روسی الیکشن: صفائی کرنے والی خاتون مرینا اڈگوڈسکایا جنھوں نے صدر پوتن کے امیدوار کو میئر کے انتخاب میں ہرا دیا
کچھ عرصہ پہلے تک، مرینا اڈگوڈسکایا، ماسکو کے شمال مشرق میں تقریباً 400 کلومیٹر دور روس کے ایک چھوٹے سے گاؤں پوالخیینو میں ایک مقامی اتھارٹی کے دفتر میں صفائی کا کام کرتی تھیں۔
ان کی زندگی اس وقت یکسر تبدیل ہو گئی جب انھیں روس کے بلدیاتی انتخابات میں بطور ’ٹیکنیکل امیدوار‘ الیکشن لڑنے کا کہا گیا تاکہ ان انتخابات میں جمہوری عنصر دکھائی دے سکے۔
واضح رہے کے روسی انتخابات میں ’ٹیکنیکل امیدوار‘ اسے کہتے ہیں جو اپنے حریف کے مخالف محض خانہ پری کے لیے انتخابات میں حصہ لے۔
ان کا بلدیاتی انتخاب میں بطور امیدوار حصہ لینے کا مقصد صرف امیدواروں کی تعداد کو پورا کرنا تھا کیونکہ روسی انتخابی قوانین کے مطابق کسی بھی انتخاب کے لیے دو امیدواروں کا مدمقابل ہونا ضروری ہے۔
مگر وہ اس انتخاب میں بھاری اکثریت سے جیت گئی اور وہ اس چھوٹے سے ضلع کے معاملات دیکھیں گی۔
بی بی سی ریشیئن کے پیٹر کوزلو نے یہ جاننے کے لیے اس چھوٹے سے قصبے پوالخیینو کا دورہ کیا کہ مرینا کا صفائی کا کام کرنے سے میئر کے دفتر کے امور انجام دینے تک کے سفر کا تجربہ کیسا رہا ہے۔
یہ بھی پڑھیے
وہ شخص جس نے پوتن کی صدر بننے میں مدد کی
کیا وبا کے دوران ولادیمیر پوتن کی روس پر گرفت کمزور پڑ رہی ہے؟
کچھ لوگوں کے لیے اقتدار چھوڑنا مشکل کیوں ہوتا ہے
پوتن کا ’بیٹیوں‘ سے متعلق سوالات کے جواب سے گریز
پوالخیینو کا گاؤں واقعی سیاسی تبدیلی کا مرکز دکھائی نہیں دیتا ہے۔ یہ کوسروما خطے کے آباد کاروں کا ایک چھوٹا سا مرکز ہے جہاں چند لوگ آباد ہیں۔
یہاں کے چند لوگ لکڑی کی صنعت سے وابستہ ہیں، کچھ کاشتکاری سے جبکہ چند قریبی چکلوما جھیل پر سیاحت سے روزگار کماتے ہیں۔ یہ علاقہ بہت دیہی اور پرسکون ہے۔ وہاں موبائل سگنل بھی پوری طرح نہیں آتے۔
پھر بھی یہ وہ جگہ ہے جہاں مقامی آبادی نے غیر متوقع طور پر ایک عورت کو ووٹ دے کر میئر بنایا ہے۔ اور انھوں نے صرف اس لیے اس انتخاب میں حصہ لیا کیونکہ انھیں ان کے سبکدوش ہونے والے میئر نے محض خانہ پوری کے لیے کاغذاتِ نامزدگی جمع کروانے کا کہا تھا۔
مرینا نے سیلز اسسٹنٹ کی تربیت حاصل کر رکھی تھی لیکن انھیں اپنے گاؤں میں اس سے متعلق کوئی ملازمت نہیں ملی کیونکہ اس چھوٹے سے گاؤں میں صرف دو ہی دکانیں ہیں۔
مرینا نے اپنی پڑھائی مکمل کرنے کے بعد سے اپنے کنبے کے ساتھ ساتھ اپنے گھر، باغ اور مویشیوں کی بھی دیکھ بھال کی ہے، ان کے پاس بطخیں، مرغیاں، خرگوش، کتے اور بلیاں ہیں۔
انھوں نے مقامی بلدیاتی دفتر میں موسم گرما میں بطور صفائی کرنے والی کے بھی کام کیا ہے جبکہ موسم سرما میں لکڑیاں جلانے والے کی حیثیت سے بھی کام کیا ہے تاکہ یہ یقینی بنایا جا سکے کہ میئر کے دفتر کو گرم رکھنے کا نظام صحیح طور پر کام کرتا رہے۔
اس گاؤں میں گیس میسر نہیں ہے اور مقامی آبادی سردیوں میں اپنے گھروں کو گرم رکھنے کے لیے لکڑیاں جلا کر استعمال کرتی ہے۔
ان کی بطور میئر الیکشن میں فتح سبکدوش ہونے والے میئر کے لیے ایک صدمے سے کم نہیں تھی کیونکہ انھوں نے ہی مرینا کو اس انتخاب میں حصہ لینے کے لیے اپنا مخالف امیدوار نامزد کیا تھا۔
