گلگت بلتستان کا صوبہ بننا، حقیقت یا خواب؟


گلگت بلتستان صدیوں پرانی تہذیبوں، مذاہب، ثقافت، روایات، سماج، نسلوں اور زبانوں کا مرکز رہا ہے۔ اس کا جغرافیہ دنیا میں اسے ایک منفرد مقام دیتا ہے۔ یہاں کے علاقوں میں ثقافت، نسل، زبان، مذہب، فرقہ، عقیدہ، سیاست، ہم آہنگی اور بہت کچھ یکجان ہو کر، خوبصورت افکار کا مظہر ہیں۔ ان سارے اوصاف میں تبدیلی اس وقت آئی، جب آج سے تقریباً پینتیس سال پہلے، یہاں فرقہ وارانہ بے امنی کی لہر آئی۔ اس کے اثرات آج تک باقی ہیں۔

قدیم گلگت بلتستان میں چھوٹی چھوٹی ریاستیں تھیں، جن پر مختلف راجاؤں نے حکمرانی کی۔ پھر ڈوگرہ راج کے ساتھ انگریز نے بھی یہاں اپنی سلطنت کے جھنڈے لہرائے۔

پاکستان بننے کے بعد، جب یہاں کے مقامی لوگوں نے ڈوگرہ کو مار بھگایا، اور پاکستان سے الحاق کیا، تو ایک نامکمل سیاسی، قانونی اور تکنیکی مسائل کے سلسلے نے جنم لیا۔ یہ مسائل ابھی تک حل طلب ہیں۔ گلگت بلتستان کے پاکستان سے الحاق کے کچھ عرصے بعد، پاکستان نے اسے کشمیر ایشو کا حصہ بنا کر معاملہ اقوام متحدہ کے پاس لے گیا۔ پھر گلگت کو ایجنسی کا درجہ دے کر، یہاں پر ایف سی آر کا نفاذ کیا گیا۔ ساتھ ساتھ گلگت بلتستان سے پوچھے بغیر 1949 ء میں ایک وفاقی وزیر اور کشمیری رہنماؤں کے درمیان معاہدہ طے پایا۔ یہ معاہدہ، معاہدۂ کراچی کے نام سے معروف ہے۔ اس معاہدے کی رو سے گلگت بلتستان انتظامی طور پر ریاست پاکستان کے زیر انتظام آ گیا۔ وفاق نے 1970 ء تک، گلگت بلتستان کے انتظام کو عوامی نمایندگی کے بغیر، کبھی ویلج ایڈ کے نام سے، تو کبھی زرعی صنعتی پروگرام کے نام پر چلایا۔ اس کے بعد مشاورتی کونسل کا قیام عمل میں لایا گیا۔ بھٹو صاحب نے 1972 ء اور 1974 ء میں ریاست ہنزہ و نگر میں تحلیل کر دیا۔

جنرل ضیا الحق نے مشاورتی کونسل کی جگہ ناردرن ایریا کونسل ایڈوائزری تشکیل دی۔ اسی دوران میں انتخابات بھی ہوئے، جو کہ 1970 ء، 1979 ء، 1983 ء، 1987 ء، 1991 ء، 1994 ء میں منعقد ہوئے۔ آرڈر 1994 ء میں ترمیم کے ذریعے ناردرن ایریاز کونسل کا نام، تبدیل کر کے ناردرن ایریاز قانون ساز کونسل رکھ دیا گیا اور اس کے ساتھ سپیکر کا عہدہ اور خواتین کی مخصوص نشستوں کا اضافہ کیا گیا۔ پھر 1999 ء اور 2004 ء میں انتخابات منعقدہ ہوئے۔

