ناگورنو قرہباخ تنازع: آرمینیا اور آذربائیجان کی لڑائی پوتن کے لیے ایک چیلنج یا موقع؟


ایک وقت تھا جب نہ تو روس کوئی ملک تھا، نہ آرمینیا اور نہ ہی آذربائیجان۔ یہ تینوں ہی سوویت یونین یعنی یو ایس ایس آر کا حصہ تھے۔

سوویت یونین سنہ 1991 میں ٹوٹ گیا اور تمام 15 ریپبلک ممالک بن گئے۔ روس سوویت یونین کا جانشین بنا۔ یعنی جو درجہ پہلے سوویت یونین کو حاصل تھا وہ اب روس کو حاصل ہو گيا۔

آج کل آرمینیا اور آذربائیجان آپس میں لڑ رہے ہیں تو ایسے میں روس کا کردار دلچسپ ہو گیا ہے کیونکہ اس کا ان دونوں کے ساتھ پرانا رشتہ رہا ہے جو اب بھی قائم ہے۔

آرمینیا کے ساتھ روس کا فوجی اتحاد ہے اور اس کا وہاں ایک فوجی اڈہ بھی ہے۔ لیکن روس کی اپنی سرحد سے متصل آذربائیجان کی حکومت سے بھی اچھی دوستی ہے۔

اس میں سب سے دلچسپ بات یہ ہے کہ آرمینیا اور آذربائیجان جن ہتھیاروں اور فوجی سازوسامان سے لڑ رہے ہیں وہ انھوں نے روس سے خریدے ہیں، یعنی روس دونوں کو اسلحہ فراہم کرتا آیا ہے۔

یہ بھی پڑھیے

تیل کے ذخائر پر کنٹرول آذربائیجان، آرمینیا تنازع کی اصل وجہ

آذربائیجان اور آرمینیا کہاں واقع ہیں اور اُن کے مابین تنازع کتنا پرانا ہے؟

ناگورنو قرہباخ تنازع: آذربائیجان کے دوسرے بڑے شہر پر آرمینیا کی بمباری

آذربائیجان، آرمینیا تنازع: ’پاکستان کشمیر پر حمایت کے بدلے ترکی کا احسان چکا رہا ہے؟‘

یہاں تک روس کے لیے کوئی مسئلہ نہیں ہے۔ دونوں ممالک جتنا زیادہ لڑیں گے روس کا اتنا ہی زیادہ فائدہ ہوگا۔ لیکن روسی صدر ولادیمیر پوتن نے دونوں ممالک سے دشمنی ختم کرنے اور فوری جنگ بندی کے لیے ایک بیان جاری کیا ہے جو کہ معمول کا ایک سفارتی عمل ہے۔

بہرحال پوتن کی پیشانی پر اس وقت بل پڑتے ہیں جب اس معاملے میں ترکی جیسے دوسرے ممالک شامل ہو جائیں۔ ترکی کھل کر آذربائیجان کی حمایت کر رہا ہے۔ وہ اس کا پرانا دوست اور فوجی معاون بھی ہے۔

پوتن

آرمینیا، آذربائیجان بحران میں روس کی پوزیشن

یہ بھی اطلاعات ہیں کہ شام سے کرائے کے فوجی ترکی کے راستے آذربائیجان بھیجے جارہے ہیں۔ بہر حال ترکی اور آذربائیجان دونوں اس کی تردید کرتے ہیں۔

لیکن شام کی خانہ جنگی پر نظر رکھنے والی برطانیہ میں قائم تنظیم سیریئن آبزرویٹری فار ہیومن رائٹس نے بتایا ہے کہ شام سے ترکی کی سکیورٹی کمپنیوں نے کرائے کے 900 فوجی بھی آذربائیجان پہنچائے ہیں۔

ترکی کے علاوہ دیگر ممالک بھی آرمینیا اور آذربائیجان کے مابین جاری تنازع پر نظر رکھ رہے ہیں۔ ایران، جارجیا اور قطر نے ثالثی کی پیش کش کی ہے جبکہ اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل نے اپنے اجلاس میں یہ مؤقف اختیار کیا ہے کہ فرانس، روس اور امریکہ کی سربراہی میں بننے والے گروپ کو اس میں سب سے بڑا کردار ادا کرنا چاہیے۔

یورپ میں سلامتی اور تعاون کے لیے کام کرنے کے لیے سنہ 1992 میں او ایس سی ای نامی ایک تنظیم کا قیام عمل میں آیا جس کا مقصد آرمینیا اور آذربائیجان کے مابین ثالثی کروانا تھا۔

دوسری طرف آرمینیا یہ کہتے ہوئے اسرائیل سے ناراض ہے کہ وہ آذربائیجان کو اسلحہ بیچ رہا ہے۔ اس نے اسرائیل سے اپنے سفیر کو بھی واپس بلا لیا ہے۔

ایسی صورتحال میں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ روسی صدر پوتن اپنے پڑوس میں جاری اس ہلچل کے بارے میں کتنے پریشان، محتاط یا متحرک ہیں؟

پوتن

اندورنی سیاست پر پوتن کی گرفت

ماہرین کا کہنا ہے کہ آرمینیا اور آذربائیجان یا اس طرح کے دیگر بین الاقوامی تنازعات اور سفارتی امور پر روسی صدر پوتن کو تشویش بھی ہو گی اور وہ سرگرم بھی ہوں گے۔

خیال رہے کہ روس کے اندر پوتن کے لیے کوئی سیاسی چیلنج نہیں ہے۔ 67 سالہ روسی صدر نے گذشتہ 20 سالوں سے روس کا اقتدار بطور وزیر اعظم یا صدر کے طور پر اپنے پاس ہی رکھا ہے۔

ان کے موجودہ عہدے کی میعاد سنہ 2024 میں ختم ہو رہی ہے۔ لیکن انھوں نے رواں سال جون جولائی میں ریفرنڈم کروا کر ایسے انتظامات کر دیے ہیں کہ جن سے وہ سنہ 2036 تک صدر رہ سکتے ہیں۔

اس ریفرنڈم کے تحت ان کا دور اقتدار سنہ 2024 میں صفر سے شروع ہوگا اور اس طرح وہ چھ چھ سال یعنی مزید دو مدت تک صدر رہ سکتے ہیں۔ اگرچہ انھوں نے یہ نہیں کہا کہ وہ دوبارہ انتخابات میں شامل ہوں گے تاہم انھوں نے یقینی طور پر یہ ضرور کہا ہے کہ اگر ایسے حالات پیدا ہوتے ہیں تو ایسا کرنا ضروری ہوگا۔

تاہم روس میں انتخابات کی نگرانی کرنے والے ایک آزاد گروپ گولوس نے اس ریفرنڈم کو مسترد کرتے ہوئے اسے پروپیگنڈہ یا ‘پی آر مشق’ قرار دیا ہے۔

لیکن موجودہ صورتحال میں پوتن کا روس پر مکمل کنٹرول ہے اور مستقبل میں بھی کوئی مسئلہ نظر نہیں آ رہا ہے۔ لیکن ایسا بھی نہیں ہے کہ ان کے سامنے چیلنجز نہیں ہیں۔

پوتن

پوتن اور چیلنجز

بین الاقوامی سفارت کاری کے ماہر اور دہلی میں قائم آبزرور ریسرچ فاؤنڈیشن کے تجزیہ کار ہرش پنت کا کہنا ہے کہ انھیں ملک کے اندر بہت ساری پریشانیوں کا سامنا ہے لہذا وہ بین الاقوامی امور کا سہارا لے کر عوام کی توجہ ہٹانے کی کوشش کرتے ہیں۔

ہرش پنت کہتے ہیں: ‘جب سے وہ (اقتدار میں) آئے ہیں، وہ یہ ظاہر کرنے کی کوشش کر رہے ہیں کہ روس ایک عالمی طاقت ہے۔ لیکن روس کی اندرونی حالت بہت خراب ہے۔ اگر ہم پچھلے کچھ مہینوں کے اعداد و شمار پر نظر ڈالیں تو وہان معاشی زوال نظر آتا ہے۔ لہذا اسی ضمن میں ملک میں ان پر تنقید بڑھتی جارہی ہے۔’

ہرش کا کہنا ہے کہ نہ صرف روس بلکہ ان تمام ممالک میں جہاں مطلق العنان یا آمرانہ رہنماؤں کو اقتدار حاصل ہے وہاں جب بھی انھیں اندورنی محاذ پر کسی صورتحال کا سامنا کرنا پڑتا ہے وہ بیرونی بحرانوں کے ذریعے ملک پر اپنی گرفت مضبوط کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔’

دہلی کی جواہر لعل نہرو یونیورسٹی میں روسی شعبے کے پروفیسر راجن کمار کا کہنا ہے کہ صدر پوتن آرمینیا، آذربائیجان کے تنازعے سے بہت تشویش کا شکار ہوں گے۔

ان کا کہنا ہے کہ ‘اگر پرانے سوویت خطے میں کوئی لڑائی ہوتی ہے تو پوتن بہت پریشان ہوجاتے ہیں اور ہر حال میں اس ملک کو امریکہ، ترکی یا کسی تیسری طاقت سے بچانے کی کوشش کرتے ہیں۔’

راجن کمار کا کہنا ہے کہ پوتن یہ سوچ رہے تھے کہ آرمینیا ان کے کنٹرول میں ہے اور آذربائیجان پر بھی ان کا اچھا اثر و رسوخ ہے اس لیے وہ یہ معاملہ بات چیت سے حل کر دیں گے لیکن اب یہ طول پکڑتا جا رہا ہے۔

وہ کہتے ہیں: ‘جس دن سے ترکی فعال ہوا ہےاور شام کے لڑاکا وہاں پہنچنے لگے ہیں اور پھر دوسرے ممالک بھی اس میں سرگرم ہوگئے ہیں، اس سے پوتن کی پریشانی میں اضافہ ہوا ہے۔ جب بیلاروس، یوکرین اور جارجیا جیسے ممالک آپس میں لڑتے ہیں تو پوتن پریشان نہیں ہوتے ہیں، لیکن جیسے ہی کوئی تیسرا فریق آتا ہے وہ ان کی پریشانی کا سبب بنتا ہے۔‘

ان سب کے باوجوڈ راجن کمار کا خیال ہے کہ یہ جھگڑا زیادہ طول نہیں پکڑے گا کیونکہ فی الوقت روس اور ترکی کے تعلقات بہتر ہیں۔

ان کا کہنا ہے کہ ترکی میں سنہ 2016 میں ہونے والی بغاوت کے دوران ترکی کے صدر رجب طیب اردوغان کی حکومت صرف پوتن کی وجہ سے ہی بچی تھی۔

دوسری جانب ترکی کے نیٹو کے ساتھ تعلقات اب بھی اچھے نہیں ہیں لہذا وہ روس کے مزید قریب آگیا ہے۔

پوتن

عالمی رہنما بننے کی خواہش

ماہرین کا کہنا ہے کہ اب پوتن بین الاقوامی سفارت کاری میں بہت مضبوطی کے ساتھ کھڑے نظر آئیں گے۔

ہرش پنت کہتے ہیں ’وہ یہ ظاہر کرنے کی کوشش کر رہے ہیں کہ روس میں اب بھی اتنی صلاحیت ہے کہ وہ بیرونی قوتوں کو اپنے ارد گرد جمع ہونے سے روک سکتا ہے۔ خاص کر فوجی نقطۂ نظر سے اہم علاقوں میں۔‘

راجن کمار کا کہنا ہے کہ پوتن جانتے ہیں کہ وہ ان بحرانوں کو بطور موقع استعمال کرسکتے ہیں۔

انھوں نے کہا: ‘چاہے وہ شام ہو، ایران ہو، آذربائیجان یا افغانستان، انھیں پتا ہے کہ روس کو ساتھ لیے بغیر ان میں سے کہیں بھی جاری جدوجہد کے متعلق بات چیت آگے نہیں بڑھ سکتی ہے۔’

راجن کا مزید کہنا تھا ’پوتن ایک زبردست منصوبہ ساز ہیں، خاص طور پر سٹریٹیجک معاملات میں وہ بہت منصوبہ بندی کے ساتھ کام کرتے ہیں۔ آپ اسی سے یہ سمجھ سکتے ہیں کہ وہ آرمینیا کو بھی اسلحہ فروخت کرتے ہیں اور آذربائیجان کو بھی۔ انڈیا کو بھی اسلحہ دیتے ہیں اور چین کو بھی، ایران کو بھی اسلحہ دیتے ہیں اور سعودی عرب کو بھی۔‘

’وہ اس وقت تک پریشان نہیں ہوں گے جب تک کہ ان علاقوں میں روس کا اثر و رسوخ باقی ہے۔ لیکن اگر کوئی دوسرا مداخلت کرتا ہے تو پھر وہ خاموش نہیں رہ سکتے۔‘


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32502 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp