اور وہ ایک ملک کا بادشاہ بن گیا۔ ۔ ۔ ۔ ۔


اسے کچھ بننے کا شوق تھا۔ مگر اسے نہیں پتا تھا کہ اسے کیا بننے کا شوق تھا۔ منتوں مرادوں والی اکلوتی نرینہ اولاد کچھ نہ بھی بنے تو والدین کو تسلی ہوتی ہے کہ چلو خیر ہے اولاد نرینہ تو ہے۔ جن درباروں مزاروں سے اس کے والدین اسے مانگتے تھے۔ جب وہ بڑا ہوا تو وہ انہیں کو نہیں مانتا تھا۔ خیر اس سے کیا فرق پڑتا ہے اسے تو کچھ بننا تھا۔ کچھ بہت بڑا خواب اس نے اپنی تنہائی میں پال لیا تھا۔ اسی لئے تو کہتے ہیں کہ خالی ذہین شیطان کا گھر۔ گویا تنہائی، خالی کے مترادف ہوئی۔ یعنی شیطان انکل کا وائٹ ہاؤس

اس کی ماں کو اپنے بیٹے سے اتنا پیار تھا کہ وہ جہاں بھی جاتی اسے ساتھ لے کر جاتی۔ ایک کرامت والے بزرگ ملے بتاتے ہیں۔ وہ بادشاہ جب چھوٹا تھا تو ماں کے ساتھ بازار بھی جایا کرتا تھا۔ اس دور میں اس شہر بے مثال میں بہت کم گاڑیاں ہوتی تھیں۔ سائیکل بھی خواص کی سواری تھی۔ بازاروں میں یوں گہما گہمی نہیں ہوا کرتی تھی کہ وہ اپنی ماں کے ساتھ گوشت کی ایک خاص مارکیٹ میں جایا کرتا تھا اور ان بزرگ حضرت کی گوشت کی دکان اس بازار کی تب بھی رونق تھی جیسے آج ہے۔

جب گاڑی رکتی تو ایک بچہ مسلسل غصہ میں چلا رہا ہوتا تھا۔ اس لئے اس کی ماں ان صاحب سے کہتیں کہ وہ انہیں جلد گوشت دے دیں۔ ان کا لاڈلا بچہ دیر ہو جانے پہ ناراض ہو جاتا ہے۔ مگر وہ بزرگ فرماتے کہ ہم نسلی قصاب ہیں۔ جو چاقو کی نوک دیکھ کر بتا دیتا ہے کہ یہ کس جانور پہ چل کے آیا ہے۔

اور فرماتے ہیں کہ کئی جانور بھی نسلی درویش ہوتے ہیں، نسلی صوفی ہوتے ہیں۔ جن سے قصائی پہ نظر کرم ہو جاتی ہے۔ ایسے ہی ایک جانور کی روح نکالتے ہم پہ عالم درویشی غالب آ گئی۔ اور ہم جوانی میں ہی ماتھے پڑھ لیتے تھے۔

اس بچے کی پیشانی پہ لکھا تکبر بتا رہا تھا کہ وہ ضرور کچھ بنے گا۔

پھر عشرے پار ہو گئے۔ ان خاتون نے آ نا چھوڑ دیا۔ ہمارے بچوں نے ہمارے کاروبار سنبھال لئے۔ وہ گوشت کا خاص بازار نئی آنے والی حکومتوں نے شہر سے بدبو ختم کرنے کے نام پہ کہیں اور منتقل کر دیا۔ مگر اب بھی یہ بازار، بازار حسن کی طرح اپنی پہچان آپ ہے۔

ہم نے پرانے بازار کے باہر ایک درخت کے نیچے اپنا ڈیرا ڈال لیا۔ کالج کے بچے آتے تھے حال و احوال پوچھ کر چکے جاتے تھے۔ مگر ہمیں وہ بچہ یاد تھا۔ او ر اس کی ماں کی پیشانی پہ لکھی نامعلوم پریشانی بھی یاد تھی۔

اور ایک دن ہمیں اسی درخت کے نیچے بیٹھے خبر ملی کہ ایک ضدی بچہ بادشاہ بن گیا ہے۔ بتانے والے نے اس کی آواز سنائی تو یاد آ گیا یہ وہی بچہ ہے۔ جس کی پیشانی پہ لکھا تھا یہ کچھ بنے گا۔
اور وہ بادشاہ بن گیا۔

بادشاہ بننے کے لئے اہل ہو نا ضروری نہیں ہوتا پیشانی پہ مہر ہو نا ضروری ہوتا ہے۔ باقی حالات اس کو واقعات سے ملاتے چلے جاتے ہیں۔ شخصیات مکھیوں کا چھتا خود بنا دیتی ہیں۔ سلطنت تو اس نے سنبھال لی۔ مگر اس نے تو آج تک بادشاہوں کی کہانیاں پڑھیں تھیں یا گھر کی بادشاہت دیکھی تھی۔ سلطنت چلاتے کیسے ہیں اس کا اسے علم نہیں تھا۔

اس لئے اس نے بادشاہوں کی کہانیوں کی طرح حکم صادر کر نا شروع کر دیے۔ بس وہ حکم دیتا اور وزیر غلام کی طرح اس کے حکم کی تعمیل کر دیتا۔ چند ہی ماہ میں سلطنت مذاق بن گئی۔ کہ شاہ رنگیلا کی روح بھی اس پہ آ کر ہنسا کرتی تھی۔

بادشاہ نے کسی شاہی ادارے سے سائنس کی جو تعلیم حاصل کی تھی اس کو اس نے فراموش کر دیا۔ اور نظام بادشاہی کو، پرانے بادشاہی نظام پہ استوار کر دیا جو فطرت پہ چلتا تھا۔ بادشاہ، باش شاہ۔ میں بدل گیا۔

مگر ”باش ہ“ ، کے مزے ہی اپنے ہیں
جب اس بادشاہ کو ایک شاہ زادی نے دیکھا۔ تو اس کا بھی ”باش ہی“ پہ دل آ گیا۔

وہ بھی اپنے والدین کی اکلوتی صاحب زادی تھی۔ وہاں بھی ذہن خالی میں وائٹ ہاؤس بسا ہوا تھا۔ گویا شیطان کا سایہ تھا۔

اور اس کے حوالے سے بھی قصائی جیسے جوتشی بتا رہے ہیں کہ اس کی پیشانی پہ بھی کچھ بن جانے کی تعبیر لکھی ہوئی ہے کیونکہ وہ بھی ”باشاہ“ کی مانند ایک ضدی، متکبر اور اکلوتی اولاد ہے۔

اس کے چاچا نے خود کو پہلے ”باشاہ“ کے حوالے کر دیا ہے تا کہ اس کی اکلوتی بھتیجی باقی ماندہ سلطنت کو یہ کہتے ہوئے ڈبو دے کہ

”پچھلی حکومت نے اتنی تباہی کر دی ہے کہ اب ہم بادشاہت کے سوا کچھ نہیں کر سکتے“
ٹرمپ نے جب سے یہ خواب دیکھا ہے اسے کرونا کا مرض لاحق ہو گیا ہے
مودی خوف میں ہے کہ سردی آ رہی ہے کہیں اس کو بھی یہ مرض گلے نہ لگا لے۔
بورس جانسن تنہائی میں گاتا پکڑا گیا ہے
”ساتھ جئیں گے، ساتھ مریں گے۔“

ایلف شفق ان متاثرہ ”باشاہوں“ پہ نیا ناول لکھنے کا سوچ رہی ہے۔ کیونکہ رومی بھی بس ایک ”بادشاہ یا مولوی“ ہی تھا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).