کھلی اور بند آنکھوں کے خواب


عام زبان میں خواب دو طرح کے ہوتے ہیں۔ ایک وہ جو انسان سوتے ہوئے دیکھتا ہے اور دوسرے وہ جو کھلی آنکھ سے دیکھتا ہے یعنی ان کو سوچتا ہے۔ اکثر سوچے جانے والے خواب ہی نیند میں دیکھنے والے خوابوں کا ذریعہ بن جاتے ہیں اور اس کے بر عکس کبھی کبھی بند آنکھوں والے خواب کھلی آنکھوں والے خواب کو جنم دینے کا سبب بنتے ہیں۔ نفسیات کی تکنیکی زبان میں خواب صرف اسی کو کہتے ہیں جو نیند کی حالت میں آئے۔

بند آنکھوں والے خوابوں پر انسان کا کنٹرول نہیں ہوتا۔ اسی لئے وہ کبھی اس کو آسمان سے اوپر بلندیوں میں لے جاتے ہیں اور کبھی پست ترین وادیوں میں گرا دیتے ہیں۔ لیکن کھلی آنکھ والے خواب زیادہ تر انسان کی اپنی بلندی، کامیابی یا انا کی پذیرائی کے بارے میں ہوتے ہیں۔

جب بچے اپنے خوابوں کے بارے میں باتیں کرتے ہیں کہ وہ بڑے ہو کر یہ کریں گے یا وہ بنیں گے تو ہمارے معاشرے کے بڑے اکثر ان کا یا ان کے خوابوں کا مذاق اڑاتے ہیں یا اہمیت نہیں دیتے ہیں۔ اس طرح کے عمل سے ہم ان کی فکر کو محدود کر دیتے ہیں اور وہ کسی بڑے مقصد کے بارے میں سوچنا بند کر دیتے ہیں۔ مختصراً یہ کہ وہ اپنی صلاحیتوں کی خود ہی حدود مقرر کر لیتے ہیں اور ان کی افزائش کرنے کے بجائے ان کو بروئے کار نہیں لاتے۔ ہم کئی ایسی مثالیں پڑھ چکے ہیں کہ کسی بچے نے جو خواب سوچا وہ کر دکھایا۔ ہمیں بچوں کے ذہنی پر کاٹنے کے بجائے ان کی فکر کو پرواز کی پوری اجازت دینی چاہیے بلکہ اس اڑان میں ان کی مدد کرنا چاہیے۔

اگر پختہ عمر کے لوگ کسی خواب کو بارہا کھلی آنکھوں سے دیکھتے ہیں تو یہ خواب ان کے کسی جنونی شوق کا سبب بن کر زندگی کو پر مقصد بنا سکتا ہے اور وہ انسان پھر Joy of Becoming سے سرشار ہو سکتا ہے۔ لیکن اگر کوئی انسان کوئی خواب تو سوچتا رہے لیکن اس کو عملی جامہ پہنانے کے لئے مثبت قدم نہ اٹھائے تو ایسے شخص کی مثال شیخ چلی کی سی ہے۔ مارٹن لوتھر کنگ کا یہ ایک مشہور جملہ ہے (ترجمہ) ”میرا ایک خواب ہے۔“ وہ اس خواب کو ناگہانی موت کی وجہ سے مکمل نا کر پائے لیکن نسلی امتیاز کے خلاف قانون سازی ان کی اہم تاریخ ساز کامیابی ہے۔ ایک دوسری مثال شمس تبریزی کی ہے۔ انہوں نے ایک خواب کھلی آنکھوں سے دیکھا تھا کہ ان کو ایک ایسا ساتھی ملے جسے وہ اپنے حاصل شدہ رموز و اسرار کے علم کو منتقل کر سکیں۔ یہ ساتھی ان کو جلال الدین رومی کی شکل میں مل گیا۔

پھر کچھ لوگ ایسے بھی ہیں جو دکھوں بھری زندگی گزار رہے ہوتے ہیں لیکن خوابوں کے سہارے اپنی مصیبتوں کے وزن کو ہلکا محسوس کرتے ہیں جیسا کہ کسی شاعر نے کہا ہے ؎
خواب ادھورے سہی خواب سہارے تو ہیں

خواب کے ادھورے ہونے کے بارے میں میڈونا نے اپنے ایک نغمے میں کیا خوب گایا ہے ؎
(ترجمہ)
یہ ہے ایک خواب کی طرح نہ اس کی انتہا نہ کوئی ابتدا

نیند میں خواب آنے کے بارے میں ماہر نفسیات ڈاکٹر سگمنڈ فرائڈ ( 1856۔ 1939 ) کے نظریات بہت مشہور ہوئے۔ ان کے مطابق وہ خواہشات جو سماجی پابندیوں کی وجہ سے اظہار کرنے کے قابل نہیں ہوتیں خواب ان ناقابل قبول خیالات اور خواہشات کو عملی جامہ پہنانے کے لئے بے ہوش دماغ کو اجازت دیتے ہیں۔ بند آنکھوں کے خوابوں کی دنیا کے ایک دوسرے ماہر کارل ژونگ ( 1875۔ 1961 ) کا نظریہ ہے کہ خواب اپنے لاشعور کے ساتھ پیغام رسانی اور اسے سمجھنے کا ذریعہ ہیں۔ خواب جاگتے ذہن سے اس کے سچے احساسات کو چھپانے کی کوشش نہیں کر رہے ہیں، بلکہ وہ اس کے لاشعور میں ایک کھڑکی کی مانند ہیں۔ وہ انسان کی زندگی کے مسائل کے حل کرنے کے لئے رہنمائی بھی کرتے ہیں۔

نیند میں آنے والے خواب کی میعاد اوسطاً پندرہ منٹ ہوتی ہے۔ بند آنکھوں والے خواب آنے کے بارے میں سب سے زیادہ دلچسپ بات یہ ہے کہ جب ہم کوئی خواب دیکھ رہے ہوتے ہیں تو اس لمحہ اس خوابی واقعہ کو حقیقت سمجھ رہے ہوتے ہیں۔ جب ہم شعور میں آتے ہیں تو ہمیں پتا چلتا ہے کہ یہ سب ذہن کا محض ایک اختراع تھا، بالکل اسی طرح جیسے ہمارے شب و روز جن کو ہم اپنی آنکھوں سے دیکھتے ہیں مگر اپنے ماضی کے متعلق سوچوں کی دلدل میں پھنس کر اور مستقبل کی فکر میں لگ کر گزار دیتے ہیں۔ اگر ہم جاگ جائیں یعنی اگر اپنی سوچوں پر قابو پا لیں تو اپنے ذہن کو ایک درجہ اور اوپر اعلیٰ شعور Higher Consciousness کی دنیا میں لے جا سکتے ہیں۔ تب ہمیں احساس ہو گا کہ یہ روزمرہ کی زندگی ایک مکمل حقیقت نہیں تھی بلکہ ماضی اور مستقبل کے بارے میں خود کی بنائی ہوئی کہانیاں بھی اس میں شامل تھیں۔
میرا نفسیات کے علم سے رشتہ محدود مطالعہ کی حد تک ہی ہے۔ اس لئے مجھے امید ہے کہ ماہر نفسیات اس مضمون کو پڑھ کر اپنی پیشہ ورانہ رائے سے نوازیں گے۔

حبیب شیخ
Latest posts by حبیب شیخ (see all)

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).