خوشامد علمِ دریاؤ ہے


\"wajahat1\"

لاہور کی مال روڈ سے درخت کٹے تو ناصر کاظمی بہت دِن اُداس رہا۔ اورینٹل کالج میں عبادت بریلوی سے ملاقات ہوتی یا ٹی ہاؤس میں انتظار صاحب سے مکالمہ، یہی قصہ چلتا رہتا۔ سڑک تو چوڑی ہو جائے گی مگر سو، ڈیڑھ سو برس پرانے درخت کہاں سے لاؤں گا جن کی چھاؤں میں چہل قدمی کرتے ہوئے سیکڑوں جوڑوں نے محبت کرنا سیکھی تھی۔

ناصر آج زندہ ہوتا تو اُسے کٹ جانے والے درختوں پر رشک آتا لیکن جو درخت کٹنے سے بچ گئے تھے وہ سوکھنے سے نہیں بچیں گے کہ اُن سے خوشامد میں لتھڑے بینر باندھے جاتے ہیں۔ خوشامد کی لُو درختوں کو لگے تو وہ سوکھ جاتے ہیں۔ خوشامد کے تھپیڑے شہروں میں چلنے لگیں تو بھرے پُرے شہر اُجڑ جاتے ہیں۔اِسے قحط الرجال کہتے ہیں۔

لاہور میں غیر ملکی رہنماؤں کی آمد پر خوش آمدید کے سرکاری بینر ٹانگنے کی روایت کو 1974 کی اسلامی کانفرنس سے فروغ ملا تھا۔ بعد کے برسوں میں خوشامد کے مایوس مریضوں نے اِسے یوں اپنا لیا کہ آج پنجاب اسمبلی سے لے کر جم خانہ تک مال روڈ کا ہر چوک گویا صاحب ِاقتدار اور صاحب غرض افراد کی ڈائریکٹری بن کر رہ گیا ہے ۔ فتح انگلش کی ہوتی ہے، قدم جرمن کے بڑھتے ہیں۔

پاکستان میں خوشامد کا فن نیا نہیں لیکن اسے پوشیدہ خارش کی طرح ملفوف رکھا جاتا تھا۔ اب اس کی زخمِ جگر کے طور پر نمائش کی جاتی ہے۔ قیام پاکستان کے بعد میونسپل کمیٹی راولپنڈی کے چئیرمین مسعود صادق ون یونٹ سے ہوتے ہوئے فیلڈ مارشل ایوب کے درِ دولت تک پہنچے تو اس فن میں منجھ چکے تھے۔ سردار صادق اور زمرد ملک جیسے بذلہ سنج شیزان ریستوراں میں ویٹر سے چمچہ مانگنے کی بجائے حُسن طلب کا اظہار یوں کرتے تھے ’بھائی، ایک مسعود صادق تو لانا۔‘

بدایوں کے ماجد میاں مرحوم کی وزیرِ خزانہ شعیب پر پھبتی تو ہماری تاریخ کا حصہ بن چکی: ’ حضور، لوگ کٹلری کے بارے میں کچھ کہہ رہے ہیں۔‘

ایوب خاں نے اس فن میں کیسا کیسا جوہرِ قابل دریافت کیا۔ قدرت اللہ شہاب اُنہیں بادشاہ کہتے تھے تو پیر علی محمد راشدی خط لکھ کر نیلی آنکھوں اور چوڑے شانوں والے فرزندِ ریحانہ سے بادشاہت کے باقاعدہ اعلان کا مطالبہ کرتے تھے۔ نظریہ پاکستان کے بستہ برداروں کو شاید یاد ہو کہ قائد اعظم کی سوانح ’مائی لیڈر‘ لکھنے والے زیڈ اے سلہری نے دسمبر1964 میں ’سیاستدان اور ایوب‘ کے نام سے ایک کتاب فاطمہ جناح کے خلاف بھی لکھی تھی۔

قائد اعظم کے دوسرے سوانح نگار جی الانہ محترمہ فاطمہ جناح کے انتخاب میں شریک ہونے کا اعلان سُنتے ہی اُن کی کتاب ’میرا بھائی‘ کی تدوین سے دست بردار ہوگئے تھے۔ یہ بھی کچھ ایسی یاد رکھنے والی بات نہیں کہ چودھری ظہور الٰہی اس انتخابی معرکے میں ایوب خان کے دست راست تھے۔

چالیس برس سے اس روایت کی آبیاری کرنے والے خانوادے نے جنرل پرویز مشرف کی توصیف میں سلوک کی نئے منزلیں طے کی ہیں۔ پہلے مسلم لیگ ضلع گجرات کے صدر چودھری وجاہت حسین نے مصرع عرض کیا ’صدر دو وردیاں بھی پہن لیں تو ہمیں اعتراض نہیں‘ پھر پرویز الٰہی نے دونوں ہاتھ بلند کر کے اعلان کیا کہ ’صدر کو دس بار منتخب کریں گے‘ اور پھر وہی ہاتھ دِ ل پر رکھ کر عرضِ تمنا کی کہ صدر کو زندگی بھر وردی میں دیکھنا چاہتے ہیں۔

چودھری صاحبان کا رنگِ تغزل دیکھ کر خط کا مضمون بھانپنے والوں نے طویل مدت کی سرمایہ کاری شروع کر دی۔ ابتدائی طور پر چند کالم نگاروں نے پرویز الٰہی کے صاحب زادے مونس الٰہی کو گویا آئندہ حکمران جان کر تہنیتی مضمون باندھے۔ تیر بہدف صدری نسخے ارزاں کیے۔ اور پھر آواز بھرنے والوں نے مشاعرہ سر پر اُٹھا لیا ’مونس الٰہی قدم بڑھاؤ۔‘

مونس الٰہی سے قدم بڑھانے کے درخواست گزاروں میں سے بیشتر نام اِن بینروں کے علاوہ ایوانِ صدر کے اُس خط میں نظر آتے ہیں جو حال ہی میں پنجاب حکومت کو جؤا خانوں کے حوالے سے بھیجا گیا ہے۔ نواز شریف نے پچھلے سال لندن میں ایسے ہی کاملانِ فن کے بارے میں کہا تھا کہ میں نے قدم بڑھا دیے اور پیچھے مُڑ کر دیکھا تو پُرزور اصرار کرنے والے اصحاب غائب تھے۔

معروف سیاسی دانشور امجد سلیم منہاس کو گلہ ہے کہ حکومت کی تائید میں بیانات کا مضمون بہت پامال ہو چکا۔ صاحب اقتدار کا نام بدل جاتا ہے۔ صاحب خوشامد کے مقام کی رعایت سے یک کالمی اور دوکالمی خبر کا تعین بھی ہوجاتا ہے۔ لیکن نصف صدی سے وہی گنی چُنی بحریں رگیدی جا رہی ہیں۔ پہلا مضمون تو یہ ہے کہ جو اقتدار میں ہے وہی بہترین ہے اور کون ہے جو ایسے کار ہائے نمایاں انجام دے سکے۔ بھلے اِذنِ اظہار نہ ہو مگر استفسار کا محل تو ہے کہ صاحب اقتدار کے نابغہ روزگار ہونے کا علم آپ کو اس کے اقتدار پر قابض ہونے کے بعد ہوا یا پہلے؟ سچ تو یہ ہے کہ اقتدار پر قابض صاحبِ شمشیر سیاسی عمل کو موقع دے تو کسی اور کے امکان کی پنیری نمو پائے۔

چاپلوسی کا ایک ڈھنگ یہ ہے کہ اس نگینے کو چھوڑ کے باقی سب بدعنوان ہیں۔ گزشتہ سب تخت نشیں بُرے تھے۔ اس تشبیب سے گریز کے طور پر ایک استثنا محمد علی جناح کا رکھا جاتا ہے۔ کچھ مذہبی رجحان رکھنے والے چھلانگ لگا کر یہی رعایت عمر بن عبدالعزیز کو بخش دیتے ہیں۔ چڑھتے سورج کے خمار میں کسے یاد رہتا ہے کہ گزشتہ رات آپ انہی بُرے لوگوں کے الوانِ نعمت پر جلوہ افروز تھے۔

غرض آلود خوش فہمی کا ایک زاویہ یہ ہے کہ ظلِ سبحانی کی نیت اچھی ہے۔ قطع نظر اس سے کہ اجتماعی زندگی میں نتائج کا نیت سے کیا تعلق، انگریزی محاورہ تو کہتا ہے کہ جہنم کو جانے والے سب راستے اچھی نیت ہی سے عبارت ہوتے ہیں۔ یہ سوال تو بہر صورت وضع داری کے منافی ہے کہ صاحبِ حکم کی نیت سے یہ آشنائی آپ نے قربِ سلطانی کے کس آسن سے کشید کی ہے؟

بددیانت تعزز کی جھلک دیتے لب و لہجے کا ایک رنگ یہ ہے ’ہم ذاتی طور پر جانتے ہیں کہ حکمران ( نوٹ: موجودہ حکمران) اچھا انسان ہے۔‘ گویا ان کا ذاتی علم کروڑوں عوام کی اجتماعی دانش پہ فوقیت رکھتا ہے۔

مادی ترقی کے بغیر نوالہ نہ توڑنے والے کچھ مغرب زدہ نالیوں، سڑکوں اور شفا خانوں جیسے معمول کے ترقیاتی کاموں کی دلیل پیش کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ حکمران سے اختلاف کرنے والے ملکی ترقی کے دشمن ہیں۔ اس کا مطلب شاید یہ ہے کہ ملکی ترقی اب تک ایسے ہی کسی حادثہ فاجعہ کے انتظار میں تھی۔ دوسری طرف تاریک خیالوں کے لیے ٹیپ کا مصرع کچھ برس پہلے تک یہ تھا کہ صاحب شراب نہیں پیتے۔ اب نہیں لیتا کوئی بھی زلف لہرانے کا نام۔

عوام کی نبض پر ہاتھ رکھنے والے کچھ دردمندوں کا جو دراصل ملتان کے ادنٰی کارکن ہوتے ہیں، طرز کلام مختلف ہوتا ہے۔’ آئین اور جمہوریت تو وکیلوں کے چونچلے ہیں۔ عوام تو عزت کی زندگی گزارنا چاہتے ہیں۔‘ عوام کے سیاسی شعور پر شک کرنے والے ان بزرگ مہروں کی خوش قسمتی سے عوام صبح و شام کلرکوں کے درِ حاجت روا سے لے کر تھانیداروں کے دروازے تک جھولیاں بھر بھر کر عزت کماتے ہیں۔

جنہیں پاسپورٹ پر دو چار غیر ملکی مہروں کا شرف مل جائے، وہ اپنی جہاں دانی کا اظہار یوں کرتے ہیں کہ تخت نشین مذکورہ نے ملک کی عزت بڑھائی ہے۔ کیا عرض کیا جائے کہ قوموں کی عزت بھاگ دوڑ سے بڑھانے کی چیز نہیں۔ اجتماعی وقار کے سوتے کسی کی ذاتِ معجزہ کار سے نہیں، قوموں کے مستحکم سیاسی درو بست، کارخانوں اور مدرسوں سے پھوٹتے ہیں۔

امجد سلیم منہاس کا شکوہ بجا ہے۔ خوشامد کے یہ مضمون پامال ہی نہیں ہو چکے، اب تو یہ زمین بھی کُھد چکی۔ لاہور کی مال روڈ پر لہراتے ذوق اور معنی سے عاری بینر تو فیض کا کلام بھی نہیں کہ حالات بدلیں نہ بدلیں، اچھے شعر کا لطف ہی اٹھایا جا سکے۔

(مارچ 2007 میں لکھی گئی تحریر)۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments