باؤ جی، الطاف بنیں گے یا پھر؟


قومی سلامتی اور وطن عزیز کی بقا سے زیادہ کوئی شخص اہمیت کا حامل نہیں۔ نئے سیاسی ڈاکٹرائن میں قریب تمام جماعتوں نے ماضی سے سبق سیکھنے کے بجائے، پرانی روش کو دُہرانے کا سلسلہ شروع کیا ہے۔ میری ذاتی رائے میں سیاسی معکوس کی جانب سفر ہے، جس کے مضر نتائج، آج تک عوام بھگت چکے۔ سیاسی جماعتوں اور ریاستی اداروں کے درمیان چپقلش کا تاثر ہی نہیں بلکہ واضح طور پر محاذ آرائی ابھر کر سامنے آ چکی ہے۔ پاکستان مسلم لیگ نون کے بانی، میاں نواز شریف نے قومی راز سے افشا کے حوالے سے جو بیانیہ اختیار کیا، ذاتی طور پر مجھے اس اقدام سے دلی تکلیف پہنچی۔ ہر شخص اپنا ذاتی نظریہ رکھتا ہے، اصولی موقف پر ڈٹا رہتا ہے، لیکن قومی رازوں کے افشا سے، جہاں آئین سے حلف لینے کی عہد شکنی ہوتی ہے تو دوسری جانب ملک دشمن عناصر کو ہرزہ سرائی کا موقع مل جاتا ہے۔

کسی بھی سیاسی جماعت کو ایشو پر احتجاج کا مکمل حق حاصل ہے، اس میں کوئی مسئلہ نہیں، جب تک پر امن ہیں تو کوئی رد عمل نہیں، لیکن عدم برداشت کے اس ماحول میں فریقین پر ذمے داری بڑھ جاتی ہے۔ سیاسی درجہ حرارت بڑھانے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ کوئٹہ، کراچی اور گوجرانوالہ جلسہ سیاسی اہمیت کا حامل ضرور ہو گا، لیکن اس سے حکومت نہیں جائے گی۔ اگر کچھ گیا تو میاں نواز شریف کا بیانیہ جائے گا۔ سیاسی شخصیات یا غیر منتخب نمائندے، جب اقتدار میں آتے ہیں، تو کئی اہم قومی و شخصی رازوں کے امین بن جاتے ہیں۔ ان پر قوم سمیت ریاست کے ادارے اعتماد کرتے ہیں کہ جو کچھ ان کیمرا بریفنگ دی جائے گی، وہ ملکی سلامتی کو ملحوظ خاطر رکھتے ہوئے، اپنی جان قربان کر دیں گے، لیکن راز افشا نہیں کریں گے۔

ریاست نے اپنے دیرینہ دشمن بھارت کے جنگی جنون سے نمٹنے کے لئے اپنے وسائل و دشمن کی جارحیت کو روکنے کے لئے موثر اقدامات کیے ہیں۔ اب انہیں مشکوک بنانا اور عالمی برداری کو جذباتی کھوکھلا بیانیہ دینا، سیاسی عدم برداشت کا مظاہرہ قرار پائے گا۔ پارلیمنٹ کو با اختیار بنانے کی ضرورت، روز اول سے رہی ہے، لیکن تلخ زمینی حقائق ہیں کہ جس جمہوریت کو سیاسی جماعتیں نظام کا منبع سمجھتی ہیں، انہوں نے خود ہی ایسے راستے عوام سے مخفی رکھے، جس کی وجہ سے جمہوری تسلسل میں رکاوٹیں پیدا ہوتی رہیں۔

ان اقدامات کے اصل ذمے دار سیاسی قوتیں ہی ہیں، جو غیر جمہوری راستوں کی سرنگیں بناتی ہیں۔ میرے سامنے سیدھا سا سوال ہے کہ اگر سسٹم سے عسکری قیادت کو ہٹا دیا جائے، تو سیاسی قیادت کے پاس کیا بچے گا۔ کیا کسی بھی سیاسی قیادت میں پاکستان میں کبھی شفاف الیکشن کروانے کی روایت ڈالی۔ کیا کسی نے بھی انتخابی شکست تسلیم کی۔ یقینی طور پر یہ منظر آج تک کم ازکم مجھے دیکھنے کو نہیں ملا۔

سیاسی جماعتوں کے اندر خود بے رحم آمریت ہے، تنظیم سازی اور پارٹی منشور کے مطابق چلنے کی روایات توڑنے میں سیاسی جماعتیں ہی پہل کرتی ہیں۔ الیکٹیبل کو کون منتخب کراتا ہے۔ ہارس ٹریڈنگ کون کراتا ہے۔ جلسوں میں ریاستی اداروں کے خلاف دشنام طرازی کس نے نہیں کی۔ سول عسکری قیادت کے ان کیمرا بریفنگ کو میڈیا میں ذرائع کے نام پر اخفا کس لئے کیے جاتا ہے۔ یہ کس قسم کی جمہوریت ہے کہ جس کا پاس کسی نے بھی نہیں رکھا۔ کون سی سیاسی جماعت یہ دعویٰ کرتی ہے کہ اس نے کبھی چور دروازے سے آنے کی کوشش نہیں کی۔ میرٹ کی دھجیاں کس نے نہیں اڑائی۔ سینیئر کو جونیئر اور جونیئر کو سینئر کس نے نہیں بنایا۔ ملک کا کون سا ادارہ ہے، جسے با اختیار و غیر جانب دار بنانے کے بجائے، اپنی ذیلی تنظیم نہیں بنائی۔ سیاست و صحافت کا طالب علم ہونے کی حیثیت سے مجھے یہ کہنے میں کوئی عار نہیں کہ غلطی ہم سب کی ہے۔

پاکستان مسلم لیگ نون یا ایم کیو ایم کے بانی ہوں، سب مایوسی پھیلاتے پھیلاتے اپنے حدود سے باہر نکل گئے۔ قومی خزانے و اقتدار پر مسلط کیے جانے والے وہ شخصیات، جنہیں آج پاکستانی عوام یاد بھی نہیں۔ ریلیاں ہوں، جلسے ہوں یا پھر دھرنے یا احتجاج، ایک ایسی مملکت میں جہاں سیاسی شعور کا پودا ابھی تک تناور نہیں بن سکا، ایک قوم نہیں بن سکی اس پر کیا بحث کی جائے۔ ان سب نے مایوسی کے علاوہ قوم کو دیا ہی کیا ہے۔ ہر جانے والا برا اور آنے والے اچھا قرار دیا جاتا ہے۔ چند مہینوں میں پھر وہی اچھا برا بن جاتا ہے۔ ماتھے کے بل کم نہیں ہوتے، کوئی خود سے قانون کے سامنے بے خوف و خطر پیش نہیں ہوتا۔

بے ہنگم ہجوم کے ساتھ احتساب کے اداروں کے سامنے مجمع لگانے کا شوق چڑھا رہتا ہے۔ انصاف ملنے میں تاخیر کا سبب بھی تو ہمارا سیاسی جماعتیں ہی ہے، کیوں کہ ان کی ترجیحات میں سستا، فوری اور شفاف انصاف کبھی رہا ہی نہیں۔ انصاف کے تقاضے سیاسی فروعی مفاد سے بال اتر ہو کر ملکی سلامتی و عوام کے وسیع تر مفاد میں پورے کیے جاتے، تو دھندا تو سب کا ٹھپ ہوجانا ہی تھا۔ با الفاظ دگر اپنے پیروں میں کلہاڑی کون مارتا ہے۔

ملکی ترجیحات بالکل غلط سمت پر جا رہی ہیں۔ ترجیحات میں تسلسل و برد باری نہیں۔ مستقبل بینی پر انتہائی محدود رسائی ہے۔ فروعی مفادات کو فوقیت دی جاتی ہے۔ ہر حکومت میں اقربا پروری، بیورو کریسی پر کنٹرول، سرخ فیتے، ٹھیکوں میں کک بیک اور قومی رازوں کو افشا کرنے کی دھمکیاں، عسکری قوت کو متنازع بنانا، غداری کے سرٹیفکیٹ تھوک کے حساب سے تقسیم کرنا اور سیاسی انتقام کے نام پر ہر حکومت میں قانون کے بجائے غیر جمہوری روایات کی بال ادستی کو فروغ دینا، ہمارا سیاسی و معاشرتی کلچر بنتا جا رہا ہے۔ سیاست کی حدود میں رہتے ہوئے ارباب اختیار یا حزب اختلاف ہوں، انہیں یہی مشورہ ہے کہ خدارا ملکی سلامتی کے لئے مزید مشکلات پیدا نہ کریں۔ جس ٹہنی پر بیٹھے ہیں، اس کو مت کاٹیں، یہ ان کے اور وطن عزیز کے حق میں بالکل بھی بہتر نہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).