محترم اساتذہ، ایک نظر ادھر بھی


اساتذہ کے عالمی دن پر جہاں میں اپنے ان اساتذہ کی احسان مند ہوں جنہوں نے مجھے انسانی سوچ کی وسعت کا احساس دلاتے ہوئے سوال کرنا سکھایا وہیں مجھے کچھ اساتذہ سے گلے بھی ہیں۔ آج ہر استاد کو اس دن پر اپنے موجودہ مقام پر فخر کرتے دیکھ رہی ہوں تو دل میں یہ خیال جنم لے رہا ہے کہ ہر استاد اس عالمی دن کو فخر اور مسرت کے ساتھ کیسے منا سکتا ہے؟ ہمارے معاشرے میں استاد کو جو مقام حاصل ہے اس کو جانتے ہوئے میں یہ کہنے کی جسارت کرنا چاہوں گی کہ بدقسمتی سے بہت سے استاد اس مقام کے اہل نہیں۔

ہمارے ہاں ایک معمولی ذہنیت رکھنے والا استاد اپنے شاگردوں کو بڑی بڑی مثالیں دیتا ہے اور بعد میں ان سے ’عزت‘ کے نام پر ’جی حضوری‘ کا طلبگار بنتے ہوئے، شاگردوں کے سوالوں کا گلا گھونٹ دیتا ہے۔ بدقسمتی سے ہمارے زیادہ تر اساتذہ ’عزت‘ اور ’فرمانبرداری‘ کا فرق نہیں جانتے اور وہ ایسی نسل تیار کرنے میں لگے رہتے ہیں جو ’جی‘ کہنا تو جانتی ہے لیکن سوال کرنا نہیں۔ ایسی نسل جو زندگی کے مفہوم سے واقف نہیں۔

میں جانتی ہوں کہ اس سب کا قصوروار ہمارا نظام ہے لیکن نظام کے بنانے والا کون ہے؟ یقیناً ہم لوگ۔ ہماری ذہنیت اور سوچ جس کا تعلق براہ راست تعلیم اور تعلیم دینے والوں سے بھی ہے۔ ایک معاشرے کو مہذب بنانے میں ایک استاد کا کردار عین کلیدی ہے۔ جہاں اساتذہ کا عالمی دن ایسے اساتذہ کی حوصلہ افزائی کرتا ہے جو اپنے شاگردوں کے ذہنوں کو روشن کر کے اپنا کردار بخوبی نبھا رہے ہیں وہیں اساتذہ کا عالمی دن ’احتساب کا دن‘ بھی ہے۔

لہٰذا تمام اساتذہ کو اس دن ایک گہری سانس لے کر یہ سوچنا چاہیے کہ کیا ان کا کردار صرف اپنے شاگردوں کو مخصوص سلیبس کے رٹے لگوانے تک محدود رہا ہے یا انھوں نے سوال کو بھی فروغ دیا ہے؟ کیا انھوں نے اپنے شاگردوں کو گریڈز کی بناء پر پرکھا ہی ہے یا ان کی شخصیت کو نکھارنے میں بھی کردار ادا کیا ہے؟ کیا انھوں نے بھی صرف اپنے آپ کو ہی معتبر جانتے ہوئے اپنے شاگردوں کو بھری جماعت میں بے عزت ہی کیا ہے یا انھوں نے باہمی احترام کو بھی فروغ دیا ہے؟
میری تمام اساتذہ سے گزارش ہے کہ وہ اساتذہ کے عالمی دن کو اپنا احتساب کرنے کے بعد منائیں!


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

1 Comment (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments