بسکٹ اور غیر اسلامی اشتہار


آج ہی علم ہوا کہ بسکٹ کے ایک اشتہار پر پیمرا نے خاندان کی بڑی بوڑھیوں کی طرح آنکھوں پے ہاتھ رکھ کے دہائی دی ہے کہ اوئی نوج۔ یہ دیدہ ہوائی دیکھنے سے پہلے میری مٹی کیوں نہ ٹھنڈی ہو گئی! یعنی اب چائے، بسکٹ بیچنے کو بھی ”مجرا“ کرنا پڑے گا؟ نری بے حیائی۔

اور یہ دیکھ کے مجھے خیال آیا کہ یہ تعین کس نے کیا کہ اشتہار کیسے بنوانا چاہیے؟ اس میں مشرقی روایات کا پاس رکھا جائے یا جنوب مشرقی ایشیائی روایات ”کا پاس رکھا جائے؟ نہیں ان دونوں میں غلطی بلکہ“ گناہ ”کا امکان ہے۔

مشرقی روایات میں تو چائنہ، نیپال، ترکی، ایران جانے کون کون آ جائے گا؟ اوروں کی بات تو ایک جانب ترکی ہی اپنے اشتہارات اور ڈراموں میں اتنا کچھ دکھا دیتا ہے کہ ہمارا باشرع پیمرا غش کھا جائے۔

اور جنوب مشرقی ایشیا کی بات ہو تو بھلا ہم اجنتا الورا والوں کی ثقافت تو اپنانے سے رہے، یعنی اب سنسر کی چھلنی مزید باریک کرنی پڑے گی تو کہیں جا کے شرعی طریقۂ اشتہار وجود میں آئے گا۔

اب ذرا ماضی کے اشتہارات پے نظر ڈالئے۔ چائے چاہیے کون سی جناب، کسے یاد نہیں۔ اس میں ایک خاتون بے پردہ و بے حجاب خود دکان پے کھڑی چائے کا مطالبہ کر رہی ہیں اور گا گا کے انہیں چائے پیش کی جا رہی ہے۔ استغفار۔ موسیقی اور آلات موسیقی کا استعمال وہ بھی ایک حلال بے ضرر چائے کو بیچنے کے لئے۔ گویا یہاں سے خرابی کا آغاز ہوا۔

آئیے نا آپ ہمارے گھر
نہ پڑوسی نہ

یہ بھی ایک بیہودہ اشتہار تھا جس میں ایک غیر محرم خاتون کو پڑوسی اپنے گھر آنے کی دعوت دے رہا ہے۔ بات کچھ آگے بڑھی اور ٹیپ ریکارڈر عام ہوئے، تو گول گپے تک آوارگی کی جانب مائل ہو گئے کہ ہر ٹھیلے پے اس آلۂ شیطانی سے ”گول گپے والا آیا“ بجنے لگا۔ اف میرے اللہ! ایسے راسخ العقیدہ، نیک و اسلامی تمدن کے شاہکار پکوان کو بھی اس گانے بجانے نے مکروہ کر ڈالا۔

رہی سہی کسر ترنگ کے اشتہارات نے پوری کی، جس میں پردۂ سیمیں کی تمام ہیروئنیں جلوہ افروز ہو کے ”ترنگ ہی ترنگ ہے“ کی ترنگ میں نظر آئیں۔

بات یہ ہے صاحب کہ اب طے کر لیجیے کہ فن و ثقافت کو کس طور دائرۂ اسلام میں لایا جائے۔ ایک جانب نیلم منیر کے جذبۂ حب الوطنی سے سرشار ملی گیت فلمایا جاتا ہے تو سبحان اللہ! اور اگر کوئی بسکٹ بیچنا چاہے تو لاحول ولا! قوم کو ہوش دلانے کے لئے جوش کا اشتہار اخلاقی اور ڈیری پروڈکٹ کا اشتہار غیر اخلاقی۔ تو معلوم ہوا کہ اہمیت پروڈکٹ کی ہے، نیلم کے اس آئٹم سانگ کو ملک و ملت کی فلاح اور نظریۂ پاکستان کی ترویج کے تناظر میں دیکھا جائے اور بار بار دیکھا جائے تو ہماری اقدار کو کوئی خطرہ نہیں تاہم بعینہ وہی کچھ ایک حقیر بسکٹ کی تشہیر میں استعمال ہو تو معاشرے کی بگاڑ کا باعث ہے۔

یوں بھی بسکٹ کی اوقات ہی کیا۔ اس کے لئے چلو بھر چائے میں ڈوب مرنے کا مقام ہے کہ اس نے اساس پاکستان پے بننے والی فلم کی برابری کی۔

اللہ کا کرم ہے کہ ہم نے محض چالیس بیالیس سال کی ریاضت سے ہدایت یافتہ فن و ثقافت کا سفر طے کر لیا۔ تو کیا ہوا کہ آج ہم ادب، مصوری، شاعری، مجسمہ سازی، موسیقی، فلم، ٹی وی ڈرامہ، تھیٹر، علاقائی و کلاسیکی رقص، قدیم مقامی ساز نوازی، تاریخ دانی اور کشادہ نظری کے انحطاط اور معاشرتی اقدار کے زوال کا شکار ہیں۔

جب لوک کہانیاں اور گیت خرافات، شادی بیاہ پے جھومر، فصل کٹنے پے بھنگڑا اور عرس پے دھمال فحاشی ٹھہرے۔ ہیر رانجھا، مرزا صاحباں، سوہنی مہینوال، سسی پنوں، آدم خان درخانئی کی داستانیں بے راہروی کی تبلیغ سمجھیں جائیں تو یہ سوال تو اٹھتا ہے کہ پھر ہیر وارث شاہ ”پیر وارث شاہ“ سے کیونکر سرزد ہو گئی؟ اور معاذ اللہ ہم نے تو معتبر تاریخ میں یہ بھی دیکھا کہ بابا بلھے شاہ کا سب سے دل پسند مشغلہ ناچنا تھا۔ جب بابا بلھے شاہ گھنگرو باندھ کے، میں نچ کے یار مناوناں اے، کی لگن میں مست و بے خود ہوتے تو اس میں ان کا ہمنوا کوئی اور نہیں طبلہ نواز فقیر بخش المعروف بابا دھنا ہوتا تھا جو طریقت کی سپردگی کی چھم چھم کو اپنے طبلے کی تھاپ سے ہم آہنگ کرتا تھا تاکہ اللہ کا بندا، بلھا عشق حقیقی کی معراج پا سکے۔

جب اظہار کے ہر طریقے پر پابندی ہو تو بند ذہن سڑے ہوئے جوہڑ ہو جاتے ہیں جن سے اٹھتا تعفن بتا دیتا ہے کہ اندر سوچ بھی سڑ چکی ہے۔

جہاں ایک عورت مدد مانگتی ہے تو عزت لٹا بیٹھتی ہے اور قصوروار بھی وہی بد احتیاط ٹھہرائی جاتی ہے، وہاں معاشرے کے کنویں سے نوٹسز کے ڈول نہیں بلکہ تنگ نظری، جہل اور جبری ثقافت کا مردہ کتا نکالنے کی ضرورت ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).