ڈونلڈ ٹرمپ کے معالج ڈاکٹر شان کونلی کون ہیں؟


ٹرمپ

سنیچر کی صبح صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے ذاتی معالج نے والٹر ریڈ میڈیکل سینٹر سے ڈاکٹروں کے ایک پورے دستے کے ساتھ باہر نکل کر صدر ٹرمپ کی صحت کے بارے میں دنیا کو آگاہ کیا۔

ڈاکٹر شان کونلی نے کہا کہ ‘اس وقت میں اور میری ٹیم صدر کی صحت میں بہتری سے بہت خوش ہیں’۔

انھوں نے کہا کہ ’ہم اس بارے میں پرامید مگر محتاط ہیں۔۔ وہ بہت بہتر ہیں۔‘

چند لمحوں بعد صدر کے چیف آف سٹاف مارک میڈوز نے ان سے بالکل مختلف بات کی۔ انھوں نے ذرائع ابلاغ کے نمائندوں کو بتایا کہ ’گذشتہ چوبیس گھنٹوں میں صدر کی صحت کے اہم اشارے انتہائی تشویش ناک ہیں۔’ ساتھ ہی انھوں نے یہ بھی کہا کہ اگلے 48 گھنٹے بہت اہم ہو سکتے ہیں۔

امریکی بحریہ کے افسر ڈاکٹر شان کونلی نے جیسے ہی اپنا بیان ختم کیا ان سے صدر ٹرمپ کی بیماری کی ٹائم لائن کی تفصیل فراہم کرنے کو کہا گیا۔

ابتدائی طور پر ڈاکٹر کونلی نے کہا تھا کہ صدر ٹرمپ میں کورونا وائرس کی تشخص کو 72 گھنٹے ہو گئے ہیں تو سنیچر کو ڈاکٹر کی جانب سے اتنا عرصہ بتانے کی مطلب ہوا کہ صدر ٹرمپ کا کورونا وائرس کا ٹیسٹ بدھ کو مثبت آیا ہوگا یعنی بیماری کا اعلان کرنے سے 36 گھنٹے پہلے۔

یاد رہے کہ صدر ٹرمپ نے جمعے کو ایک ٹویٹ میں اپنی بیماری کی خبر عام کی تھی۔ سو اگر یہ ثابت ہوتا کہ ان کا ٹیسٹ بدھ کو ہی مثبت آ گیا تھا تو اس کا مطلب یہ تھا کہ انھوں نے اس بات کا علم ہوتے ہوئے دو بڑے انتخابی جلسے کیے۔

لیکن بعد میں وائٹ ہاؤس کی جانب سے جاری کیے گئے ایک بیان میں ڈاکٹر کونلی نے وضاحت کی کہ ان کا مطلب تھا کہ سنیچر صدر کی بیماری کا ’تیسرا دن‘ ہے اور یہ کہ ان میں وائرس کی تشخیص جمعرات کی شام ہوئی تھی۔

اتوار کو ڈاکٹر کونلی نے انکشاف کیا کہ صدر ٹرمپ کو آکسیجن بھی دی جا رہی ہے جس سے وہ پہلے انکار کرتے رہے تھے۔

بظاہر ایک ایسے وقت جب ملک ایک مشکل دور سے گزر رہا ہے، یہ متضاد بیانات صدر کی صحت کے بارے میں شفافیت برتنے کے حوالے سے شکوک و شبہات جنم لے رہے ہیں۔

یہ بھی پڑھیے

ٹرمپ کی حامیوں سے ملاقات، گاڑی میں سیر پر امریکی صدر پر تنقید

کورونا وائرس میں مبتلا ہونے کے بعد ٹرمپ ہسپتال منتقل

ٹرمپ کورونا سے متاثر: امریکی انتخابات کا مستقبل کیا ہو سکتا ہے؟

اگر ٹرمپ بیماری کے باعث صدارتی ذمہ داریاں پوری کرنے کے قابل نہ رہیں تو؟

صدر ٹرمپ

شان کونلی کون ہیں؟

شان کونلی جن کی عمر 40 برس ہے وہ سنہ 2018 سے صدر کے معالج کے طور پر کام کر رہے ہیں۔

وائٹ ہاؤس میں تعینات تمام طبی عملے کی طرح ڈاکٹر کونلی بھی ایک فوجی افسر ہیں جس کا مطلب یہ ہے کہ صدر ٹرمپ ان کے سپاہ سالار یا کمانڈر ان چیف بھی ہیں۔

فوج سے تعلق رکھنے والے طبی عملے اور ڈاکٹروں کو تعینات کرنے کی روایت امریکہ میں خانہ جنگی کے دورے سے چلی آ رہی ہے۔ اس کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ سویلین ڈاکٹر فوری طور پر اپنی ذاتی پریکٹس کو کئی سال کے لیے نہیں چھوڑ سکتے۔

صدر کے ایک سابق معالج ڈاکٹر کونی ماریآنو نے نیو یارک ٹائمز کو بتایا کہ فوج سے تعلق رکھنے والے ڈاکٹر زیادہ تربیت یافتہ ہوتے ہیں کیونکہ مریضوں کو سب سے پہلے دیکھنے کا انھیں بہت تجربہ ہوتا ہے اور وائٹ ہاؤس میں کام کرنا جنگ کی طرح ایک ہنگامی صورت حال میں کام کرنے کے مترادف ہے۔

ڈاکٹر کونلی کا تعلق امریکی ریاست پینسلوینہ سے ہے۔ انھوں نے سنہ 2002 میں یونیورسٹی آف ناٹر ڈیم سے ڈگری حاصل کی تھی جس کے بعد انھوں نے فلاڈیلفیا میں کالج آف اوسٹیوپیتھک میڈیسن سے تعلیم حاصل کی۔ انھوں نے سنہ 2006 میں ڈاکٹر آف اوسٹیوپیتھک کی ڈگری حاصل کی۔

پروفیشنل ڈاکٹر کی ڈگری اور ڈاکٹر آف میڈیسن کی ڈگری میں فرق ہوتا ہے۔ اوسٹیوپیتھک میڈیسن میں کسی مریض کے علاج میں اس کے طرز زندگی اور ماحول کو سامنے رکھ کر علاج کیا جاتا ہے۔

شین کونلی

لیکن برطانیہ اور امریکہ میں اوسٹیوپیتھک ڈاکٹروں کی تربیت کافی حد تک روایتی ڈاکٹروں کی تربیت اور تعلیم کی ہی طرح ہوتی ہے۔ ان کو پریکٹس کرنے کے لیے وہ تمام شرائط پوری کرنا ہوتی ہیں جو ایک عام ڈاکٹر کے لیے متعین کردہ ہیں۔ انھیں ادویات تجویز کرنے کی اجازت بھی حاصل ہوتی ہے اور وہ امریکہ کی پچاس ریاستوں میں پریکٹس کر سکتے ہیں۔

امریکی ریاست ورجینیا میں پورٹسمتھ کے بحریہ کے میڈیکل سینٹر میں کچھ مزید کورسز کرنے کے بعد وہ سنہ 2014 میں افغانستان میں قائم نیٹو کے میڈیکل یونٹ میں کام کرتے رہے۔ انھیں بارودی سرنگ کے پھٹنے سے شدید زخمی ہونے والے رومانیہ کے ایک فوجی کی جان بچانے پر رومامنیہ کی حکومت کی طرف سے اعزاز بھی دیا گیا تھا۔

اس کے بعد ان کو وائٹ ہاؤس کے میڈیکل یونٹ میں تعینات کر دیا گیا۔ وہ سنہ 2018 میں اس وقت صدر ٹرمپ کے قائم مقام ذاتی معالج بن گئے جب صدر نے اپنے ذاتی معالج ڈاکٹر رونی جیکسن کو سابق فوجیوں کے ادارے کا سربراہ مقرر کر دیا۔

ڈاکٹر جیکسن نے ڈیموکریٹ پارٹی کی طرف سے اعتراضات اٹھائے جانے کے بعد اس نامزدگی کو قبول کرنے سے انکار کر دیا تھا۔

ماضی میں ڈاکٹر کونلی نے صدر ٹرمپ کی صحت کے بارے میں کیا کہا تھا؟

فروری سنہ 2019 میں انھوں نے ڈاکٹروں کی ایک گیارہ رکنی ٹیم کی سربراہی کی تھی جس نے ڈونلڈ ٹرمپ کا طبی معائنہ کیا تھا۔ انھوں نے کہا تھا کہ صدر کی صحت بہت اچھی ہے اور ان کے خیال میں اپنے مدت صدارت اور اس کے بعد بھی وہ بالکل صحت مند رہیں گے۔ نیویارک ٹائمز نے اس وقت اطلاع دی تھی کہ صدر کی صحت کے بارے میں اس سے زیادہ کچھ نہیں بتایا گیا۔

امریکہ کی تاریخ میں سب سے عمر رسیدہ شخص کے صدر کے طور پر حلف اٹھانے کے بعد ان کی صحت کے بارے میں کافی دلچسپی پائی جاتی ہے۔

نومبر سنہ 2019 میں جب صدر ٹرمپ کو اچانک ہسپتال جانا پڑا تو ڈاکٹر کونلی نے ایک بیان جاری کیا اور کہا کہ یہ معمول کا معائنہ تھا۔ اس طرح کی بھی افواہیں تھیں کہ صدر ٹرمپ کو سینے میں تکلیف کی شکایت ہوئی تھی جس کی ان کے ذاتی معالجین نے تردید کی تھی۔

ٹرمپ

کیا صدر ٹرمپ ہائڈروکسی کلوروکوین لے رہے تھے؟

ڈاکٹر کونلی نے سنیچر کو ذارئع ابلاغ کے نمائندوں کو بتایا تھا کہ کووڈ 19 سے بچنے کے لیے صدر ہائڈروکسی کلوروکوین کا استعمال نہیں کر رہے تھے۔

اس سال مئی میں صدر نے اعلان کیا تھا کہ وہ کورونا سے بچنے کے لیے ہائڈروکسیک لوروکین کا استعمال کر رہے ہیں۔ اس اعلان کے بعد تمام نظریں ڈاکٹر کونلی پر مرکوز ہو گئیں اور کہا گیا کہ وہ تو کہا کرتے تھے کہ اس دوا کے استعمال کے فائدے اس سے ممکنہ طور پر لاحق ہونے والے خطرات سے زیادہ ہیں۔

اس دوا کے بارے میں عالمی سطح پر ہونے والی ایک تحقیق میں پتا چلایا گیا تھا کہ اس بات کا کوئی ثبوت نہیں ہے کہ کورونا وائرس کا علاج اس دوا سے کیا جا سکتا ہے۔

اس اعلان پر بہت سے لوگوں نے تشویش کا اظہار کیا تھا۔ یہ واضح نہیں ہے کہ آیا صدر کے ڈاکٹر نے واضح طور پر یہ دوا انھیں تشخیص کی تھی یا نہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32484 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp