پرویز ہود بھائی: ایک انڈین ایجنٹ جو پاکستان کی بھلائی سوچتا ہے


ایک انڈین ایجنٹ، جو پاکستان میں نہ جانے کیسے ایک اعلیٰ تعلیمی ادارے میں فزکس کا پروفیسر بننے میں کامیاب ہو گیا ہے، مسلسل انڈین ایجنڈے کے مطابق، پاکستان کی ترقی کے حوالے سے فکرمند رہتا ہے۔ ان کی سائنسی خدمات اپنی جگہ، مگر پاکستان کے مختلف شعبوں پر اور خصوصاً تعلیم کے حوالے سے بہت سے تحقیقی کتابوں کے علاوہ آرٹیکل لکھتے رہے ہیں۔ ایسے ایجنٹ پاکستان میں کم ہی نظر آتے ہیں اور پاکستان کے ریاستی اداروں کو ایسے ایجنٹوں سے محتاط رہنا چاہیے، جو پاکستان میں قانون کی حکمرانی، انسانی حقوق کی بالا دستی اورمعاشرتی مساوات کے علاوہ اسے تعلیم، سائنس اور دوسرے شعبوں میں ترقی یافتہ ممالک کے برابر دیکھنا چاہتے ہیں۔

یونیورسٹی میں پڑھاتے ہوئے، معقول سوچ کے حامی افراد پر مبنی معاشرہ بنانے کے لیے کوشاں ہیں۔ ان کی سوچ کتنی غلط ہے کہ پاکستان میں اقلیتوں کو بھی مساوی حقوق ملیں۔ یہ تو اچھا ہی ہوا کہ دیر سے سہی، مگر ہمارے ملک کے کرتا دھرتا ایسے لوگوں کو بڑی تیزی سے تعلیمی اداروں سے نکال رہے ہیں۔ ورنہ نجانے کتنے ایسے طالب علم پیدا ہوتے، جو ان کی نا معقول سوچ اور طرز فکر سے متاثر ہوتے۔

اسی انڈین ایجنٹ اور اس کے ایک ساتھی ڈاکٹر اے ایچ نیر نے، اسلام آباد میں واقع قائد اعظم یونیورسٹی کی اراضی پر قبضہ کرنے والے مافیا کے خلاف پاکستانی عدالت میں مقدمہ بازی کی اور حیرت ہے کہ عدلیہ نے ان کے موقف کو تسلیم بھی کیا۔ ایسی باتوں پر تو عدلیہ پر بھی شک ہوتا ہے کہ کہیں ججوں کے صفوں میں بھی انڈین ایجنٹ نہ ہوں۔ ویسے بھی ماضی میں کچھ فیصلوں کے سامنے آنے کے بعد، چند نا معقول افراد نے اس بات کا چرچا کیا کہ کچھ جج شاید غیر ملکی آقاؤں کے اشاروں پر فیصلہ دیتے ہیں۔

تعلیم کی بات آ گئی تو اس کی ہمیں کیا ضرورت ہے۔ ہمارے دادا پردادا سقراط اور افلاطون تھے اور ہمارے ملک میں ان سے بہت آگے کے سوچ رکھنے والے دانشوروں کی کمی نہیں رہی۔ شاید دنیا والوں کو ہماری سوچ تک پہنچنے کے لیے کئی دہائیاں یا صدیاں لگیں گے۔ چوں کہ ہم اتنے آگے نکل چکے ہیں، کہ اگر اب دو ڈھائی کروڑ بچے اسکول نہیں جا سکتے تو یہ کوئی بڑی بات نہیں۔ بلکہ ہماری کوشش یہ ہونی چاہیے کہ مزید بچے اسکول نہ جا سکیں، یا اسکولوں کے اندر ایسے حالات پیدا کر دیے جائے کہ وہ خود بخود اسکولوں سے نکل جائیں۔ خوش قسمتی سے ہمیں ایک ایسی حکومت دستیاب ہوئی ہے کہ وہ یہ کارنامہ ضرور اپنے نام کرے گی۔

ارباب بست و کشاد نے اچھا کیا کہ ہمارے ایک تعلیمی ادارے سے ایک ایسے پروفیسر امر اقبال کو نکال دیا، جو ریاضی نہیں پڑھا سکتا تھا، کیوں کہ وہ ایک جعلی ڈگری ہولڈر تھا۔ یہاں سے انھیں رسوا کر کے جب نکالا گیا، تو امریکا کی ایک معمولی سی تعلیمی ادارے ہارورڈ یونیورسٹی میں جعل سازی کے ذریعے انھیں فوری طور ملازمت دی گئی۔ شکر ہے ہمارا ملک ایسے پروفیسر کی خرافات سے بچ گیا، ورنہ طالب علم غلط ریاضی سیکھ کر غلط حساب کتاب کے پیچھے لگ جاتے۔ ریاضی، سائنس اور تاریخ ویسے بھی صحیح علوم نہیں ہیں۔ یہ مالیخولیا کے علوم ہیں۔ ان سے دور رہیں تو بہتر ہے۔

اچھا ہی ہوا کہ ضیغم عباس جیسے ٹیچر کو جو روایتی سوچ سے ہٹ کر پڑھاتے تھے، کو بھی جی سی یونیورسٹی سے نکال دیا گیا۔ ایسے سازشی اساتذہ کی تعلیمی اداروں میں موجودگی کتنے خطرے کی بات ہے، جو اسٹوڈنٹس کو سوالات کرنے کے لیے ابھارتے ہیں۔ اب آپ ہی بتائیے کہ سوال کرنا کتنی بڑی بے ادبی ہے۔ قرآن پاک اور احادیث میں جا بجا سوال، غور وفکر، تدبر اور تفکر، علم حاصل کرنے اور تحقیق سے متعلق جو ہدایات ہیں، وہ ہمارے لیے تھوڑی ہیں۔

اچھا ہی ہے کہ ہم ان ہدایات کے قریب بھی نہیں پھٹکتے، ورنہ پتا نہیں ہم بھی دوسرے دنیاوی طور پر ترقی یافتہ ملکوں میں شامل ہو کر جنت کے نعمت ہی سے محروم ہو جاتے۔ ہمارا مقصد دنیاوی ترقی تھوڑی ہے۔ انگریز، جاپانی اور دوسرے کافر اقوام جنھیں اپنی دنیاوی ترقی پر اتنا زعم ہے، جب قیامت کے دن دوزخ میں دھکیل دیے جائیں گے، تو ہم جنت ۔سے ان کے احوال کو دیکھ کر مزہ لیں گے۔ تب انھیں کتنی پشیمانی ہو گی!

پاکستان کے ترقی کی باتیں کرنے والے دانشوروں اور عام لوگوں کو محتاط رہنا چاہیے، کیوں کہ ایسی باتیں غداری کے زمرے میں آتی ہیں۔ مجھے ہنسی آتی ہے ہود بھائی جیسے انڈین ایجنٹ اور غدار کی باتوں پر، جب انھوں نے 2006ء میں انڈیا، پاکستان اور ایران کے تعلیم پر تقابلی جائزہ پیش کیا تو اس میں پاکستان کے ایک بھیانک تصویر کشی کرتے ہوئے خاصے ملول نظر آئے۔ سوالات کے دوران میں ایک وکیل نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا، کہ دو چیزیں کبھی بھی ٹھیک نہیں ہو سکتیں، ایک کتے کی دم اور دوسرا پاکستان۔

اس پر ہود بھائی نے پرجوش انداز میں کہا کہ کتے کی دم کے بارے میں تو میں کچھ نہیں کہہ سکتا، مگر پاکستان ٹھیک ہو گا۔ اس کے لیے مجھے، آپ کو اور ہم سب کو اپنا کردار ادا کرنا ہو گا۔ حیرت ہے کہ یہ انڈین ایجنٹ، پاکستان کے حوالے سے اتنے پر امید ہیں۔ اس کی ترقی کے لیے ہر ایک کو اپنے کردار ادا کرنے کی ہدایت دیتے ہے۔ ایسے میں کیا ارباب حل و عقد پر واجب نہیں کہ ان جیسے ایجنٹوں کو پاکستان سے باہر کیا جائے؟ یا ان پر مزید پابندیاں لگا دی جائیں، تا کہ پاکستان مزید محفوظ ہو جائے۔ ویسے بھی پاکستان محفوظ ہاتھوں میں ہے۔ عوام کو سوائے ایسے ایجنٹوں پر نظر رکھنے کے علاوہ کچھ کرنے کی ضرورت نہیں۔

عافیت نظر ایک محقق اور لکھاری ہیں۔ ان کے کالم انگریزی اخبارات، ڈیلی ڈان، ڈیلی ٹائمز اور فرنٹیئر پوسٹ کے علاوہ دوسرے اخبارات میں چھپتے رہے ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).