نواز شریف پاکستان واپس کیوں نہیں آتے؟


معاملہ جب دلیل سے بدزبانی، الزام تراشی اور بغاوت کے مقدمات قائم کرنے پر آجائے تو سمجھ لینا چاہئے کہ حکومتِ وقت کی زنبیل خالی ہے اور وہ عوام کی ضرورتیں پوری کرنے میں ناکام ہوچکی ہے۔ نواز شریف کی تقریروں اور ٹوئٹ پیغامات نے حکمران جماعت پر خوف طاری کردیا ہے۔ وزیر اعظم سے لے کر وزیروں کے بیانات اور اب بغاوت کے مقدمے قائم کرنے سے اس کا اظہار دیکھنے میں آرہا ہے۔

یوں تو پاکستانی سیاست کبھی بھی شفاف اور اصولوں پر استوا رنہیں رہی۔ ایک دوسرے پر الزام تراشی اور اقتدار کے دوران اپوزیشن کو عاجز کرنے کے ہتھکنڈے تقریباً ہر دور حکومت میں معمول رہے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ نواز شریف نے گو کہ 20 ستمبر کی تقریر میں پاکستان میں جمہوری ڈرامہ رچانے اور فیصلوں میں اداروں کی مداخلت کے بارے میں جائز اور درست باتیں کہی ہیں لیکن ان کی صداقت اور اس وقت بیان کرنے کی ضرورت پر سوال اٹھائے گئے تھے۔ مباحث میں نواز شریف کے ماضی، فوجی اداروں کے ساتھ مسلم لیگ (ن) کے مراسم اور اپنے اقتدار کے دوران مخالف جماعتوں کے ساتھ ناجائز برتاؤ کے بارے میں  متعدد حلقے پریشانی اور تشویش کا اظہار کرتے ہوئے پوچھتے ہیں کہ اب نواز شریف پر اعتبار کیوں کیا جائے؟ کیسے مان لیا جائے کہ وہ واقعی ملک میں جمہوریت کی بحالی کے لئے میدان میں نکلے ہیں اور بیان بازی اور اداروں پر سیاسی معاملات میں مداخلت کا الزام لگا نے کا مقصد، خود اپنے لئے سیاسی میدان ہموار کرنا نہیں ہے۔

یہ سوالات جائز اور درست ہیں۔ تحریک انصاف اور حکومت اگر نواز شریف کی تقریر کے بعد ان مباحث میں خود ملوث ہونے کی بجائے ملک میں گفت و شنید کے ذریعے عام لوگوں کو رائے بنانے اور نواز شریف سے سوال کرنے کا موقع دیتی تو شاید سیاسی مباحث میں مثبت پیش رفت ممکن ہوتی ۔ حکومت کی بدنیتی ، کمزوری اور بدحواسی کا راز بھی فاش نہ ہوتا۔ بدنصیبی سے کارکردگی سے تہی اور ہر شعبہ میں ناکامی کے ریکارڈ قائم کرنے والی موجودہ حکومت کو نواز شریف کی ایک تقریر سے اپنا وجود خطرے میں دکھائی دینے لگا ہے۔ اپوزیشن کے متفقہ  پلیٹ فارم سے پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ کے نام سے قائم ہونے والے اتحاد نے تو عمران خان کے استعفیٰ اور نئے انتخاب کے لئے مہم  شروع کرنے کا اعلان کیا ہے۔ تاہم نواز شریف نے مسلسل یہ مؤقف اختیار کیا ہے کہ ان کی جد و جہد عمران خان کے خلاف نہیں ہے بلکہ ان عناصر کے خلاف ہے جنہوں نے انتخابی دھاندلی کے ذریعے انہیں قوم پر مسلط کیا ۔

یوں لگتا ہے کہ نواز شریف اس مؤقف کی قوت اور اس کے جذباتی و نفسیاتی اثرات سے بخوبی آگاہ تھے۔ عمران خان اور حکومت کا ردعمل شاید ان کی توقعات کے مطابق ہی سامنے آیا ہے۔ وزیر اعظم یہ سمجھنے سے قاصر رہے ہیں کہ جلاوطنی کی زندگی گزارنے پر مجبور اور  پاکستانی عدالت سے سزا یافتہ ایک ایسا سیاسی لیڈر جسے ملک کی اعلیٰ ترین عدالت سیاست کے لئے نااہل قرار دے چکی ہے، موجودہ صورت حال میں کسی بھی انتہا تک جانے پر آمادہ ہوگا۔ خاص طور سے اسلام آباد ہائی کورٹ میں اپیل کے دوران نواز شریف کے خلاف ایک ایسے مقدمہ کے میرٹ پر گفتگو کی بجائے جسے سنانے والا جج ، ذاتی بدکرداری ناقابل اعتبار  کردار کی وجہ سے معزول کیا جاچکا ہے، اپیل کنندہ کی حاضری کے سوال پر مباحث اور ریمارکس کے بعد نواز شریف  کو مفرور قرار دینے کی کارروائی شروع کرنے کا عندیہ دیا چکا ہے۔ ایسے شخص کی مجبوری اور محدود آپشنز کا اندازہ کرنا مشکل نہیں ہونا چاہئے۔ عمران خان اس صورت حال کا ادراک کرتے ، تو وہ خاموشی سے نواز شریف کی ’بے بسی‘ کا تماشہ دیکھتے اور انہیں  خود ہی اپنے جال میں پھنسنے دیتے۔ انہیں خود کچھ کرنے کی ضرورت نہیں تھی۔

تاہم دریں حالات یہ واضح ہے کہ نہ تو عمران خان اس سیاسی حملہ کے جذباتی دباؤ کو برداشت کرسکے اور نہ یہ سمجھنے کی صلاحیت کا مظاہرہ کرپائے ہیں کہ اگر ان کی حکومت نے نواز شریف اور اپوزیشن کی مہم جوئی اور احتجاج کے اعلان کو ’چیلنج‘ سمجھ کر اس کا مقابلہ کرنا شروع کردیا تو یہ ان کی حتمی شکست کا نقطہ آغاز ثابت ہوگا۔ نوا ز شریف یا دیگر اپوزیشن لیڈروں و پارٹیوں کے پاس کھونے کے لئے کچھ نہیں ہے۔ وہ احتجاج کرنے اور حکومت پر حملے کرنے کے سوا کچھ نہیں کرسکتے ۔ حکومت کی خاموشی اپوزیشن کی اس یک طرفہ جنگ کو ناکام بنا سکتی تھی۔ تاہم عمران خان نے خود میدان میں کود کر پہلے نام نہاد این آر او نہ دینے کی بات کے ذریعے اور پھر نواز شریف پر بھارتی ایجنٹ ہونے کا الزام عائد کرکے ، ایک ایسا ماحول پیدا کیا ہے جس میں خسارہ صرف حکمران جماعت کے حصہ میں آئے گا۔

یہ کہنا مشکل ہے کہ کوئٹہ اور اس کے بعد گوجرانوالہ کی ریلی میں اپوزیشن اتحاد  کیسی کارکردگی کا مظاہرہ کرسکتا ہے۔ البتہ عمران خان کی قیادت میں خاص طور سے نواز شریف کے خلاف مہم جوئی کو شدید کرنے کے بعد ان مظاہروں  کی شدت میں اضافہ کے امکان کو رد نہیں کیا جاسکتا۔ عمران خان کی بیان بازی اور الزام تراشی نے ان کے حامیوں کو بھی مشتعل کیا ہے۔  وہ نواز شریف کے خلاف سوشل میڈیا  پر منفی پروپیگنڈا کا حصہ بنے ہوئے ہیں۔ عمران خان کے شدید حامیوں میں عملی طور سے اپوزیشن کو ’منہ توڑ‘ جواب دینے کی خواہش بھی مستحکم ہورہی ہوگی۔ بیان بازی کی حد تک  جس طرح حکومت نے نواز شریف کے خلاف محاذ گرم کیا ہے، اس کی روشنی میں اس امکان کو مسترد نہیں کیا جاسکتا کہ وہ اسی بدحواسی میں اپوزیشن کے اجتماعات میں کسی فساد کی حکمت عملی بھی اختیار کرے۔ امن وامان کی صورت حال خراب ہونے یا خدا نخواستہ کسی جانی و مالی نقصان کی صورت میں،حکومت کو بھاری قیمت ادا کرنا پڑے گی۔ عمران خان کی قیادت میں حکومت اور تحریک انصاف کو ملک دشمنی اور غداری کے تمغے بانٹنے کی مہم شروع کرنے سے پہلے ان تمام امکانات کا تفصیل سے جائزہ لینا چاہئے تھا۔

ستم ظریفی یہ ہے کہ جس وقت لاہور سے یہ خبر آرہی تھی کہ نواز شریف، مریم نواز اور مسلم لیگ (ن)  کی مجلس عاملہ کے اجلاس میں شریک متعدد دیگر لیڈروں کے خلاف ایک شہری کی درخواست پر غداری، بغاوت اور اداروں کے خلاف سازش کے الزامات میں مقدمہ قائم کیا گیا ہے، اسی وقت اسلام آباد ہائی کورٹ کے چیف جسٹس اطہر من اللہ ایسے ہی ایک ’محب وطن شہری‘ کی درخواست پر یہ فیصلہ صادر کررہے تھے کہ عدالتوں کو سیاسی معاملات میں ملوث نہ کیا جائے۔ عدالت نے نواز شریف کی تقریروں کو سیاسی بیان قرار دیتے ہوئے انہیں نشر کرنے پر پابندی لگانے کا حکم دینے سے انکار کردیا۔ واضح رہے کہ  ’غداروں‘ سے ملک کے معصوم عوام کو  محفوظ رکھنے کے لئے پاکستان الیکٹرانک میڈیا اتھارٹی پہلے ہی نواز شریف اور دیگر اشتہاری ملزمان کی تقریریں نشر کرنے پر پابندی لگا چکی ہے۔ یہ حقیقت تو عوام کے علم میں ہوگی کہ پیمرا بھی نیب ہی طرح ’خود مختار ‘ ادارہ ہے جو صرف ’قانون کے تقاضے‘ پورے کرتا ہے۔ یہ ادارے حکومت وقت کی کوئی بات نہیں مانتے لیکن کرتے وہی ہیں جس سے حکمران شاد ہوجائیں۔

نواز شریف کے خلاف حکومت کی ناکام چاند ماری میں یہ سوال بھی پس منظر میں چلا گیا ہے کہ وہ لندن میں بیٹھ کر کیوں سیاسی بیان بازی کررہے ہیں۔ اگر وہ سچے ہیں تو وطن واپس آکر عدالتوں اور سیاسی نظام کے جبر کا سامنا کیوں نہیں کرتے۔ یوں تو نواز شریف کو ہی اس کا جواب دینا چاہئے جن کا دعویٰ ہے کہ وہ ڈاکٹروں کی ہدایت پر علاج مکمل ہونے کا انتظار کررہے ہیں۔ اس کے بعد ہی وہ وطن واپس آئیں گے۔ البتہ اس سوال کا حقیقی جواب عمران خان اور حکومت کے یک طرفہ اور غیر سیاسی طرز عمل میں بھی تلاش کیا جاسکتا ہے۔ ملک میں رائے کی آزادی، سیاسی سرگرمیوں اور لیڈروں کو دیوار سے لگانے کے لئے بیانات کے علاوہ ملکی نظام کے سب اداروں کو پوری طاقت سے استعمال کیا جارہا ہے۔ نیب کے علاوہ عدالتیں یک طرفہ طور سے اپوزیشن لیڈروں پر فرد جرم عائد کرنے اور ان کی گرفتاریوں کی راہ ہموار کررہی ہیں۔

مسلم لیگ (ن) کے صدر اور اپوزیشن لیڈر شہباز شریف کو گزشتہ ہفتے نیب نے حراست میں لے لیا۔ نیب عدالتیں متعدد مقدمات میں آصف زرداری اور دیگر پر فرد جرم عائد کرچکی ہیں۔ پنجاب میں اپوزیشن لیڈر حمزہ شہباز کسی عدالت سے باقاعدہ سزا کے بغیر ایک سال سے زیادہ مدت سے جیل میں بند ہیں، بالکل اسی طرح جنگ و جیو کے مالک میر شکیل الرحمان گزشتہ سات ماہ سے قید ہیں لیکن نیب ان کے خلاف کسی عدالت سے کوئی فیصلہ لینے میں کامیاب نہیں ہؤا۔  شہباز شریف نے آج احتساب عدالت میں اپنے ساتھ روا رکھے گئے جس غیر انسانی سلوک کی کہانی سنائی ہے وہ کسی صحت مند جمہوری معاشرے میں قبول نہیں کیا جاسکتا۔ لیکن حکومت کے نمائیدوں کو کسی بھی قیمت پر اپوزیشن لیڈروں کو قید کرنا ہے یا خاموش کروانا ہے۔

ملک میں سیاسی گھٹن کے موجودہ ماحول میں نواز شریف کے لئے کسی قسم کی سیاسی جدوجہد کا کوئی امکان نہیں ہے۔ ناقص اور کرپٹ نظام ماضی میں ذوالفقار علی بھٹو کو ناکردہ گناہ کے الزام میں پھانسی چڑھا چکا ہے۔ اس بات پر حیرت نہیں ہونی چاہئے کہ نواز شریف نے بھٹو کے انجام سے عبرت حاصل کرکے ملک سے باہر رہ کر سیاسی جدوجہد کا فیصلہ کیا ہے۔ حالت تبدیل نہ کئے گئے تو مستقبل میں شاید عمران خان کو بھی یہی راستہ اختیار کرنا پڑے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

سید مجاہد علی

(بشکریہ کاروان ناروے)

syed-mujahid-ali has 2750 posts and counting.See all posts by syed-mujahid-ali