امریکی صدارتی انتخاب 2020: روس، چین اور ایران کس امیدوار کی فتح کے خواہش مند ہوں گے؟


ٹرمپ اور بائیڈن کے بینر

کیا روس چاہے گا کہ ’امریکہ عظیم طاقت رہے؟‘ کیا چین بائیڈن کی کامیابی چاہتا ہے؟ یہ ایسے سوالات ہیں جو امریکہ کے نومبر میں ہونے والے انتخابات کے موقع پر امریکہ کی انٹیلیجنس کمیونٹی کے سر پر سوار ہیں۔

انٹیلیجنس کی اعلیٰ قیادت نے انتباہ کیا ہے کہ بیرونی طاقتیں ’کھل کر یا ڈھکے چھپے انداز میں‘ امریکی ووٹروں کو کسی ایک امیدوار کو ووٹ دینے کی جانب راغب کریں گی۔ بیرونی طاقتوں سے ان کی مراد روس، چین اور ایران ہیں۔

ان تینوں کو ایک دوسرے کے ساتھ گڈ مڈ کر کے دیکھنے کی ضرورت نہیں ہے کیونکہ امریکی انٹیلیجنس کی نظر میں ان میں ہر ایک کا اپنا ایک ہدف ہے اور اپنی منفرد صلاحیتیں ہیں۔

یہ بھی پڑھیے

ڈونلڈ ٹرمپ بمقابلہ جو بائیڈن: پہلا صدارتی مباحثہ کس کے نام رہا؟

پہلا صدارتی مباحثہ: وہ رات جب امریکی جمہوریت بدترین تنزلی کا شکار ہوئی

جو بائیڈن: وہ سیاستدان جنھیں قسمت کبھی عام سا نہیں رہنے دیتی

امریکی الیکشن 2020: ڈونلڈ ٹرمپ آگے ہیں یا جو بائیڈن؟

انٹیلیجنس کے اِن تجزیوں کی اپنی جگہ تنقیدی طور پر جانچ پڑتال جاری ہے۔۔۔ ایک ’افشاگر‘ (وِسل بلور، جو مفاد عامہ میں حکام کے راز افشا کرتا ہے) نے حال ہی میں الزام لگایا ہے کہ اُسے کہا گیا تھا کہ وہ روس سے ممکنہ خطرے کی خبر کو اصل سے کم کر بیان کرے کیونکہ اس سے ‘صدر کی سُبکی ہوتی ہے۔’

اس لیے اب جبکہ انتخابات میں تقریباً ایک مہینہ رہ گیا ہے تو ووٹروں کو کیا جاننے کی ضرورت ہے؟

پتن

روس پر انٹیلیجنس کے ادارے کیا کہتے ہیں؟

جیسا کہ آپ نے دیکھا ہو گا سنہ 2016 کے انتخابات کے موقع پر اور پھر آئندہ آنے والے دنوں میں سب کی توجہ روس کی جانب ہو گئی تھی۔

مختصراً یہ کہ امریکی انٹیلیجنس کو یقین ہے کہ روس نے ڈونلڈ ٹرمپ کے حق میں امریکی انتخابات پر اثر انداز ہونے کی کوشش کی تھی۔

اس الزام سے انھوں نے یہ تاثر دینے کی کوشش کی تھی کہ ٹرمپ کی ٹیم اور روسی اہلکاروں کی ملاقاتیں ہوئی تھیں، ہِلری کلنٹن کی انتخابی مہم اور ڈیموکریٹس کے خلاف سائبر حملے ہوئے، ریاستوں کے ووٹروں کے ڈیٹا بیس کو ہدف بنایا گیا اور انٹرنیٹ پر یک طرفہ ایک جماعت کے بارے میں سچے یا جھوٹے مواد کو اجاگر کیا گیا۔

پچھلے ماہ ری پبلکن ارکان کی اکثریت والی سینیٹ کے ایک پینل نے اس نظریے کو یہ کہہ کر مزید تقویت دی کہ روس ٹرمپ کی فتح چاہتا ہے، تاہم رپورٹ کا اختتام اس بات پر کیا کہ اُن کی انتخابی مہم کسی بھی بیرونی حملے کا نشانہ بن سکتی ہے البتہ یہ کہنے سے گریز کیا کہ ان کی مہم کے پس پشت کوئی مجرمانہ سرگرمی ہو رہی ہے۔

اب سنہ 2020 کے انتخابات میں ہلری کلنٹن کی جگہ جو بائیڈن امیدوار ہیں۔ امریکہ کی کاؤنٹر انٹیلیجنس اینڈ سکیورٹی سینٹر کے سربراہ ولیم ایوینینا نے ایک رپورٹ جاری کی ہے جو ان کے خیال میں امریکی عوام پڑھیں گے۔ اس رپورٹ میں وہ کہتے ہیں کہ روس ’ایسے اقدامات کا استمال کر رہا ہے جن کا بنیادی مقصد سابق نائب صدر کو رسوا کرنا ہے۔‘

امریکی سراغ رساں ادارے، ایف بی آئی کے سربراہ کرسٹوفر رے کے مطابق، روس نے مداخلت کرنا بند نہیں کی، سنہ 2018 کے کانگریس کے انتخابات کے موقع پر جو انھوں نے کیا وہ ایک لحاظ سے ’سنہ 2020 کے بڑے شو کے لیے ڈریس ریہرسل تھی۔‘

روس تسلسل کے ساتھ بیرونی ممالک کے انتخابات میں مداخلت کا انکار کرتا رہا ہے۔ اس برس کے آغاز میں کریملن کے ایک ترجمان نے مداخلت کے الزامات کو ’بے بنیاد اعلانات‘ کہا جن کا ’حقیقت سے کوئی تعلق نہیں ہے۔‘

اس کے قطع نظر کہ آیا روس ڈونلڈ ٹرمپ کی دوسری صدارتی معیاد چاہتا ہے یا نہیں، تجزیہ نگاروں کی جانب سے اکثر ایک اور نکتہ نظر پیش کیا جاتا ہے کہ روس اپنے مخالف ممالک کے بارے میں ایک بڑا ہدف رکھتا ہے تاکہ وہ ان میں طوائف الملوکی پھیلا کر انھیں غیر مستحکم کیا جا سکے۔

مثال کہ طور پر اس برس یورپین یونین کی ایک دستاویز میں یہ الزام لگایا گیا ہے کہ روس کی جانب سے ایک ایسی مہم شروع کی گئی جس سے کورونا وائرس کے بارے میں جعلی خبریں پھیل سکیں تاکہ یورپین یونین کے لیے اس سے نمٹنے میں مشکلات پیدا ہو سکیں۔ روس نے اس دعوے کو بے بنیاد قرار دیا ہے۔

امیدوار کیا کہتے ہیں؟

جو بائیڈن نے ابھی حال ہی میں روس کو حریف ملک کہتے ہوئے خبردار کیا کہ ’روس کو قیمت ادا کرنا پڑے گی‘ اگر اُس نے مداخلت کا سلسلہ جاری رکھا۔

صدر ٹرمپ بار بار روس کی مداخلت کے الزامات کو اصل سے کم کر کے بیان کر رہے ہیں اور اس طرح وہ اپنی ہی حکومت کے انٹیلیجنس کے ماہرین کے تجزیوں سے مختلف بات کر رہے ہیں۔

سنہ 2018 میں روسی صدر ولادیمیر پوتن سے ملاقات کے بعد ان سے روسی صدر کے بارے میں امریکی انٹیلیجنس کے تجزیے کے بارے میں جب پوچھا گیا تھا تو صدر ٹرمپ نے کہا کہ ’صدر پوتن کہتے ہیں کہ روس نے ایسا نہیں کیا اور میں کوئی وجہ نہیں سمجھتا ہوں کہ وہ ملک کیوں ایسا کرے گا۔’ بعد ازاں میں انھوں نے کہا کہ ان سے بولنے میں غلطی ہوئی۔

شی جن پنگ

چین پر انٹیلیجنس کیا کہتی ہے؟

ٹرمپ کی انتظامیہ کے اہم ارکان کہتے ہیں کہ اصل میں یہ چین ہے نہ کہ روس جو اس برس کے انتخابات کے لیے خطرہ بن سکتا ہے۔

امریکہ کے اٹارنی جنرل ولیم بار کہتے ہیں کہ ’میں نے خود انٹیلیجنس رپورٹیں دیکھی ہیں۔ اس لیے میں اس نتیجے پر پہنچا ہوں۔’ ایوانِ نمائندگان میں انٹیلیجنس کمیٹی کے ڈیموکریٹس پارٹی سے تعلق رکھنے والے سربراہ ایڈم شِیف نے ولیم بار پر دروغ گوئی کا الزام عائد کیا۔

ان کے خیال میں مسٹر ایوینینا نے کہا ہے کہ امریکی انٹیلیجنس کو یقین ہے کہ ’چین صدر ٹرمپ کو ترجیح دے گا ۔۔۔۔ جن کے بارے میں بیجنگ کا خیال ہے کہ ۔۔۔ اگر وہ انتخابات جیت نہ سکے تو ایک بے یقینی پیدا ہو گی۔‘

وہ کہتے ہیں کہ ’چین اپنی کوششوں کا دائرہِ اثر پھیلا رہا ہے تاکہ وہ امریکہ میں بننے والی پالیسیوں پر اثر انداز ہو سکے، ایسی شخصیات پر دباؤ ڈال سکے جو چین کے خیال میں اس کے مفادات کے خلاف ہیں اور چین کے خلاف تنقید کو روک سکے۔‘

لفظ ’اثر انداز‘ کا استعمال قابلِ غور ہے۔ اگرچہ چین کے پاس رائے عامہ پر اثر انداز ہونے کے دیگر غیر مرئی طریقے موجود ہیں۔

سٹینفورڈ انٹرنیٹ آبزرویٹری کی فہرست کے مطابق ’مواد کا ذخیرہ، ماہرین کی ایک فوج جسے آسٹروٹرف کہا گیا ہے، اور سوشل میڈیا پر بہت سارے جعلی اکاؤنٹس اور بہت سارے سوشل میڈیا چینلز، لیکن چین کس حد تک ان کا استعمال کرنے پر آمادہ ہے، یہ ابھی غیر واضح ہے۔ مسٹر ایوینینا کہتے ہیں کہ ’چین مسلسل جارحانہ کھیل کے فائدے اور نقصانات کا جائزہ لیتا رہے گا۔‘

شاید ان کا مقصد چین کے نکتہ نگاہ کو دنیا کے سامنے پیش کرنا ہو۔ فیس بک نے حال ہی میں چین سے جُڑے کئی اکاؤنٹس بند کیے ہیں جن میں کئی ایک کا چینی سرکار سے رابطہ نکلتا تھا، جن میں چند ایک بحیرہِ جنوبی چین میں چینی مفادات پیش کرتے تھے۔

چین نے یہ کہتے ہوئے دوسرے ممالک کے اندرونی معاملات میں مداخلت کے الزامات کی تردید کی ہے کہ وہ ’اس میں دلچسپی نہیں رکھتا ہے یا وہ یہ کرنا نہیں چاہتا ہے۔‘

امریکی صدارتی امیدوار کیا کہتے ہیں؟

امریکی صدر ٹرمپ نے توثیق کرتے ہوئے ایک انتہائی بائیں بازو کی امریکی ویب سائٹ ’برائٹ بارٹ‘ کے اس آرٹیکل کو ری ٹویٹ کیا ہے جس میں یہ دعویٰ کیا گیا ہے کہ ‘لگتا ہے کہ چین جو بائیڈن کو صدارتی انتخاب میں کامیاب دیکھنا چاہتا ہے۔’

‘مسٹر ٹرمپ نے جو بائیڈن کے بیٹے کی جانب اشارہ کرتے ہوئے لکھا کہ ‘بلاشبہ وہ بائیڈن کو چاہتے ہیں۔ میں نے چین سے اربوں ڈالر اگلوائے ہیں اور انھیں امریکی کسانوں کے اور امریکی خزانے میں جمع کرایا ہے۔ امریکہ پر چین کا قبضہ ہو جائے گا اگر بائیڈن اور ہنٹر کامیاب ہو گئے۔‘

امریکہ اور چین کے تعلقات میں اس وقت بہت زیادہ سرد مہری ہے، کورونا وائرس سے لے کر ہانگ کانگ میں چین کے سکیورٹی قانون کے نفاذ تک ہر معاملے میں اختلافات ہیں۔

جو بائیڈن کو اس وقت اس الزام پر کہ وہ چین کے بارے میں نرم گوشہ رکھتے ہیں، بار بار وضاحت دینا پڑ رہی ہے، جس کے لیے انھیں وعدے کرنا پڑ رہے ہیں کہ وہ انسانی حقوق اور دیگر معاملات میں سخت موقف اختیار کریں گے۔ لیکن ڈیموکریٹس کہتے ہیں کہ جب انتخابات کا معاملہ آتا ہے تو اس میں روسی زیادہ جارح نظر آتے ہیں۔

امریکہ کس بات سے زیادہ ڈرتا ہے؟ اس کے جواب کا انحصار اس بات پر ہے کہ آپ کس سے یہ سوال پوچھ رہے ہیں۔

سکیورٹی نامہ نگار گورڈن کوریرا کا تجزیہ


سنہ 2016 میں امریکی حکومت اور سوشل میڈیا کمپنیوں نے روسی مداخلت کے خلاف مزاحمت میں سستی کا مظاہرہ کیا تھا۔ اس مرتبہ کوئی بھی خاموش بیٹھنا نہیں چاہتا ہے لیکن اب پورا منظر نامہ بدل چکا ہے۔

مختلف کمپنیاں اب بڑے زور و شور سے اپنے اقدامات کا ڈھنڈورا پیٹ رہی ہیں اور امریکی انٹیلیجنس کمیونٹی تکرار کے ساتھ اپنے تجزیے شائع کر رہی ہے۔

لیکن یہ معاملہ اب بہت زیادہ سیاسی تقسیم کا سبب بن رہا ہے۔

ڈیموکریٹس کا ہدف وہ روسی مداخلت ہے جس میں وہ صدر ٹرمپ کو کامیاب ہونے میں مدد دے رہا ہے جبکہ صدر ٹرمپ کے حامی چین کی طرف توجہ دے رہے ہیں جو ان کے دوسری مرتبہ کامیابی کی راہ میں رکاوٹیں کھڑی کر رہا ہے۔

قومی سلامتی کے اداروں سے وابستہ اہلکار کوشش کر رہے ہیں کہ وہ اس نازک معاملے پر احتیاط برتیں اور کہہ رہے ہیں کہ دونوں ہی باتیں ہو رہی ہیں (ساتھ ہی کچھ حلقے ایک کم درجے کے ایرانی اثر کا بھی اشارہ دے رہے ہیں)، لیکن اس بات سے گریز کر رہے ہیں کہ ان کے آپس میں اختلافات کھل کر سامنے آئیں، کیونکہ انھیں ڈر ہے کہ انھیں جماعتی سیاست کی لڑائی میں گھسیٹ لیا جائے گا۔

روسی مداخلت اب تک بہت منظم طریقے سے اور چھپ چھپا کر ہو رہی ہے لیکن اس سطح کی نہیں ہے یا اس طرح کی اثر انگیز نہیں ہے جیسے سنہ 2016 میں ڈیموکریٹس کے کسی لیڈر کی ای میل ہیک کر کے اور اسے افشا کر کے کیا گیا تھا۔

واردات کے طریقے بھی اب بدل چکے ہیں جن کے ذریعے مداخلت کو اس طرح بدلا جاتا ہے کہ وہ اصل امریکی خبر اور مقامی پوسٹ لگتی ہے بجائے اس کے کہ وہ جعلی خبر یا جعلی مواد لگے۔

اور اب اس بارے میں پریشانی ہے کہ انتخابات سے قبل مہم کے آخری دنوں میں اور بھی زیاد مواد سامنے آئے گا جس میں انتخابی عمل کی ساکھ کو نقصان پہنچانے نے کی کوشش بھی کی جائے گی۔

ایران

ایران کے بارے میں انٹیلیجنس کمیونٹی کیا کہتی ہے؟

اہنے بیان می مسٹر ایوینینا کہتے ہیں کہ ایران صدر ٹرمپ کی دوسری صدارتی معیاد میں کامیابی کے خلاف ہے کیونکہ اسے یقین ہے کہ اگر وہ صدر رہتے ہیں تو اس کے نتیجے میں ’ایران پر امریکی دباؤ کے تسلسل میں نکلے گا تاکہ وہ حکومت تبدیل کروا سکے۔‘

ان کے مطابق ایران کی کوششوں کا محور ‘آن لائن طریقے سے اثر انداز ہونا ہو گا مثال کے طور پر سوشل میڈیا پر غلط اطلاعات پھیلانا اور امریکہ مخالف خبروں کو دہرانا۔’

امریکی انٹیلجینس کے الزامات کی توثیق کرتے ہوئے کمپیوٹر کی ایک بڑی کمپنی مائیکروسوفٹ نے کہا ہے کہ روس، چین اور ایران سے رابطہ رکھنے والے ہیکر کوشش کر رہے ہیں کہ امریکی انتخابات میں حصہ لینے والی شخصیات کی جاسوسی کریں۔

ایران کے بارے میں مائیکروسوفٹ کا کہنا ہے کہ ایک ایرانی گروپ جو ‘فاسفورس’ کہلاتا ہے، اس نے کامیابی کے ساتھ وائٹ ہاؤس کے اہلکاروں اور ان کے انتخابی مہم کے سٹاف کے اراکین کے اکاؤنٹس تک مئی اور جون میں رسائی حاصل کر لی تھی۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32296 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp