آن لائن اور ورچوئل رابطوں کے نقصانات


فون کالیں، ٹیکسٹ میسج، وٹس ایپ کال، وٹس ایپ میسج، ورچوئل اور آن لائن رابطوں اور ملاقاتوں کو ختم کریں، اور دوبارہ بالمشافہ ملاقاتوں اور ملنے ملانے کو رواج دیں۔ کیوں کہ کوئی آپ کا اپنا اور نہایت قریبی مر رہا ہے۔ جی ہاں مر رہا ہے اور آپ کو معلوم ہی نہیں ہے۔

میں اس بات کو تسلیم کرتا ہوں کہ سرمایہ دارانہ نظام نے پوری دنیا میں ایسا نفسا نفسی کا ماحول پیدا کر دیا ہے کہ % 80 افراد 14 سے 16 گھنٹے محنت مزدوری کر کے مشکل سے اپنی زندگی کی بقا کی جنگ لڑی رہے ہیں یا یوں کہہ لیں کہ وقت پورا کر رہے ہیں۔ ایسے ماحول میں رہی سہی سماجیات کو بچانے کے لئے ہم ان موبائل فونوں، لیپ ٹاپ اور اس سے ملتی جلتی گیجٹس کا سہارا لیتے ہیں اور آپس میں جڑے رہنے کی کوشش کرتے ہیں، لیکن یہ ان با المشافہ ملاقاتوں کا نعم البدل نہیں ہو سکتا، کیوں کہ ممکن ہے میں بالکل ٹھیک ہوں کا جواب دینے والا، اس وقت اسپتال کے کسی وارڈ میں لیٹا ہوا ہو۔ سب فٹ کا جواب لکھتے وقت اس کی آنکھوں میں کسی غم کے آنسو ہوں۔ بہترین زندگی گزر رہی ہے، کا جواب دینے والا کتنے دنوں سے فاقہ کشی سے ہو۔ معاشی پریشانی اور گھریلو الجھنوں میں ہو۔ وغیرہ۔

لہذا اپنوں کے لئے، اپنے نہایت قریبی لوگوں کے لئے وقت نکالیں۔ ملاقات کریں ایک دوسرے کے ساتھ شیئرنگ کریں۔ تا کہ وہ آپ کے ساتھ اپنی شیئرنگ کر سکیں۔ دل کا بوجھ ہلکا کر سکیں۔ اور کچھ نہیں تو دو اچھے بول کیا پتا، اس کی کتنی حوصلہ افزائی کر دیں۔ آپ کی اخلاقی سپورٹ اسے توانا کر دے اور آپ کا اچھا مشورہ اس کی مایوسی کو ختم کر دے۔ کیوں کہ ملنے ہی سے اگلے کے جذبات کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔ وقت گزارنے ہی سے اگلے کی اندر پلتی ہوئی پریشانیوں اور مایوسیوں کا ادراک کیا جا سکتا ہے۔ یہ مایوسی انسان کو ڈپریشن کی پہلی سیڑھی پر قدم رکھواتی ہے اور انسان کو سمجھ ہی نہیں آتی کہ وہ کب اس کی آخری سیڑھی پر پہنچ جاتا ہے۔ جہاں اسے اپنا آپ ختم کرنا ہی تمام مسائل کا حل لگتا ہے۔ ڈپریشن ایک ایسی بیماری ہے جس کا اندازہ خود مریض کو بھی نہیں ہوتا اور نا ہی ہمارے معاشرے میں ابھی تک عمومی سطح پر اسے بیماری تسلیم کیا گیا ہے۔

ایسا ہی ملتا جلتا واقعہ چند دن پہلے میرے ایک نہایت قریبی کے ساتھ ہوا۔ آج ہم ایک نہایت ہی قیمتی شخص کو گنوا بیٹھے ہیں، جو اپنے گھر کے علاوہ پورے خاندان کی رونق تھا۔ حیرانی تو اس بات کی ہے کہ کچھ مذہبی لوگوں کو یہ کہتے سنا کہ خود کشی تو اسلام میں حرام ہے اور کچھ عقل مند لوگوں کو یہ کہتے سنا کہ اسے مقابلہ کرنا چاہیے تھا، ایسے ہمت ہار دینا مسائل کا حل نہیں۔ میرا سب سے سوال ہے کہ کیا کبھی آپ نے اس پر غور کیا، آپ کا اپنا کردار اور رویہ اجتماعی مسائل اور ان کے حل کرنے کے حوالے سے کیا ہے؟

اس معاشرے میں موجود ایسا ماحول کہ جہاں زندگی گزارنا اجیرن ہوتا جا رہا ہے، اس کو ٹھیک کرنے کے حوالے سے آپ کی سوچ اور عمل کیا ہے؟ کیا اس سے بری الذمہ ہو سکتے ہیں کہ آپ انفرادی اعمال میں تو زبردست ہیں لیکن معاشرے کے اجتماعی مسائل پر، نا تو آپ غور و فکر کرتے ہیں اور نا ہی اس کی بہتری کے لئے کوئی عملی اقدامات کرتے ہیں۔ کیا اس ماحول کے برے اثرات تیزی سے ہمارے گھروں تک نہیں پہنچ رہے؟

اللہ پاک سے دعا ہے کہ ہمیں حقیقی شعور عطا کرے اور ہمیں اس قابل بنائے کہ ہم اجتماعی کردار ادا کرتے ہوئے ایسا ماحول بنا سکیں جس کے اثرات ہر انفرادی زندگی پر آئیں اور یہ معاشرہ ایک امن اور خوش حالی کا معاشرہ بن سکے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).