میرے ضعیف والدین پر غداری کا مقدمہ


برطانیہ راج نے 1901 میں کالونائزیشن کے خلاف پشتونوں کی مزاحمت کو دبانے کے لئے ایف سی آر جیسے کالے قانون کو پشتونوں کے علاقوں میں نافذ کیا تھا، اس قانون کے تحت خاندان کے ایک فرد کے جرم مزاحمت کی سزا سارے قبیلے یا خاندان کو دی جاتی تھی، اپیل اور انصاف کے اصولوں کا کوئی تصور نہیں تھا، انگریز راج کے خلاف مزاحمت کرنے والوں کو غداری کی سزا دی جاتی تھی۔ آج جب میں اپنے ماں باپ کے ساتھ پاکستانی اداروں کے سلوک کو دیکھتی ہوں تو یہی محسوس ہوتا ہے کہ پشتون آج بھی غیرعلانیہ طور پر ایف سی آر کے نیچے ہی زندگی گزار رہے ہیں، جہاں امن، انصاف اور انسانی حق کی آواز بلند کرنے والوں پر غداری کے مقدمے بنائے جاتے ہیں، اور ایک فرد کی ریاستی جبر کے خلاف مزاحمت کی سزا سارے خاندان کو دی جاتی ہے۔

میں نے 16 سال کی عمر میں پختونخوا میں لڑکیوں کے حقوق کے لئے کام شروع کیا تھا تاکہ پشتون لڑکیوں کو پدرشاہی کے چنگل سے آزاد کرانے میں کردار ادا کر سکوں۔ جب سوات پر طالبان نے قبضہ کیا تو اس کے بعد ارادہ کر لیا تھا کہ نوجوانوں کو طالبانائزیشن اور انتہا پسندی سے بچانا ہے، ان کے ساتھ مل کر اس ملک میں امن لانا ہے اور اسی لئے یوتھ پیس نیٹ ورک پروگرام کا آغاز کیا جس نے ہزاروں نوجوانوں کو امن اور عدم تشدد کی طرف راغب کیا اور یہی وجہ تھی کہ 2013 میں جب مجھے کامن ویلتھ ایوارڈ سے نوازا گیا تو عارف علوی صاحب نے، جو آج پاکستان کے صدر ہیں، مجھے پاکستان کا فخر کہا تھا اور 2016 میں شراک امن انعام جیتنے پر فرانس میں پاکستانی سفارت خانے نے میرے اعزاز میں عشائیہ دیا تھا۔

نقیب محسود کے قتل کے بعد 2018 میں پختونخوا میں پختون تحفظ مومنٹ کا ابھرنا کوئی حادثہ نہیں تھا، بلکہ پشتونوں کی سرزمین پر پچھلے کئی دہائیوں سے جاری ملٹرائزیشن اور انسانی حقوق کی پامالیوں پر پشتونوں کے غم و غصے کا نتیجہ تھا۔ ایک انسانی حقوق اور سول سوسائٹی کی کارکن کی حیثیت سے میرا فرض تھا کہ میں اپنی سرزمین پر اپنے بنیادی انسانی حقوق اور امن مانگنے والے نوجوانوں کا ساتھ دوں۔ فروری 2018 میں پشتون لانگ مارچ میں جاتے ہوئے مجھے بالکل اندازہ نہیں تھا کہ اپنے سرزمین پر امن مانگنے والی آواز کا حصہ بننے کی وجہ سے ایک دن مجھے ہی اپنی سرزمین چھوڑ کر جلاوطنی کی زندگی گزارنی پڑے گی اور میرے ماں باپ پر غداری اور دہشت گردی کے جھوٹے مقدمے بنائیں جائیں گے، اور اگر معلوم ہوتا تو تب بھی ساتھ دینے سے گریز نہ کرتی۔

پچھلے سال مئی 2019 میں اسلام آباد میں فرشتہ نامی بچی کے اغوا اور قتل پر اسلام آباد پولیس کی بے حسی کے خلاف مظاہرہ میں شرکت کے بعد میرے اوپر دہشت گردی، نسلی فسادات بھڑکانے اور غداری کے مقدمے بنائے گئے۔ حالانکہ کسی بھی مہذب معاشرے میں لڑکیوں کے اغوا اور ریپ کے خلاف احتجاج ایک بنیادی شہری حق سمجھا جاتا ہے۔ ان مقدموں کے بعد میرے گھر والوں کا جینا اجیرن کر دیا گیا تھا، میرے جاننے والوں کو غیرقانونی حراست میں لے کر بے انتہا اذیت کا نشانہ بنایا گیا۔ آخر میں انتقاماً مجھ سمیت میرے والدین پر دہشت گردوں کی مالی معاونت کا جھوٹا مقدمہ بنا دیا گیا۔

مقدمے میں کہا گیا کہ خفیہ ایجنسیوں، سی ٹی ڈی اور ایف آئی اے کی رپورٹ کی بنیاد پر مقدمہ بنایا جا رہا ہے۔ مہینے میں کئی بار میرے والدین کی پیشی ہوتی، ہر پیشی میں جج پراسیکوٹر سے الزامات کا ثبوت مانگتا اور ہر دفعہ پراسیکیوٹر وقت مانگتے۔ آخر ایک سال بعد کئی پیشیاں بھگتنے کے بعد جب سی ٹی ڈی اور ایف آئی اے کی رپورٹ عدالت میں پیش کی گئی تو اس رپورٹ میں صاف لکھا گیا تھا کہ انھیں ہماری دہشت گردوں کی مالی معاونت کے حوالے سے نہ کوئی ثبوت ملا ہے اور نہ وہ ہمارے خلاف کوئی بیان دیں گے۔ لیکن ریاست کے جو اہلکار مجھے غدار ثابت کرنے پر تلے تھے وہ جج کے سامنے میری اسلام آباد میں فرشتہ قتل کیس احتجاج کی تقریر کی ویڈیو سامنے لائے۔ عدالت نے کہہ دیا کہ تقریر اور احتجاج کرنا ہر شہری کا حق ہے، کوئی جرم نہیں اور جس تقریر کو لے کر پہلے ہی تین مقدمے درج ہیں، اسے اس کیس میں پیش کرنا انصاف کے اصولوں کی خلاف ورزی ہے، اور اس طرح ان الزامات کو بے بنیاد قرار دے کر عدالت نے مجھے اور میرے والدین کو اس مقدمے سے آزاد کیا۔

دو جولائی کو عدالت کا فیصلہ آنے پر مجھے پہلی دفعہ محسوس ہوا کہ پاکستان میں مکمل اندھیرا نہیں، یہاں انصاف ممکن ہے۔ میری امی نے مجھے اس دن فون کر کے کہا کہ کیا پاکستان میں دو منٹ تقریر کرنا اتنا بڑا جرم ہے کہ اس کی سزا صرف میری بیٹی کو نہیں بلکہ اس کے ماں باپ کو بھی بھگتنی ہوگی؟ کیا یہاں تقریر کرنا غداری ہے؟

میری امی، جو کہ پاکستان کی بیشتر ماؤں کی طرح ایک گھریلو خاتون ہیں، پرائمری سے زیادہ نہیں پڑھیں، انھیں نہ تو سوشل میڈیا استعمال کرنا آتا ہے اور نہ انھیں یہ بات پسند تھی کہ ہم ان کی تصویر سوشل میڈیا پر ڈالیں، عدالتوں میں دھکے کھانے سے بہت تذلیل محسوس کرتی ہیں۔ خاص کر انسداد دہشت گردی کی عدالت میں جہاں سینکڑوں مردوں میں وہ ایک واحد خاتون ہوتی ہیں، اور بیٹھنے کے لئے کوئی جگہ تک نہیں ہوتی، لوگوں کی سوالیہ نگاہیں ان کے دل میں چھید کرتی ہیں۔ ہمیشہ سنا تھا کہ مائیں سب کی سانجھی ہوتی ہیں لیکن یہ قول شاید بلوچ اور پشتون ماؤں پر لاگو نہیں ہوتا، ان کی قسمت میں عدالتوں کے دھکے یا مسنگ پرسن کے کیمپ لکھے ہیں۔

میری امید مختصر تھی کیونکہ 2 جولائی جب عدالت نے الزامات کو بے بنیاد قرار دے کر ہمیں مقدمے سے آزاد کیا تو اداروں نے پرانے مقدمے میں غداری، دہشت گردی اور مجرمانہ سازش کی دفعات ڈال کر، جیش محمد جیسی دہشت گرد تنظیموں اور اسلحہ بیوپاریوں سے جھوٹے بیانات لیے کر عدالت میں مجھ پر اور میرے والدین پر 2013 میں پشاور چرچ دھماکے اور 2015 پشاور امام بارگاہ دھماکے کی معاونت کا الزام لگا دیا اور پرانے مقدمے کو دوبارہ نئے جج کے سامنے کھول دیا گیا۔

تعجب کی بات ہے کہ آٹھ اور پانچ سال بعد اداروں کو خیال آیا کہ ان دھماکوں سے من پسند لوگوں کے من پسند بیانات کے ذریعے ہمارا تعلق جوڑا جائے، اسے میں اداروں کی کاہلی سمجھوں یا بدنیتی؟ اچانک 2 جولائی کے بعد جب عدالت نے ہمیں بری کیا، اسی کے بعد ہی کیوں اداروں کو خیال آیا کہ ہمارا تعلق ان حملوں سے جوڑا جائے؟ 2013 وہ سال ہے جس میں عارف علوی صاحب مجھے فخر پاکستان قرار دیتے ہیں۔ امید ہے عدالتیں اس بار بھی مذموم مقاصد کے لئے عدلیہ کے استعمال کی خلاف فیصلہ دے کر انصاف کریں گی۔

میں آج ایک سوال پاکستان کی سیاسی پارٹیوں اور پارلیمنٹ سے بھی کرنا چاہ رہی ہوں کہ اگر پاکستان ایک آزاد ملک ہے، تو اس آزاد ملک میں آج بھی کیوں برطانوی راج کے 23 اے جیسے غداری کے قانون موجود ہیں؟ پارلیمنٹ کیوں انسداد دہشت گردی کے قانون کے انسانی حقوق کی آواز بلند کرنے والوں کے خلاف استعمال پر چپ ہیں؟ اور وہ کیوں سائبر کرائم کے قانون کو غیر جمہوری قوتوں کے ہتھکنڈے کے طور پر استعمال ہونے دے رہے ہیں؟ کیا شہریوں کے آئینی حقوق کی حفاظت کی ذمہ داری پارلیمنٹ کی نہیں؟ کب پشتونوں کے خلاف اجتماعی سزا کا ظالمانہ نظام ختم ہوگا؟ کیا اس ملک کے پدر شاہی سماج کے اندر بیٹی کو پڑھانا اور ہمت دینا غداری ہے؟ کیا پدرشاہی سے بغاوت دہشت گردی ہے؟


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).