ہے؟ یا ناروے، جس کی فی کس آمدنی چوراسی ہزار ڈالر سالانہ ہے، برونڈی سے چارسو چھیانوے گنا زیادہ امیر کیوں ہے جس کی فی کس آمدنی محض ایک سو ستر ڈالر فی کس سالانہ ہے؟

اس کے بعد رومی سلطنت، مایا شہری ریاستوں، یونانی شہری ریاستوں، قرون وسطی کے وینس، لاطینی امریکہ، انگلستان، یورپ، ایشیا، افریقہ، سوویت یونین، چین، جنوبی و شمالی امریکہ، مختلف استعماری طاقتوں اور دیگر تاریخی مثالوں سے یہ بات ثابت کی گئی ہے کہ انکلوزیو یعنی تکثیری ادارے خوشحالی، طاقت اور کامیابی، جبکہ ایکسسٹریکٹیو یعنی نچوڑنے والے استحصالی ادارے غربت، کمزوری اور ناکامی کا ذریعہ ہوتے ہیں۔

ماہرین سیاست و معیشت دنیا میں غربت، خوشحالی اور طاقت کے اسباب پر کئی نظریات اور مفروضے پیش کرتے رہے ہیں۔ مختلف ماہرین کے مطابق کسی ملک کا جغرافیائی محل وقوع، ثقافت اور نسلی ہیئت، موسمی حالت، جہالت، حکمرانوں کو غلط مشورے یا اخلاقی حالت وغیرہ اس کی غربت یا خوشحالی کا باعث ہوتے ہیں۔

ریاستوں کے درمیان معاشی عدم مساوات کا ایک مشہور مفروضہ جغرافیے کا مفروضہ ہے۔ اس کے مطابق جغرافیائی تفاوت قوموں کی غربت اورخوشحالی کا بنیادی سبب ہے۔ اس نظریہ کے وکیل کہتے ہیں کہ دنیا کے نقشے پر خط سرطان اور خط جدی کے درمیان واقع منطقہ حارہ کے ممالک جیسے افریقہ، وسطی امریکہ اور جنوبی ایشیا کے ممالک غریب، جبکہ خط سرطان اور قطب شمالی کا مابین واقع معتدل آب و ہوا والے ممالک امیر، طاقتور اور خوشحال ہوتے ہیں۔ اٹھارہویں صدی کے آخر میں مشہور فرانسیسی مفکر مونٹیسکیوؤ نے کہا کہ منطقہ حارہ کے لوگ کاہل ہوتے ہیں، وہ محنت و مشقت کے عادی نہیں ہوتے، ان میں تخلیقی صلاحیت نہیں ہوتی اس لیے وہ غریب ہوتے ہیں اور عموماً ان پر آمر حکومت کرتے ہیں۔

لیکن غربت یا امیری کو کسی خاص جغرافیہ، آب و ہوا، ثقافت یا نسل سے نتھی کیا جائے تو پھر امریکی اور میکسیکو کے سرحد پر واقع امریکی نوگیلز ایری زونا خوشحال اور میکسیکو کا نوگیلز سنورا غریب کیوں ہے حالانکہ دونوں ایک جگہ واقع ہیں، ان میں ایک ہی نسل کے لوگ ایک ہی آب وہوا میں رہتے ہیں اور دونوں کو صرف ایک باڑ ہی ایک دوسرے سے جدا کرتی ہے؟ یا پھر جنوبی کوریا ترقی یافتہ اور خوشحال جبکہ شمالی کوریا پسماندہ اور غریب کیوں ہے حالانکہ دونوں کا جغرافیہ، موسم اورنسلی ہیئت ایک جیسی ہے؟ اگر جغرافیہ کا نظریہ دونوں نوگیلز، دونوں کوریا اور دیوار برلن کے انہدام سے قبل کی مشرقی اور مغربی جرمنی کے درمیان معاشی تفاوت کی وضاحت دینے سے قاصر ہے تو یہ شمالی اور جنوبی امریکہ یا یورپ اور افریقہ کے براعظموں کے معاشی فرق کو سمجھنے کے لیے کیسے استعمال کیا جاسکتا ہے؟

