غداری کے تمغوں کی لوٹ سیل


ہاتھ سے پھسلتی ریت اور انگلیوں سے کھسکتی ریشم کی ڈور محض خواہشوں سے نہیں رکتیں۔ وقت اور حالات جس تیزی سے بدل رہے ہیں اُسی تیزی سے روک لینے کی خواہش بھی جنم لے رہی ہے۔

ڈور جس ہاتھ میں ہے وہ بھی بے یقینی کا شکار اور جس ہاتھ جا رہی ہے وہ بھی پر اعتماد نہیں۔ حاصل حصول کی اس جنگ میں ڈور حالات کے رحم و کرم پر ہے۔ کیا اب کی بار سرکتی ڈور کا سرا بچ پائے گا؟

سرگوشیوں میں ہونے والی سب باتیں کھلے عام ہو رہی ہیں۔ صرف دو تقریروں نے کئی بند ہونٹوں پر لگی مہر کو کھول دیا ہے۔ بند کمروں میں ہونے والی گفتگو چوک چوراہوں کی زینت بن چکی ہے۔ ’قومی سلامتی‘ سے منسوب تمام امور پر دل و جان سے بحث سمیٹی جا رہی ہے۔

کبھی فاطمہ جناح کے حوالے اور کبھی شیخ مجیب کی باتیں۔ ابھی ایک تقریر ہے کل کو جگہ جگہ جلسے ہوں گے۔ چھوٹی بڑی مگر کروڑوں ووٹوں کی حامل جماعتیں کیا کیا نہ کہیں گی۔ کس کس کو گرفتار کیا جائے گا، غداری کے اور کتنے تمغے بانٹے جائیں گے؟

ماضی میں گھومنے والی ٹائم مشین کو کس جگہ لا کر روک دیا جائے گا؟ ساٹھ کی دہائی میں جب قائداعظم کی بہن آئین شکن ایوب خان کے دور میں غداری کا تمغہ وصول کر رہی تھیں یا ستر کی دہائی میں شیخ مجیب الرحمن پر جن کے انتقال اقتدار کے مسئلے کو غداری کا نام دے دیا گیا تھا۔

کبھی اسی کی دہائی میں منتخب خاتون وزیراعظم سلامتی کے لیے خطرہ اور کبھی نواز شریف انڈیا کا ایجنٹ۔۔ اب ایک بار پھر غداری کے سرٹیفیکٹ، اخباروں کے کالے ہوتے صفحوں اور ٹی وی کی جگمگ جگمگ سکرینوں کو روشن نہیں بلکہ سیاہ کرنے کو تیار ہیں۔

تاریخ کے ساتھ مکالمے میں فتح آئینے کی ہے۔ جو کل ایک تقریر ہوئی اب جگہ جگہ بات ہو گی۔ یہ کیوں ہوا؟ نہیں ہونا چاہیے تھا، مگر ہو گیا؟ اب کیا ہو گا؟ ان سوالوں کی بازگشت ہے۔

نواز شریف اور اُن کے چالیس ساتھیوں پر غداری کے مقدمے دائر ہو گئے۔ پنجاب سے طویل عرصے کے بعد جاگ پنجابی جاگ کے نعرے لگ رہے ہیں۔ سندھ اور بلوچستان کے جزیروں کو آرڈیننس کے ذریعے وفاق اپنے کنٹرول میں لا رہا ہے۔ گلگت بلتستان میں انتخابات سے متعلق بے چینی ہے، یوں لگتا ہے کہ کس نے سالوں ڈھکے جھگڑے ٹوکرے کے نیچے سے ایک ایک کر کے کھول دیے ہیں۔

شیخ مجیبآخر کسی نے تو غداری کے مقدمے کا آئیڈیا دیا ہو گا جس سے ملک کے وزیراعظم نے بھی خود کو فاصلے پر کر لیا ہے۔ جس ملک کا چیف ایگزیکٹو معاملات سے لاتعلق ہو جائے وہاں مسائل کون حل کرے گا؟

اُدھر نواز شریف نے دو جمع دو پالیسی اختیار کی ہے، اب نہیں تو کبھی نہیں فارمولا۔۔۔ جیتے تو جیتے ہارے بھی تو بازی مات نہیں۔ حزب اختلاف حکومت کو نہ ہی حریف سمجھتی ہیں اور نہ ہی مد مقابل۔۔۔ پھر کس سے بات ہو گی اور کیسے بات ہو گی؟

اپوزیشن اور حکومت کے سٹیک پہ کچھ ہو یا نہ ہو طاقت کے اصل مراکز کے سٹیک پر بہت کچھ ہے۔ سرکتی ڈور کے ایک حصے کو ہاتھ میں رکھنے کے لیے جگہ تو دینا ہو گی۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).