ارتغرل” کے بعد عمران خان کی نئی نسل کو ترکی ناول پڑھنے کی تجویز


رمضان المبارک کے بابرکت مہینے میں وزیراعظم عمران خان کی خصوصی سفارش پر ترکی ڈرامہ سیریل ”ارطغرل“ سرکاری ٹی وی چینل پر دکھایا گیا۔ جس نے مقبولیت کے نئے ریکارڈ قائم کیے۔ اس ضمن میں بہت سے معروف پاکستانی فنکاروں کی طرف سے تنقید بھی کی گئی۔ ان کا کہنا تھا کہ اگر ہمیں بھی زیادہ بجٹ دیا جائے تو ہم بھی اپنی تاریخ و ثقافت کو سکرین کی زینت بنا سکتے ہیں۔ ہمارے پاس اتنا قلیل بجٹ ہوتا ہے جس سے ہم ساس بہو اور گھریلو ناچاقیوں پر ہی ڈرامے بنا سکتے ہیں۔ ہمارے پاس بھی ٹیلنٹ کی کمی نہی، صرف وسائل محدود ہیں۔

وزیراعظم جناب عمران خان صاحب نے نوجوانوں کے ذمہ ایک اور کام لگا دیا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ اس اکتوبر کے مہینے میں نوجوان ”محبت کے چالیس اصول (The Forty Rules of Love)“ ناول پڑھیں۔ میں ذاتی طور پر اس سے متاثر ہوا ہوں۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ یہ کتاب بھی ترکی ہی کی مصنفہ ایلف شفق Elif Shafaq کا شاہکار ہے۔ جن کو عالمی شہرت حاصل ہے۔

اس میں کوئی دو رائے نہیں  کہ کتابوں سے لگاؤ مثبت ہے اور نوجوان نسل کو کتاب سے دوستی کی ترغیب دینی چاہیے۔ مگر کیا یہ وزیر اعظم کے فرائض منصبی میں شامل ہیں؟ اگر اس کو ٹھیک فرض کر بھی لیں تو کیا ہمارے پاس اعلی پائے کے مصنفین کی کمی ہے؟ ہماری تاریخ عظیم مصنفین، ادیب اور شعرا سے بھری پڑی ہے۔ جنہوں نے دنیا بھر میں اس مٹی کا نام روشن کیا۔ آپ علامہ اقبال جیسے عظیم فلسفی کو پڑھنے کی ترغیب کیوں نہیں دیتے؟ مختصر یہ کہ ہم کب اپنے لوگوں کی قدر کرنا سیکھیں گے؟ ہمیں اپنی تاریخ، تہذیب و تمدن سے کیوں دور کیا جا رہا ہے؟

شاید اس سے کہیں زیادہ اچھا ہوتا کہ آپ وزیراعظم ہونے کی حثیت سے فیسوں میں کئی گنا حالیہ اضافے کا نوٹس لے لیتے۔ فیسوں میں اضافے کے باعث ہزاروں طلبا و طالبات اپنے تعلیمی اخراجات پورے کرنے سے قاصر ہیں۔ کتاب پڑھوانے سے کہیں زیادہ اچھا ہوتا اگر آپ طلبا و طالبات کے رکے ہوئے وظائف بحال کروا دیتے۔ آپ کہتے تھے کہ پچھلی حکومت نے طلبا کو خراب لیپ ٹاپ دیے تھے۔ ڈیٹا ایوو بھی خراب تھی۔ فرض کرتے ہیں مان لیا، مگر یہ ایک اچھی کاوش تھی، آپ کو چاہیے تھا کہ شکایات کا ازالہ کیا جاتا، اور لیپ ٹاپ سکیم کو جاری رکھتے۔

مگر بدقسمتی سے آپ کی حکومت نے طلبا کے فلاح وبہبود کے لیے بنائی گئی اسکیم کو بھی سیاست کی بھینٹ چڑھا دیا اور سرے سے ہی ختم کر دی۔ اس بات کا شدت سے احساس تب ہوا (اور ہو رہا ہے) جب کرونا کے باعث نظام زندگی مفلوج ہو کر رہ گیا تھا اور تعلیمی سرگرمیاں آن لائن موڈ میں منتقل ہو گئی تھیں۔ طلبا کو بے حد مسائل کا سامنا کرنا پڑرہا ہے۔ مگر کوئی شنوائی نہ ہو سکی۔ بہر کیف یہ ایک الگ بحث ہے۔ اصل مدعا یہ ہے کہ ”اور بھی غم ہیں زمانے میں محبت کے سوا“۔ بدقسمتی سے ہم اس مقام پر کھڑے ہیں جہاں ”ڈگری / تعلیم“ زیادہ اہم ہے بنسبت ”ارطغرل“ ڈرامہ دیکھنے کے۔ ”نصابی کتب“ زیادہ ضروری ہیں بنسبت ”غیر نصابی کتب“ کے۔ براہ کرم اصل مسائل کی طرف توجہ مرکوز کی جائے۔ ناولز کے لیے تو تمام زندگی موجود ہے۔ کبھی بھی پڑھے جا سکتے ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).