مریم نواز کی حمایت کیوں ضروری ہے؟


صاحبو، بنیادی مقدمہ پاکستان میں سیاسی جمہوریت کی طرف پیشقدمی اور پھر اس کے قیام کا ہے۔ بے دماغ انقلابی احباب اکثر سمجھنے سے قاصر رہتے ہیں کہ موجودہ بلغم زدہ نظام کی مخالفت، اس کو جمہوریت تسلیم کرنے سے انکار، یا پھر اس پر تنقید، ہم جیسوں کو پٹواری یا جیالا ثابت نہیں کرتی۔ وہ جو کہ سنہ 1977 سے اس ملک میں سیاسی مداخلتوں کے تماشے دیکھتے چلے آئے ہیں، اب وہ، مجھ سمیت، تھک چکے ہیں۔

بہت سال قبل، محترمہ ثمینہ پیرزادہ نے، جناب محمد رؤف صاحب کے پروگرام، 50 منٹ میں اک بار بہت جذباتی انداز میں کہا تھا کہ: ہم اس خطے اور دنیا میں عزت اور وقار سے جینا چاہتے ہیں۔ بات صرف اور صرف یہی ہے۔ کوئی دوسری بات نہیں۔

ہم جیسے تو اس تکلیف میں بھی مسلسل مبتلا رہتے ہیں کہ پاکستان کو بے عزت اور بے وقار کرنے والے تقریباً تمام احباب اپنی اپنی ریاستی ذمہ داریوں کی ادائیگی میں میرے وطن اور میرے وطن کے شہریوں کے مفادات بچانے و بڑھانے کے بجائے اصلا اپنے ذاتی اور بعد از صرف گروہی مفادات ہی بچاتے اور بڑھاتے رہے۔ اس عمل کی بہت ساری مثالیں ہیں۔ وہ جو پاکستان کی سیاسی تاریخ سے تھوڑا بہت شغف رکھتے ہیں، وہ جان جائیں گے، تو لہذا، خاص نشاندہی کرنے کی ضرورت نہیں۔ ویسے بھی یہ مختصر مضمون بے دماغ انقلابیوں کے لیے ہے ہی نہیں۔

پاکستان پچھلے 20 برس سے عین اسی گھن چکر میں ہے جس میں یہ اپنی پیدائش کے تقریباً فوراً بعد ہی آ گیا تھا۔ اگر اس گھن چکر میں سے کچھ بہتر برآمدگی ہونا ہوتی، تو میرے یارو، ہو چکی ہوتی۔ دھونس، دھاندلی اور ڈنڈا ڈولی کا اک مزاج ہے، جو وطن کے سیاسی، ریاستی، معاشی اور معاشرتی امور پر مسلسل حاوی رکھا گیا ہے۔ ایسا نہیں کہ سیاسی طبقات دودھ کے دھلے ہیں۔ مگر صرف ایک ہی بات سیاستدانوں کی حمایت کے لیے کافی رہتی ہے : آپ ان پر 24 میں سے 25 گھنٹے کسی قسم کے خوف کے بغیر جو جی چاہے، سچ جھوٹ کہہ سکتے ہیں۔ کیا آپ یہی آزادی کسی ”دوسرے“ کے بارے میں سوچ بھی سکتے ہیں؟

مناسب و مہذب آزادی فکر، تنقید اور سوچ کے بغیر، تخلیق ناممکن ہوتی ہے۔ تخلیق ناممکن ہو جائے تو ترقی ناممکن ہوتی ہے۔ پاکستان میں چار نسلیں خراج دے چکی ہیں ؛ کیا اگلی چار بھی یہی خراج دیں گی؟

مریم نواز صاحبہ اور نواز شریف صاحب کے خلاف، لاہور میں غداری کا مقدمہ درج کر لیا گیا ہے۔ مقدمہ درج کرنے کی یہ روایت پرانی ہے اور اس مقدمہ کے درج ہونے میں، اس مقدمہ کو درج کروانے اور درج کرنے والے تمام احباب کی ذہانت، فطانت، متانت اور سب سے بڑھ کر، پاکستان سے دیانت ثابت ہو جاتی ہے۔

یہ بھلے تماشا ہی محسوس ہوتا ہو، مگر موجودہ پاکستان میں کسی طرف سے، کسی قسم کی، کوئی اچھی خبر آپ کے علم میں پچھلے ڈھائی برس میں آئی ہو تو میرے علم میں اضافہ کر دیجیے۔ یہ ملک اگر چند لوگوں کے ”بورڈ آف ڈائریکٹرز“ کے ممبران ہونے کی حیثیت سے ایسے ہی چلایا جاتا رہا، تو یہ مجھ جیسے عام شہریوں کے لیے نہیں چلے گا۔ یہ صرف ان طبقات کے لیے ہی چلے گا جنہوں نے یہ ملک اک اشرافیائی ریاست کے طور پر ہائی جیک کر رکھا ہے، اور ان کے ذاتی، گروہی اور کاروباری مفادات پاکستان پر انحصار ہی نہیں کرتے۔

موجودہ نظام کے تحت، میرے وطن کی اگر کوئی بہتری ممکن ہو سکتی ہوتی، تو پچھلے ڈھائی برس میں اس کے اشارے نظر آ چکے ہوتے۔ قابلیت کا پیمانہ کیا ہے ؛ اس کے لیے پچھلے ڈھائی برس میں حکومت کی معاشی کارکردگی، پاکستان پر قرضوں میں اضافہ، عوام کے حالات کے ساتھ ساتھ، ”سٹیٹ آف دا آرٹ“ پشاور میٹرو ہی کافی ہے۔ گل، فواد، چوہان اور شبلی، واؤڈا وغیرہ آپ بھلے ہزار اور لے آئیں، باتوں سے کام مکمل نہیں ہوا کرتے!

مریم و نواز کی حمایت، تاریخ کے اس موقع پر اس لیے بھی ضروری ہے کہ وہ اک ایسے سیاسی پراسیس کو لیڈ کر رہی ہیں، جو کم از کم صوبہ پنجاب کے گلی کوچوں اور بازاروں میں اک سیاسی موضوع کے طور پر موجود نہ تھا۔ اس میں کوئی دو رائے نہیں کہ آخری معاملہ فہمی، میز پر بیٹھ کر ہی ہونی ہے۔ یہ وقت، حالات اور سیاست کا لازمی جبر ہوتا ہے ؛ سہنا پڑتا ہے۔ اس پراسیس میں سے جب وہ نکل آئیں، تو ہم ہی ہوں گے، اور ہماری تنقید، طنز اور تیر ہوں گے۔ ہاں مگر، اس تنقید، طنز اور تیر اندازی میں، ہمیں کسی قسم کا وہ خوف نہ ہو گا، جو آپ شاید ابھی محسوس کرتے ہیں۔

جمہوریت زندہ باد
پاکستان پائندہ باد

(نوٹ: ہم سب والوں نے یہ خبر چلائی تو لکھنا پڑا۔)

https://www.humsub.com.pk/348716/newsdesk-4998/

 


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).