مرد، ٹھرک، صنف نازک اور معاشرہ


مرد بھی عجب مخلوق ہے۔ خاتون کا نام سنتے ہی رالیں ٹپکنے لگ جاتی ہیں۔ ہر مرد خاتون کو دیکھتے ہی اپنے آپ کو ہیرو سمجھ لیتا ہے۔ دیکھتے ہی کیا، بس دیکھے ہی چلے جاتے ہیں۔ جب تک وہ نگاہوں سے اوجھل نہ ہو جائے۔ یہاں رنگ، نسل، زبان، خاندانی پس منظر، مذہب، مسلک کی کوئی قید نہیں، ہاں ایک قید مرد اپنے آپ پر خود بخود لاگو کر لیتے ہیں اور وہ ہے رتبہ، یعنی کلاس (غریب کلاس، مڈل کلاس، امیر کلاس)۔ یہ غریب کلاس والے لوگ تو امرا کی جانب بس حسرت بھری نگاہوں سے دیکھتے ہیں اور اپنی تیز سانسوں کے ساتھ بے سدھ ہو کر رہ جاتے ہیں۔

مڈل کلاس کی خواتین کو دیکھ کر ضرور ایک آدھ دفعہ کوشش کرتے ہیں کہ ان خواتین کی بھی نظر ان پر رکے اور کوئی آنکھوں ہی آنکھوں میں پیغام وصول ہو جائے۔ مڈل کلاس والے دونوں طرف منہ مارنے کی کوشش کرتے ہیں، جہاں بھی کام بن جائے۔ اور اپر کلاس والوں کی ٹھرک بھی عجب، بلکہ غضب کہانی ہے۔ یہ اس کلاس میں ہو کر بھی نوکرانیوں اور کام کرنے والیوں پر نظریں جمائے رکھتے ہیں اور موقع کو ہاتھ سے جانے نہیں دیتے۔ اس کی وجہ مجھے سمجھ نہیں آئی کہ آخر ایسا کیوں ہے؟

کچھ پارسا مرد بھی ہوتے ہیں۔ ان لوگوں کا ٹھرک سے وہی رشتہ ہوتا ہے، جو دیگر عام آدمیوں کا ہوتا ہے۔ ان کا کنٹرول ذرا زیادہ ہوتا ہے۔ دیکھتے سب کچھ ہیں، دل ہی دل میں سوچتے، ہنستے اور خوش ہوتے ہیں کسی پر ظاہر نہیں ہونے دیتے کہ ان کا ٹھرک کس حد تک پہنچا ہوا ہے۔ میں نے ایک بھلے شریف آدمی کو اس تحریر کا پہلا حصہ پڑھا کر ریمارکس لیے۔ حضور بولے: ”میں ایمان کے تیسرے درجے پر فائز ہوں۔ “باقی آپ لوگ خود سمجھدار ہیں۔ ایک دوسرے بھائی نے خود کو مڈل کلاس قرار دیتے ہوئے تحریر کے حق میں ووٹ دے دیا۔ یہ سب سادہ قسم کے ٹھرکی مرد حضرات ہیں۔

ہمارا ایک پرانا محلے دار تھا۔ کہتا تھا، ہم تو خدا کی بنائی ہوئی مخلوق کی قدر کرتے ہیں۔ ان کے حسن کی تعریف کرتے ہیں۔ اس میں کیا غلط بات ہے؟ خیر کچھ عظیم ٹھرکی ہوتے ہیں ان کا بس کم ہی چلتا ہے۔ خواتین کے معاملے میں ان کی قسمت بھی کھوٹی ہوتی ہے، لیکن ٹھرک ان پر ختم ہوتی ہے۔ کاغذ پر لفظ عورت لکھا دیکھ لیں، یا کسی کے منہ سے سن لیں، تو ان کے کان کھڑے ہو جاتے ہیں۔ سارا دھیان ادھر لگا لیتے ہیں، کہیں رنگین چادر دیکھ لیں تو اس کے پیچھے ہو لیتے ہیں۔ بھلے بعد میں پتا چلے کسی بزرگ آدمی نے اجرک اوڑھ رکھی تھی۔ ان کے لئے مشہور ہے کہ رکشہ کو بھی دوپٹہ اڑھا دو، تو اس کے پیچھے ہو لیں گے۔ ہمارے ایک ادھیڑ عمر کے کولیگ تھے، خواتین کے معاملے میں خاصے خوش اخلاق پائے جاتے ہیں۔ ان کو آج کل کی سلم لڑکیاں نہیں، بلکہ تھوڑی صحت مند لڑکیاں پسند ہیں۔ ایک انٹرنی کو ایسی نظر لگائی کہ بچاری کئی دن بخار میں مبتلا رہی۔

کہا جاتا ہے، ایک دفعہ کا ذکر ہے، کچھ دین دار لوگ، اللہ کی راہ میں سفر کو نکلے۔ سفر کے آغاز پر ایک بزرگ نے سب ساتھیوں کو سمجھاتے ہوئے کہا، اگر دوران سفر کسی خاتون پر نظر پڑ جائے، تو استغفراللہ پڑھو۔ دور افتادہ علاقوں میں سفر کرتے کرتے مہینوں بیت گئے، مگر صنف نازک کا نام و نشان نظر نہ آیا۔ جب سفر سے واپسی پر آبادی سے گزر ہوا، تو ایک شخص نے خدا جانے کس کیفیت میں استغفار کہا۔ اچانک دیگر ساتھیوں کے منہ سے بے ساختہ نکل گیا، ”کدھر کدھر؟“ (یہ بات محض سنی سنائی ہے، سو غلط بھی ہو سکتی ہے۔)

مردوں سے ایک سوال کرنا مقصود ہے اور وہ یہ کہ آخر ایسا کیوں؟ کیوں ہر عورت پر ٹرائی مارنا خود پر واجب سمجھتے ہیں؟ کیوں اکیلی عورت آپ کو ذمہ داری نہیں، موقع دکھائی دیتی ہے؟ کیوں ہر عورت کو دل میں جگہ دیے دیتے ہیں؟ کیوں اپنی نگاہ اٹھاتے ہیں کہ پھر جھکتی ہی نہیں؟ میرے خیال میں معاشرے کو اس وقت ضرورت ہے کہ مرد اپنے مردانہ ضمیر کا ثبوت دیں، نا کہ بے حیائی کا۔

سوالات اس لیے اٹھائے جاتے ہیں کہ کم از کم سوچ تو اس طرف جائے۔ ہمارے بعض قارئین کمنٹ کرتے ہیں کہ سوال کا جواب نہیں دیا جاتا۔ ارے بھائی یہ سب کی کیفیت ہے اور ہر بندے کو اپنی اس خصلت و حالت کا بخوبی اندازہ ہے، تو اپنی خصلت پر قابو پانے کے لئے جواب بھی، سب کو خود تلاش کرنا ہو گا۔ ایک بات کہنا ضروری ہے کہ ہر مرد ایسا نہیں ہوتا اور نا ہی ہر مرد عورت کو موقع سمجھتا ہے۔ ہمارے معاشرے کے مردوں کا ایک بڑا حصہ عورتوں کو ذمہ داری ہی سمجھتا ہے اور خوب نبھاتا بھی ہے۔

ٹھرک کی سڑک پر مرد اکیلے راہ گیر نہیں بلکہ یہاں خواتین کی بھی خاصی چہل پہل ہے۔ اس پر بھی بات ہو گی لیکن کسی اور نشست میں۔

وقار حیدر

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

وقار حیدر

وقارحیدر سما نیوز، اسلام آباد میں اسائمنٹ ایڈیٹر کے فرائض ادا کر رہے ہیں

waqar-haider has 57 posts and counting.See all posts by waqar-haider