تاریخ ظاہر کرتی ہے کہ آب و ہوا یا جغرافیہ اور معاشی کامیابی کے درمیان کوئی خاص تعلق نہیں۔ مثلاً یہ درست نہیں کہ گرم علاقے زیادہ غریب رہے ہیں۔ کولمبس نے جب امریکی علاقوں کو فتح کیا تو منطقہ حارہ سرطان کے جنوب اور منطقہ جدی کے شمالی علاقوں، جن میں آج کل کا میکسیکو، وسطی امریکہ، پیرو اوربولیویا شامل ہیں، عظیم ازٹک اور ان کا تہذیبوں کا دور دورہ تھا، جو علم، دولت، طاقت وغیرہ سے مالامال تھے۔ اس کے برعکس ازٹک اور ان کا تہذیبوں کے شمالی اور جنوبی علاقے، جن میں آج کل کے امریکہ، کینیڈا، ارجنٹینا اور چلی شامل تھے، پتھر کے دور کے تہذیب میں زندگی گزار رہے تھے۔ یعنی براعظم امریکہ کے گرم علاقے معتدل علاقوں سے زیادہ مالدار اور خوشحال تھے۔

اسی طرح جنوبی ایشیا، خصوصاً برصغیر، اور چین کے لوگ ایشیا کے دوسرے علاقوں اور آسٹریلیا اور نیوزی لینڈ کے لوگوں سے یقیناً زیادہ مالدار تھے، لیکن پھر یورپی استعمار کے ان علاقوں میں آنے اور ہر جگہ مختلف طرز عمل کے بعد حالات نے پلٹا کھایا۔ جنوبی کوریا، سنگاپور اور جاپان ایشیا کے مالدار ترین ملک بن گئے اور آسٹریلیا اور نیوزی لینڈ پورے ایشیا کو پیچھے چھوڑ گئے۔ مثلاً افریقہ کے ساتھ شدید یورپی تعامل سے پہلے، سب صحارا افریقہ غریب تھا، مگر آج کل جنوبی افریقہ ان میں خوشحال ترین ملکوں میں سے ہے۔ تاریخ میں پیچھے جائیں تو گرم علاقوں میں زیادہ خوشحالی تھی۔ مثلاً ان میں جدید کولمبیا کا انگکور تہذیب، جنوبی ہندوستان میں وجے یا ناگرا، ایتھوپیا میں اکسوم یا پاکستان میں موہنجودڑو اور ہڑپہ کی تہذیبیں شامل ہیں۔

اگرچہ حالیہ عرصے میں گرم مرطوب خطے سے تعلق رکھنے والے چند ممالک جیسے سنگاپور، ملائشیا اور بوٹسوانا کی تیز رفتار ترقی نے اس نظریے کا ابطال کیا ہے لیکن اس کے باوجود اس کے وکلا، مثلاً جیوفری ساش اب بھی اس کی وکالت کر رہے ہیں۔ تاہم اس نظریے کی جدید شکل انسانوں کی سوچ اور کوشش پر آب و ہوا کے اثر کے بجائے اس بات پر مبنی ہے کہ اس خطے میں ملیریا جیسی بیماریاں یہاں کے لوگوں کی صحت اور پیداواری صلاحیت پر انتہائی برا اثر ڈالتی ہیں اور یہ کہ یہاں کی زمینیں پیداواری زراعت کے لیے موزوں نہیں ہیں، کیوں کہ یہاں زمینوں کی سطح پتلی ہے، ان میں نمکیات جذب کم ہوتے ہیں اور آبی کٹاؤ کا آسانی سے شکار ہو جاتے ہیں۔ لیکن یہ بات بھی درست نہیں۔

اس میں شک نہیں کہ افریقہ میں ٹرافیکل بیماریوں سے بڑا نقصان ہوا، مگر یہ افریقہ کی غربت کا سبب نہیں۔ بیماری زیادہ تر غربت اورحکومتوں کی نا اہلی یا عدم تیاری اور حفظان صحت کے لیے مناسب اقدامات نہ لینے کا نتیجہ ہوتی ہے۔ مثلاً انگلستان انیسوی صدی تک بڑا غیر صحت مند ملک تھا، لیکن پھر حکومت نے صاف پانی، نکاسی آب اور گندگی سے نمٹنے کے لیے سرمایہ کاری کی، جس کی وجہ سے وہاں ایک معیاری نظام صحت سامنے آیا۔ ان علاقوں میں فی ایکڑ کم پیداوار کی وجہ، زمین کی حالت نہیں بلکہ ان علاقوں میں زمین کی ملکیت کا نظام اور حکومتوں اور اداروں کی جانب سے کسانوں کو مراعات و ترغیبات کی عدم موجودگی ہیں۔ حقیقت یہ ہے دنیا میں انیسویں صدی میں جو معاشی عدم مساوات شروع ہوئی، اس کی وجہ زرعی پیداوار نہیں بلکہ دنیا کے مختلف ممالک میں صنعتی ٹیکنالوجی اور پیداوار کا غیر مساوی پھیلاؤ ہے۔

قوموں کے عروج و زوال کی بحث میں دوسرا مقبول مفروضہ ثقافت کا ہے۔ جرمن ماہر سماجیات میکس ویبر کہتا ہے کہ پروٹسٹنٹ اصلاح اور اس کے نتیجے میں پیدا ہونے والے پروٹسٹنٹ اخلاقیات نے مغربی یورپ میں جدید صنعتی معاشرہ قائم کرنے میں اہم کردار ادا کیا۔ لیکن ثقافت کا مفروضہ صرف مذہب نہیں بلکہ عقائد، اقدار اور اخلاقیات کے کردار پر بھی زور دیتا ہے۔

کہاجاتا ہے کہ افریقی غریب ہیں کیوں کہ وہ اچھے ”اخلاقیات کار“ سے محروم ہیں، ابھی تک جادو ٹونے پر یقین رکھتے ہیں یا مغربی ٹیکنالوجی کی مزاحمت کرتے ہیں۔ یا یہ کہ لاطینی امریکی کبھی مالدار نہیں ہوسکتے کیوں کہ وہ جبلی طور پر بچت اور محنت کے عادی نہیں۔ یہ بات درست نہیں۔ لوگوں کا باہمی اعتبار اور باہمی تعاون اگرچہ اہم اقدار ہیں، لیکن یہ اس ملک کے اداروں اور نظام کا نتیجہ ہوتے ہیں نہ کہ بذات خود غربت یا خوشحالی کی وجہ۔

مثلاً امریکی ایک دوسرے پر زیادہ مگر میکسیکن کم اعتبار کرتے ہیں کیوں کہ دونوں مختلف اداروں کے اندر رہتے ہیں۔ امریکہ، میکسیکو سرحد پر محض ایک سرحدی باڑ کے امریکہ کی طرف واقع نوگیلز ایری زونا مالدار اور میکسکووالا نوگیلز سنورا غریب ہے۔ کیوں کہ ایک امریکہ کے اداروں اور نظام کے نیچے، جبکہ دوسرا میکسیکو کے خراب نظام کے نیچے ہے۔ اسی طرح اگرچہ جزیرہ نما کوریا جنگ اور متوازی 38 میں تقسیم سے پہلے، تاریخی طور پریکساں مذہب، ثقافت اور نسل کا علاقہ تھا اور آج شمالی اور جنوبی کوریا کی ثقافت مختلف ہے لیکن ثقافت کا یہ فرق ایک کی خوشحالی اور دوسرے کی غربت کی وجہ نہیں، بلکہ نتیجہ ہے اس نظام کا جس کے تحت ہر ایک کام کر رہا ہے۔

افریقی ثقافت کی جہاں تک بات ہے سب صحارا افریقہ دنیا کے دوسرے حصوں سے غریب تر تھا اور حبشہ اور صومالیہ کے بغیر اس کی قدیم تہذیبوں نے پہیہ، لکھائی اور ہل جیسی ٹیکنالوجی کو پنپنے نہیں دیا۔ اگرچہ انیسویں صدی کے آخری اور بیسوی صدی کے ابتدائی حصے میں رسمی یورپی استعماریت تک ان علاقوں میں یہ ٹیکنالوجی عام استعمال میں نہیں تھیں، لیکن افریقی معاشرہ بہت پہلے سے ان سے آگاہ تھا۔ مثلاً کانگو کی بادشاہت، جو آج کل کے عوامی جمہوریہ کانگو کے علاقے میں قائم تھا، کے عوام 1500 عیسوی صدی میں پرتگالیوں کے آنے کے بعد پہیے اور ہل سے آگاہ ہوئے تھے اور پرتگالیوں نے اس ٹیکنالوجی کے پھیلانے کی کوشش بھی کی لیکن ایسا نہ ہوسکا۔

ان نئی ٹیکنالوجیوں کو قبول کرنے میں افریقی ثقافت اور اقدار رکاوٹ نہ تھیں۔ کانگو کے باشندوں نے مثلاً لباس اور مکانات کے مغربی ڈیزائن کو اپنایا اور بندوق جیسی نئی مغربی ایجاد کو تیزی سے اپنایا، کیونکہ اس کے ذریعے وہ غلاموں پر قبضہ کر سکتے اور انہیں برآمدکر سکتے تھے۔ کانگو والوں نے دیگر نئی ٹیکنالوجیوں کو قبول نہیں کیا کیوں کہ عوام کی سرمایہ کاری اور جانیں دونوں طاقتور بادشاہ اور گروہوں سے محفوظ نہ تھیں، جبکہ بادشاہ بھی ہل کا استعمال اور یوں زرعی پیداوار بڑھانے کے لیے پرجوش نہ تھا، کیوں کہ غلاموں کی برآمد اس سے زیادہ نفع بخش تھی۔

اب میکس ویبر کی پروٹیسٹنٹ اخلاقیات کی بات کرتے ہیں۔ اگرچہ ہالینڈ اور انگلینڈ جیسے پروٹیسٹنٹ ممالک جدید دنیا کے پہلے خوشحال ممالک بنے لیکن انیسویں صدی میں کیتھولک فرانس نے بھی مالی خوشحالی حاصل کی اور آج کا کیتھولک اٹلی بھی ان سے کم خوشحال نہیں۔ مشرقی ایشیا کی معاشی کامیابی بھی عیسائیت کی مرہون منت نہیں۔

اگر کوئی کہے کہ انگلستان کی مقبوضہ کالونیاں مثلاً امریکہ، کینیڈا اور آسٹریلیا خوشحال ہیں کیوں کہ وہ انگلستانی ثقافت کے زیر اثر تھیں تو پھر انگلستان کی دیگر کالونیاں مثلاً سیرالیون اور نائجیریا کیوں غریب ہیں۔ اسی طرح اگر کوئی کہے کہ یورپی نسل اور ثقافت والے ممالک مثلاً مغربی یورپ اور شمالی امریکہ خوشحال ہوتے ہیں تو پھر اسی یورپی نسل سے بھرے ہوئے ارجنٹینیا اور یوراگوئے کیوں پسماندہ ہیں۔

ملکوں کی خوشحالی یا غربت پر عدم واقفیت کا مفروضہ بھی مقبول ہے، جو کہتا ہے ہم یا ہمارے حکمران مالدار بننے کا نسخہ نہیں جانتے اور یہ کہ جن ممالک میں ”مارکیٹ معیشت“ ہو یعنی جہاں افراد اور کمپنیاں آزادی سے اپنی پسند کی مصنوعات اور خدمات پیدا، خرید اور فروخت کر سکتی ہوں، وہ خوشحال ہوتے ہیں اور جہاں یہ حالات نہ ہوں، ”مارکیٹ ناکامیاں“ زیادہ ہوں اور ان کے حکمران حل نہیں جانتے یا غلط مشوروں پر چلتے ہیں، وہ غریب رہ جاتے ہیں۔

