انصار عباسی صاحب، فحاشی، اور قوم کا فخر


ہمارا چھوٹا بھائی بچپن میں روٹھ کر ایک کونے میں بیٹھ جاتا تھا۔ جب کوئی منانے نہیں آتا تھا تو خود ہی نعرہ بلند کرتا تھا ’میں نالاج ہوں۔‘ یعنی میں ناراض ہوں لہذا دنیا والو آؤ اور مجھے منانے کی سعادت حاصل کرو۔ جب تب بھی کوئی کان نہیں دھرتا تھا تو بیچارہ خود ہی نظریں چراتا سب میں واپس آ بیٹھتا تھا۔ آج ہم نے بھی یہی کیا ہے۔ کچھ عرصے سے لکھنے سے وقفہ لیا تھا تاکہ روزگار زندگی پر فوکس کیا جا سکے۔ امید تھی کہ آپ لوگ سوال کریں گے۔ ایڈیٹر صاحب کو ایمیلیں لکھیں گے کہ کہاں گئیں عہد حاضر کی بہترین کالم نگار۔ جیسا کہ آپ نے ہماری امیدوں پر پانی انڈیل دیا ہم آپ کی خدمت میں خود ہی حاضر ہیں۔

اصل میں لکھنا تو آج بھی نہیں تھا لیکن مشہور صحافی انصار عباسی صاحب نے مجبور کیا کہ سعدیہ بی بی آج تو قلم اٹھانا ہی ہو گا۔ خالی خولی ولاگ بنانے سے کام نہیں چلے گا۔ ہم ان کی فرمائش کیسے موڑتے، جھٹ آپ کی محفل میں حاضر ہوئے۔ خیر سے عباسی صاحب کی بہت عزت کرتے ہیں۔ ان سا کہنہ مشق استاد پاکستان کو کئی نسلوں تک نصیب ہونا ناممکن ہے۔ اتنی محنت کرتے ہیں کہ لگتا ہے محنت میں عظمت کی کہانی کے مرکزی کردار یہی تھے۔

جہاں باقی صحافی اپنے چھوٹے موٹے کاموں میں الجھے رہتے ہیں قدرت نے انصار عباسی صاحب کو وہ ذمہ داری بخشی ہے جو ماٹی کے یہ بت ادا کرنے سے قاصر ہیں۔ ہمارے قابل فخر انصار عباسی صاحب صبح شام ٹی وی پر ہونے والی فحاشی ڈھونڈنے میں یوں محو رہتے ہیں جیسے دو سال کا بچہ اپنے آئی پیڈ پر ہو۔ کچھ صلاحیت خداداد بھی ہے کہ یہ وہاں بھی فحاشی ڈھونڈ نکالتے ہیں جہاں تمام دنیا ٹٹولتی بھی پھرے تو نہ پہچان پائے۔ بھلے ٹیلیویژن پر ورزش کرتی خاتون ہوں یا گالا بسکٹ میں ناچتی ہوئی ستارہ امتیاز مسمات مہوش حیات، عباسی صاحب کی عقابی نظر فحاشی کھوج ہی لیتی ہے۔

جیسا کہ محنت میں عظمت ہے۔ انصار عباسی صاحب اپنے مشن میں کبھی ناکام نہیں ہوئے۔ اب کی بار تو چھکا یوں بھی پارک سے باہر ہے کہ انہوں نے گالا بسکٹ کا اشتہار ہی بند کرا دیا۔ اور اس پر ان کا بس نہیں چل رہا کہ خود بھی ناچنا شروع کر دیں کہ کیا کارنامہ انجام دیا ہے۔ مانا کہ اشتہار خاصا بورنگ اور بھونڈا تھا لیکن اس میں فحاشی کہاں تھی یہ تو عباسی صاحب ہی جانیں۔ آفٹر آل ہیرے تو جوہری ہی پہچان سکتا ہے۔

جتنی مرضی جگتیں پڑیں انصار عباسی صاحب نے اپنے فرض سے کبھی غفلت نہیں برتی۔ وہ ہمیشہ ٹی وی کو محدب عدسے سے دیکھتے ہیں کہ کہیں بھی عورت کے وجود کا کوئی بھی پیچ و خم دکھائی دے وہ وہیں ویڈیو ریکارڈ کر کے ٹویٹ کر دیں۔ کچھ جلنے والوں کا کہنا ہے کہ اگر میڈیا پر اتنی ہی فحاشی ہے تو انصار عباسی صاحب اپنا ٹی وی کیوں بند نہیں کر دیتے؟ لیکن جلنے والے کا منہ کالا۔ عباسی صاحب کے عزائم ہمالیہ کی پہاڑیوں سے بلند ہیں۔

بعض بلکہ اکثر اوقات انصار عباسی صاحب کا یہ فن وہ اور کمال حاصل کر لیتا ہے کہ وہ محض عورت کی ایک جھلک پر ہی فحاشی کے بینر دیکھنے لگتے ہیں۔ آفٹر آل، عورت کے وجود سے بڑھ کر فحش کیا ہو گا؟ اب خدا جانے کہ ان کی نگاہوں میں ایکس رے ہے یا پھر دلوں کا حال جانتے ہیں۔

انصار عباسی صاحب اس قوم پر خدا کی رحمت ہیں جن کی قدر ہر جن و انس پر لازم ہے۔ ہماری طرف مت دیکھئے۔ ہم نے تو ان کی شان میں وہ قصیدہ بھی لکھ ڈالا جو ان کے وہم و گمان میں نہ ہو گا۔ عباسی صاحب اس قوم کا فخر ہیں، ماتھے کا جھومر ہیں، اور فحاشی یعنی عورت کے وجود کے خلاف جہاد میں اس قوم کے سپہ سالار ہیں۔ عباسی صاحب کا اقبال اور ٹیلیویژن اینٹینا بلند ہو۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).