اس کے بعد ایک صدارتی آرڈر جاری کیا گیا، جس میں گلگت بلتستان کے نام کے ساتھ، صوبائی طرز کا نظام، جسے گورننس آرڈر 2009 ء کا نام دیا گیا نافذ ہوا۔ اس آرڈر کے تحت گورنر اور وزیر اعلی کے مناصب متعارف کیے گئے۔ جی بی کونسل کے ساتھ 52 شعبوں میں اس اسمبلی کو قانون سازی کا حق اور اختیار دیا گیا۔ الیکشن 2009 ء میں ہوئے۔ 2015 ء کے الیکشن کے بعد، مسلم لیگ نون نے پھر گلگت بلتستان آرڈر 2018 ء کے نام سے مالی و سیاسی اختیارات دینے کا اعلان کیا۔ اس آرڈر میں گلگت بلتستان کونسل کے اختیارات کم کیے گئے اور اس آرڈر کو عوامی سطح پر پذیرائی نہ ملی سکی اور بات سپریم کورٹ آف پاکستان تک پہنچ گئی۔

گلگت بلتستان شروع ہی سے مختلف سازشوں اور بحرانوں کا مرکز رہا ہے۔ خاص کر انگریز دور میں جب انھیں شبہ تھا کہ روس اور چین شمال کی طرف سے حملہ آور ہو جائیں گے۔ انگریز نے 1891 ء میں ہنزہ اور نگر پر حملہ آور ہو کر انھیں اپنے تابع کر لیا۔ اس وقت سے گلگت بلتستان کی اہمیت آج تک برقرار ہے، بلکہ اس میں مزید اضافہ ہوا ہے۔ شمال میں چین کی بڑھتی ہوئی معاشی طاقت اور امریکا کے ساتھ کشیدگی، روس اور ہندوستان کی بڑھتی معیشت، کشمیر کا مسئلہ اور خاص کر گلگت بلتستان اور سنٹرل ایشیا میں موجود قدرتی وسائل ان مسائل کی وجوہ ہیں۔ دنیا کی بڑھتی ہوئی معاشی طاقتوں کی نظر، گلگت بلتستان پر ہے۔ کیوں کہ گلگت بلتستان معاشی طاقتوں، مسئلہ کشمیر اور جغرافیائی لحاظ سے قدرتی وسائل کے مرکز میں واقع ہے۔

گلگت بلتستان اب پاکستان کے مستقبل کے لئے دفاعی، سلامتی، اور اقتصادی لحاظ سے اہمیت کے حامل بن چکا ہے۔ شروع میں پاکستان نے اسے مسئلہ کشمیر کا حصہ بنایا، تو معاملہ اب تک اقوام متحدہ میں ہے۔ اس کے بعد پاکستان پیپلز پارٹی، مسلم لیگ اور مارشل لا کے زمانے، سیاسی طور پر حقوق اور آئین کے نام پر یہاں کے لوگوں کو صحیح معنوں میں بے وقوف بنا چکے ہیں۔ اس کا ذکر اوپر آ چکا ہے۔ اسی تسلسل میں آخری کوشش، سرتاج عزیز کمیٹی کی صورت میں ہوئی، جسے گلگت بلتستان کے لوگوں نے رد کیا تھا اور بعد میں اس میں اصلاحات کی گئیں۔

حکومت پاکستان نے گلگت بلتستان کو عبوری صوبے کا درجہ دینے کا اعلان کیا ہے۔ اس حوالے سے یہ معاملہ تب شروع ہوا، جب ہندوستان نے اگست 2019 ء کو مقبوضہ کشمیر کے خصوصی حیثیت کا خاتمہ کر دیا۔

گلگت بلتستان کو صوبے کا درجہ دینے کے اعلان کے بعد، یہاں کے شہریوں میں کافی حد تک خوشی کی لہر آئی ہے۔ مگر وہ کلی طور پہ مطمئن نہیں ہیں۔ اس کی وجہ وفاق کی طرف سے ماضی میں کیے گئے جھوٹے وعدے ہیں۔ اب سوال یہ ہے کہ اگر اسے صوبے کا درجہ دیں گے، تو کیسے؟ اور عبوری صوبہ کیوں؟

گلگت بلتستان کے عوام کا شروع ہی سے یہ موقف رہا ہے کہ انہیں آئینی حقوق دیے جائیں۔ یعنی گلگت بلتستان کو جغرافیائی اور آئینی طور پر پاکستان کا حصہ بنایا جائے۔ ایسا ہونے سے یہاں کے لوگوں کو شناخت ملے گی۔ ملکی فیصلوں تک رسائی حاصل ہو گی۔ وہ اپنے بارے میں فیصلہ سازی میں شریک ہوں گے۔ یوں عوام با اختیار ہوں گے۔ انھیں معاشی مواقع زیادہ میسر ہوں گے۔ روزگار بڑھے گا۔ ان کی پہچان پاکستان ہو گی۔ یہاں موجود سیاحت اور معدنیات سے یہاں کے عوام کو فائدہ ہو گا اور پاکستان خوش حال ہو گا۔

گلگت بلتستان کے عوام کے لئے، ایک قانونی اور تکنیکی مسئلہ یہ بھی ہے کہ اگر صوبہ بنایا جاتا ہے، تو یہاں کے عوام سیاسی، معاشی اور معاشرتی طور پر مضبوط نہیں ہیں، تو خدشہ یہ ہے کہ پاکستان کے دوسرے صوبوں سے لوگ آ کر یہاں کے معاشی اور سیاسی معاملات پر اثر انداز ہوں گے۔ کیوں کہ اس سے پہلے یہاں پر سٹیٹ سبجیکٹ رول کے تحت، صرف مقامی لوگوں ہی کو سرکاری ملازمتیں، سیاسی عہدے اور جائیدادیں خریدنے کا حق حاصل تھا۔ پھر ستر کی دہائی میں بھٹو کے دور حکومت میں اس قانون کو ختم کیا گیا ہے۔

ایک دلچسپ بات یہ بھی ہے کہ گلگت بلتستان کو 1970 ء کے بعد، جب جب اصلاحاتی پیکیج دیا گیا، بد قسمتی سے نہ یہاں کے لوگوں کی رائے لی گئی اور نا انھیں اعتماد میں لیا گیا ہے۔ ماہرین کی رائے کے مطابق گلگت بلتستان کو صوبے کا درجہ دینے سے، مسئلہ کشمیر پر پاکستان کا موقف کمزور پڑ سکتا ہے۔ یہاں ایک بات کی وضاحت بہت ضروری ہے کہ گلگت بلتستان جغرافیائی طور پر کشمیر کا حصہ نہیں ہے، بلکہ یہ مسئلہ کشمیر کا حصہ ہے۔ اور اسے مسئلہ کشمیر کا حصہ بنایا گیا ہے۔

معاون خصوصی برائے قومی سلامتی معید یوسف نے کہا ہے کہ انتظامی مقاصد کے لئے گلگت بلتستان کو صوبہ بنا سکتے ہے۔ تا حال اس پر کوئی حتمی فیصلہ نہیں ہوا اور جو بھی فیصلہ ہو گا، وہ اقوام متحدہ کے قراردادوں کے مطابق ہو گا۔

وفاق میں برسراقتدار حکومت نے گلگت بلتستان کو نیا عبوری صوبہ بنانے کا فیصلہ ضرور کیا ہے، مگر یہ عبوری صوبہ ہو گا۔ کیسے؟ اس کی کوئی تفصیلی معلومات سامنے نہیں آئی۔ جب کہ کشمیر میں گلگت بلتستان کو صوبہ نہ بنانے کے لئے جلسے جلوس اور بیانات زور و شور سے جاری ہیں۔

معید یوسف کے اس بیان سے یہ بات واضح ہے کہ وفاق نے اس حوالے سے ابھی تک کوئی حتمی فیصلہ نہیں کیا گیا۔ گلگت بلتستان میں 15 نومبر کو الیکشن ہونے جا رہے ہیں۔ اگر وفاق میں بر سر اقتدار پاکستان تحریک انصاف نے صوبے کا شور شرابا اپنے سیاسی مقاصد کے لئے رچایا ہے، تو یہ گلگت بلتستان کے بیس لاکھ عوام کے ساتھ بہت بڑا ظلم ہو گا۔ جو پچھلے ستر سالوں سے ہوتا ہوا آ رہا ہے۔ اس دفعہ بھی گلگت بلتستان کے بیس لاکھ عوام کے خواب حقیقت بننے سے پہلے دفن ہو جائیں گا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).