انسانوں کی بستی میں جانوروں کے حقوق


کراچی کے چڑیا گھر میں موجود برفانی ریچھ کی حالت زار کی خبریں، میڈیا پر آنے کے بعد ماحولیات اور جانوروں سے محبت کرنے والے افراد، اس کے تحفظ کے لئے میدان میں آ گئے ہیں۔ سوشل میڈیا پر بھی پاکستان میں نایاب نسل کے اس ریچھ کے تحفظ کے لئے بھرپور مہم چلائی جا رہی ہے۔ براؤن کلر کے اس ریچھ کا نام رانو ہے، اور اس کا تعلق اردن سے بتایا جا رہا ہے، جو کہ سرد موسم میں رہنے کا عادی ہے، لیکن کراچی میں درجہ حرارت زیادہ ہونے کے باعث یہ ریچھ سست اور کمزور ہو رہا ہے۔

کراچی کے 38 شہریوں نے مشترک طور پر براؤن کلر کے اس ریچھ اور دیگر جانوروں کے تحفظ کے لئے سندھ ہائی کورٹ میں درخواست دائر کی ہے، جس میں کہا گیا ہے کہ برفانی ریچھ کو ایک چھوٹے سے تنگ پنجرے میں ماں باپ کے بغیر رکھا گیا ہے، جہاں اس کی صحت کا بہتر خیال نہیں رکھا جا رہا، جس سے اس کی زندگی کو خطرہ لاحق ہے۔ درخواست میں مطالبہ کیا گیا کہ ریچھ کے بچے کو سکردو منتقل کیا جائے، جہاں اس نسل کے دیگر جانور پائے جاتے ہیں اور وہاں کی آب و ہوا بھی ان کے لیے موافق ہے۔ اس پر عدالت نے چڑیا گھر انتظامیہ کو ریچھ کو سازگار ماحول فراہم کرنے کا حکم دیتے ہوئے رپورٹ بھی طلب کر لی ہے۔

چڑیا گھر کراچی کے ڈائریکٹر خالد ہاشمی کا کہنا ہے کہ یہ براؤن کلر کا ریچھ مارچ 2017ء میں ایکسچینج پروگرام کے تحت ان کے پاس آیا تھا۔ انہوں نے سوشل میڈیا پر ریچھ کے بیمار ہونے والی خبروں کی تردید کرتے ہوئے اسے تن درست قرار دیا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ ریچھ کا ماحولیاتی معیار کے مطابق بھرپور خیال رکھا جا رہا ہے۔

وائلڈ لائف کے ماہرین کے مطابق جنگلوں میں یہ بھورا ریچھ، موسم سرما میں Hibernation لمبی نیند کے لئے اپنے گھوپے میں چلے جاتے ہیں، جہاں وہ 3 سے 4 ماہ تک بغیر کھانے اور پانی کے زندہ رہتے ہیں لیکن چڑیا گھر میں ریچھ کو وہ سازگار ماحول نہ ملنے کے باعث اس کی طبیعت میں فرق آیا ہے۔

جانوروں کے تحفظ کے لئے کام کرنے والی پاکستان کی نامور اداکارہ مشعل خان کا کہنا ہے کہ پاکستان کے چڑیا گھروں میں جانوروں کو صاف پانی اور بہتر خوراک نہ ملنے کے باعث، وہ بیمار ہو کر مر جاتے ہیں۔ ان کے تحفظ کے لئے بھاری رقم جاری ہونے کے باوجود بہتری کے لئے اقدامات نہیں اٹھائے جاتے۔

پاکستان کے چڑیا گھروں میں جانوروں کے لئے سازگار ماحول نہ ہونے اور وہاں موجود عملہ تربیت یافتہ نہ ہونے کے باعث، اکثر جانور مر جاتے ہیں۔ ایسا ہی واقعہ 2 ماہ قبل اسلام آباد کے مرغ زار چڑیا گھر میں پیش آیا، جہاں جانوروں کی منتقلی کے دوران میں ایک شیر کو نکالنے کے لئے، اس کے پنجرے میں آگ لگائی گئی، جس سے نایاب قسم کا ایک شیر دم گھٹنے سے مر گیا۔ اس سے پہلے بھی جانوروں کی منتقلی کے دوران میں نا تجربہ کار ٹیم کی کوتاہی سے کئی جانور مر چکے ہیں۔ پاکستان میں ایک شیر کی ہلاکت کے بعد ڈبلیو ڈبلیو ایف نے اسلام آباد وائلڈ لائف مینجمنٹ میں قائم اپنی رکنیت سے علیحدگی اختیار کرلی ہے، جو کہ ہمارے لئے باعث افسوس ہے۔

پاکستان میں چڑیا گھروں کے علاوہ، بڑی تعداد میں جنگلات کے خاتمے سے بھی جانوروں کی نسل کشی ہو رہی ہے۔ اس وقت ملک میں جنگلات کا رقبہ صرف 5.2 فی صد ہی رہ گیا ہے۔ جنگلات کے کٹاؤ سے وہاں موجود جانور، شہری آبادی کی طرف آتے ہیں، جہاں وہ اکثر ابن آدم کے ہتھے چڑھ جاتے ہیں۔

اسلام آباد ہائی کورٹ نے گزشتہ دنوں چڑیا گھر سے متعلق عدالتی فیصلے پر عمل در آمد کیس کے تحریری حکم نامے میں اسلام آباد کے چڑیا گھر میں موجود ہاتھی سمیت مختلف اقسام کے جانوروں کی حفاظت کے ساتھ بیرون ملک منتقلی کے فوری اقدامات کا حکم دیا ہے۔ اعلیٰ عدالت کا یہ فیصلہ جانوروں کے تحفظ اور ان کی آزادی کے ساتھ زندگی گزارنے کے لئے کار آمد ثابت ہو گا۔

انسانوں کی اس بستی میں جب انسان ہی انصاف کے لئے بھٹکتا رہ جائے، تو وہاں پرند اور چرند کا تحفظ ایک سوالیہ نشان بن جاتا ہے۔ پاکستان میں جانوروں کے تحفظ اور ان کو سازگار ماحول فراہم کرنے کے لئے ہمیں عالمی معیار کے مطابق کام کرنا ہو گا۔ ان کی بہتر صحت، خوراک اور ماحول فراہم کرنے ہی سے ہم اس ماحول کو بہتر بنا کر قدرت کے اس نکھار میں مزید خوب صورتی لا سکتے ہیں۔

چڑیا گھروں کے علاوہ، پاکستان کے جنگلات اور صحراؤں میں پائے جانے والے جانوروں کے تحفظ اور ان کو ابن آدم کا شکار بننے سے بچانے کے لئے، محکمہ جنگلات اور آبی حیات کو بھی لوگوں کو اس بارے میں آگہی دینا ہو گی، اور ملک میں جانور کے تحفظ کے لئے اینیمل ایکٹ پر عمل در آمد کو تیز کرنا ہو گا، تا کہ جانوروں کے تحفظ کو یقینی بنایا جا سکے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).