کرونا بحران میں قہقہے صحت کے نسخے سے کم نہیں : ماہرین



عام حالات میں پریشانیوں سے نمٹنے کے دوران ہنسی مزاح کا اپنانا ایک مثبت رویہ تصور کیا جاتا ہے لیکن کرونا کے طول پکڑتے ہوئے بحران میں قہقہے کسی طبی نسخے سے کم نہیں۔

اگرچہ کرونا کے خلاف کوئی مؤثر دوا تو دریافت نہیں ہوئی لیکن ڈاکٹروں، ماہرینِ صحت اور میڈیکل اسٹاف کی اکثریت اس بات پر یقین رکھتی ہے کہ ذہنی دباؤ اور تناؤ کی کیفیت سے نکلنے میں قہقہے لگانا بہت اہم ہے۔

یونیورسٹی آف میری لینڈ سے منسلک ماہرِ امراض قلب ڈاکٹر مائیکل ملر کہتے ہیں کہ موجودہ پریشان کن حالات میں ہنسی مزاح نہ صرف تلخ حقیقت سے انحراف کا ذریعہ ہیں بلکہ یہ صحت کی بہتری کا ایک منصوبہ بھی ہیں۔

انہوں نے ‘نیویارک ٹائمز’ اخبار کو بتایا کہ بڑھتی ہوئی ذہنی کشیدگی دل کے دورے جیسی صورتِ حال پیدا کرتی ہے جب کہ حس مزاح کا ہونا تناؤ اور ذہنی دباؤ کی کیفیت کو کم کرنے کا بہتریں ذریعہ ہے۔

ان کے بقول ہنسی مزاح تناؤ کی کیفیت کو کم کرنے کے لیے بہت ضروری ہے۔

طبی سطح پر بیان کیا جائے تو وہ کہتے ہیں کہ قہقہے انسانی جسم میں نائیٹرک آکسائیڈ پیدا کرتے ہیں اور یہ ایک ایسا کیمیائی مادہ ہے جو بلڈ پریشر کو کم کرتا ہے اور خون کو جمنے سے روکتا ہے۔

ماہرینِ صحت کے مطابق قہقہے انسانی جسم میں نائیٹرک آکسائیڈ پیدا کرتے ہیں اور یہ ایک ایسا کیمیائی مادہ ہے جو بلڈ پریشر کو کم کرتا ہے اور خون کو جمنے سے روکتا ہے۔

جاپان میں عمر رسیدہ لوگوں پر کی گئی ایک تحقیق نے ثابت کیا ہے کہ جو لوگ کھل کر ہنستے ہیں ان میں دل کے امراض کے لاحق ہونے کا خطرہ بہت کم ہو جاتا ہے۔

ناروے میں کی جانے والی ایک تحقیق کے مطابق ایسے لوگ جو زیادہ ہنستے ہیں وہ طویل عمر پاتے ہیں اور ایسا مردوں کے مقابلے میں عورتوں میں زیادہ دیکھنے میں آیا ہے۔

تحقیق کو سامنے رکھتے ہوئے ڈاکٹر ملر کہتے ہیں کہ لوگوں کو ایک دن میں کم از کم ایک بار جی بھر کے ہنسنا چاہیے۔

‘نیویارک ٹائمز’ کے مطابق اگرچہ ہنسی مزاح کے انسانی صحت پر دیرپا اثرات کے متعلق حتمی طور پر کچھ نہیں کہا جا سکتا لیکن یونیورسٹی کالج لندن کی ماہر دماغی امراض سوفی اسکاٹ کہتی ہیں کہ ہنسی اور قہقہے انسانی جسم میں ذہنی کشیدگی پیدا کرنے والے ہارمون کورٹیسول اور ایڈرینالین کو کم کر دیتے ہیں۔

اُن کے بقول جسم میں ایسے مادے جو انسان کو خوش اور بہتر محسوس کرنے میں مدد کرتے ہیں، ہنسی مزاح کی عادت اُنہیں بڑھانے میں معاون ثابت ہوتی ہے۔

وائس آف امریکہ

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

وائس آف امریکہ

”ہم سب“ اور ”وائس آف امریکہ“ کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے مطابق ”وائس آف امریکہ“ کی خبریں اور مضامین ”ہم سب“ پر شائع کیے جاتے ہیں۔

voa has 3331 posts and counting.See all posts by voa