گھانا برطانیہ سے آزاد ہوا تو اس کے حکمران کوامی نیکروماہ نے ملکی صنعتوں کو ترقی دینے پر توجہ دی لیکن کوامی کے مشیر برطانوی ماہر معاشیات ٹونی کیلک کے مطابق، جوتوں اور آموں کے جوس کی صنعتیں ایسی جگہوں پر قائم کی گئیں، جہاں خام مال بھی نہ تھا اور نقل و حمل پر خرچہ بھی زیادہ تھا۔ اسے نوبل انعام یافتہ سر آرتھر لیوس اور کیلک جیسے ماہرین کے مشورے بھی دستیاب تھے اور وہ خود بھی جانتا تھا کہ یہ پالیسیاں ٹھیک نہیں لیکن اس نے اپنی سیاسی حمایت بڑھانے اور وہ اپنی غیرجمہوری حکومت برقرار رکھنے کے لیے ایسا کیا۔

یا گھانا ہی میں وزیراعظم کوفی بصرا نے انیس سو ستر میں غلط معاشی پالیسیاں نافذ کیں۔ ایسا اس نے ناسمجھی میں نہیں بلکہ اپنے سیاسی مفاد اور طاقتور گروہوں کو خوش کرنے کے لیے کیا۔ پھر مالی بحران پیش آیا اور اسے آئی ایم ایف اور عالمی بینک کے پاس جانا پڑا، جن کے ”اچھے“ مشوروں اور اصلاحات کی وجہ سے عوام پر ٹیکسوں کا مزید بوجھ پڑا، تو بصرا کے خلاف ہنگامے پھوٹ پڑے اور فوج نے اس کی حکومت برطرف کر دی۔

گھانا جیسے ممالک غریب ہیں، کیونکہ وہاں جن کے پاس طاقت ہے، وہ ناسمجھی اور غلط مشوروں کی بنیاد پر نہیں، بلکہ جانتے بوجھتے اور دیدہ و دانستہ اپنے ذاتی، سیاسی اور گروہی مفاد میں ایسے فیصلے کرتے اور پالیسیاں بناتے ہیں جو عوام کی غربت اور حکمران طبقے کی خوشحالی کا باعث بنتے ہیں۔ امریکہ خوشحال ہے کیوں کہ اس کے حکمران اور گروہ مضبوط سیاسی اور معاشی اداروں کو جواب دہ ہیں۔

ریاستیں خوشحال ہوتی ہیں جب ان کے سیاسی اور معاشی ادارے انکلوزیو یعنی شمولیتی اور تکثیری ہوں اور ان میں کافی حد تک سیاسی مرکزیت بھی ہو تاکہ وہ اپنے فیصلے نافذ کرسکیں۔ اس کے برعکس جن قوموں (مثلاً زمبابوے، سرالیون) کے ادارے ایکسٹریکٹیو یعنی استحصالی اور وسائل نچوڑنے والے ہوں اور وہاں سیاسی مرکزیت نہ ہو تو وہ ناکام رہ جاتی ہیں۔

تکثیری سیاسی ادارے سیاسی عمل میں وسیع شرکت، اختیارات کی تقسیم، قانون کی حکمرانی، امن و استحکام، باقاعدہ شفاف انتخابات، آزاد میڈیا، آزاد عدلیہ اور سب کو یکساں مواقع کی فراہمی کو یقینی بناتے اور حکمرانوں کی جانب سے اختیارات کے من مانے استعمال کو ناممکن بناتے ہیں۔ تکثیری معاشی ادارے نجی ملکیت، غیر متعصب نظام قانون، معاہدے کرنے کی آزادی، پسند اور اہلیت کے مطابق پیشے کے انتخاب، جدید پیشہ ورانہ تعلیم اور ٹیکنالوجی تک یکساں رسائی، بچت، تجدید اور سرمایہ کاری کی ترغیب، معاشی عمل میں نئی کمپنیوں اور افراد کی شمولیت اور عوامی خدمات کی یکساں فراہمی کی ضمانت دیتے ہیں۔

یہ عوام کی تعلیم اور استعداد کار بڑھانے پر سرمایہ کاری کرتے اور ”تخلیقی تباہی“ اور صحت مند مقابلے کی حوصلہ افزائی کرتے ہیں۔ حکمران اپنے اختیارات کو ذاتی یا گروہی مفاد کے لیے استعمال نہیں کرسکتے۔ چنانچہ ایڈیسن پیرو یا میکسیکو میں نہیں امریکہ میں نظر آتا ہے اور یہی بل گیٹس، سٹیو جوبز، جیف بزوس وغیرہ پیدا اور سیکڑوں ماہرین اور سائنسدانوں کو دنیا سے اپنی طرف کھینچ لیتا ہے۔ اس کے بر عکس استحصالی معاشی وسیاسی اداروں میں کئی ایسے ہیرے چھپے رہ جاتے اور اپنی پسند اور قابلیت کے بجائے دوسرے کام کرنے پر مجبور ہوتے ہیں۔

سیاسی اور معاشی ادارے ایک دوسرے کی مدد کرتے ہیں۔ اگر معاشی ادارے تکثیری ہوں تو وہ ”ورچووس سرکل“ یعنی صالح دائرے کی وجہ سے سیاسی تکثیری اداروں کو مضبوط بناتے ہیں۔ تکثیری سیاسی ادارے اختیارات پر پابندیاں لگا کر ان کے غلط استعمال کو مشکل بناتے اور یوں سیاسی عہدوں کو غیر نفع بخش بنا دیتے ہیں۔ پھر ان کے اندر مقابلے اور یکساں مواقع کی برکت سے وسائل بہت سے لوگوں کے ہاتھ میں چلے جاتے ہیں۔ دوسری طرف استحصالی طبقہ اپنے خلاف جدوجہد کرنے والوں پر تشدد بھی نہیں کر سکتا کیونکہ ادارے اور قانون اس کا راستہ روکتے ہیں اور انہیں پتا ہوتا ہے کہ اگر قانونی تبدیلی و اصلاح کی راہ میں روڑے اٹکانے کی کوشش کی، تو کامیابی تو ملنے سے رہی مگر پرتشدد انقلاب میں ہر چیز ہاتھ سے چلی جائے گی۔ چنانچہ معاشی ادارے اور اس کے نتیجے میں سیاسی ادارے تکثیری بنتے جاتے ہیں۔

استحصالی معاشی اور سیاسی ادارے بھی اسی طرح ویشیئس سرکل یا شیطانی دائرے کے تحت ایک دوسرے کو مضبوط بناتے ہیں۔ سیاسی استحصالی اداروں میں اختیارات چند افراد کے ہاتھوں میں ہوتے ہیں، جن پر کوئی پابندیاں نہیں ہوتیں۔ وہ معاشرے سے وسائل نچوڑ کر اپنی تجوریاں بھرتے ہیں اور اپنی طاقت اور خوشحالی اور قوم کی غربت بڑھاتے ہیں۔ اکثر تبدیلی کے نام پر نئے گروہ آتے ہیں، مگر وہ بھی جلد روایتی استحصال شروع کر دیتے ہیں۔ ان میں اختیارات کے چونکہ بڑے فائدے ہوتے ہیں، اس لیے طاقت کے مراکز پر قبضے کے لیے سخت مقابلے ہوتے ہیں، جن کا نتیجہ اکثر خانہ جنگی ہوتی ہے اور ریاستوں کا وجود خطرے میں پڑ جاتا ہے۔

اصل دیرپا ترقی اور خوشحالی تکثیری سیاسی اور معاشی اداروں میں ہوتی ہے، مگر جن ممالک میں امن و استحکام ہو، کافی حد تک سیاسی مرکزیت ہو یعنی حکو مت کی رٹ قائم ہو، چاہے وہاں سیاسی و معاشی ادارے کم تکثیری ہوں یا بالکل ہی استحصالی ہوں، وہاں بھی ترقی ہو جاتی ہے جیسے سابق سوویت یونین اور موجودہ چین۔ تاہم یہ ترقی پائیدار نہیں ہوتی۔ مثلاً سوویت یونین انیس سو ستر تک ترقی کرتا رہا لیکن پھر معاشی نمو رک گئی۔ چین نے سیاسی مرکزیت اور استحکام کی وجہ سے ترقی کی ہے، مگر چونکہ وہاں ادارے غیر تکشیری ہیں، اس لیے یہ معاشی نمو بھی عارضی ہے، مگر یہ کہ چین بھی جلد یا بدیر تکثیری ادارے اختیار کرے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).