یہ فتح مرینا کے لیے بھی حیران کن تھی کیونکہ اس انتخاب میں انھوں نے کوئی انتخابی مہم نہیں چلائی تھی اور انھیں اپنی جیت کی توقع بھی نہیں تھی۔
مرینا کی غیر یقینی فتح کی خبر جلد ہی پورہے روس میں پھیل گئی اور یہ ملک کے سیاسی حلقوں اور عوام کے لیے بھی حیران کن خبر تھی کہ مرینا ایک مقبول بلدیاتی نمائندے کے طور پر منتخب ہو کر سامنے آئی ہیں۔
روس کی حزب اختلاف کی جماعت کے رہنما ڈمتری گوڈکو نے اپنے بلاگ میں مرینا کو ان کی فتح پر مبارکباد دیتے ہوئے کہا کہ یہ اس بات کا اشارہ ہے کہ ووٹرز صدر پوتن کی پارٹی سے اکتا چکے ہیں۔
حادثاتی امیدوار
وقت کی ستم ظریفی یہ ہے کہ سکبدوش ہونے والے میئر 53 سالہ نیکولائی لوکتیف، نے ستمبر میں دوبارہ انتخاب لڑنے کے لیے قانونی تقاضے کو پورا کرنے کے لیے مرینہ کو اپنا مخالف منتخب کیا تھا۔
سابق پولیس اہلکار لوکتیف اس دیہی ضلع کے گذشتہ پانچ برس سے میئر تھے۔ انھیں ضلع میں عزت کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے اور ان کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ انھوں نے بطور میئر یہاں کے معاملات احسن طریقے سے انجام دیے ہیں۔
انھوں نے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے بتایا کہ ’جی میں نے ہی مرینا کو انتخاب لڑنے کا کہا تھا۔ درحقیقت میں نے چند اور لوگوں کو بھی کہا تھا لیکن انھوں نے انکار کر دیا، اگر میرے پاس کوئی اور چارہ ہوتا تو میں اسے کبھی نہ کہتا۔ لیکن مجھے ان کی جیت سے کوئی حیرانی نہیں ہوئی۔ انھیں بہت مبارکبار اور اگر لوگوں نے انھیں ووٹ دیا ہے تو پھر ٹھیک ہے۔‘
ان کا کہنا تھا کہ وہ گاؤں چھوڑ کے قریبی شہر میں جا کر کوئی ملازت ڈھونڈنے کا ارادہ رکھتے ہیں۔ انھوں نے اس شکست کے سیاسی پہلوؤں پر بات کرنے سے گریز کرتے ہوئے انھوں نے اس تاثر کو رد کیا کہ یہ صدر پوتن کی سیاسی جماعت یونائیٹڈ رشیا کی ہار ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ ’نہ میں اور نہ ہی مرینا کسی سیاسی جماعت کا حصہ ہیں۔‘
تاہم انھوں نے یونائیٹڈ ریشا کے نمائندے کے طور پر انتخاب لڑا تھا جو ملک سے سیاسی نظام پر غالب ہے۔
سنڈریلا کی افسانوی کہانی
یہ اکتوبر کی سنہری دھوپ والا ایک دن ہے جب مرینا کو اس چھوٹے کے ضلع کا میئر بنایا گیا۔ انھیں مقامی صحافیوں کے ساتھ ساتھ ماسکو سے آئے چند صحافیوں نے مبارکباد دی اور یہ صحافی انھیں روس کے سیاسی منظر نامہ پر افسانوی کردار سنڈریلا سے تشبیہ دے رہے ہیں۔
وہ تمام گفتگو کے دوران انتہائی تحمل اور اعتماد کے ساتھ صحافیوں کے جواب دیتی رہیں۔ ان کا کہنا تھا ’میں بالکل عام سا محسوس کر رہی ہوں۔ پہلے میں تھوڑی حیران تھی لیکن اب میں ٹھیک ہوں۔ یہ میری میئر بننے کی سند اور اب یہاں تک پہنچ کر اسے انکار کرنے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ کسی نے مجھے اس عہدے کے لیے نہیں اکسایا، یہ میرا فیصلہ تھا، اگر لوگوں نے مجھے منتخب کیا ہے، میں ان کے لیے کام کروں گی۔‘
میئر کا عہدے سنبھالنے کے کچھ ہی دیر بعد وہ مقامی آبادی سے ملنے چلی گئی۔
گاؤں میں ان کے حمایتیوں کا جوش دیکھ کر یہ واضح ہوتا ہے کہ وہ چاہتے ہیں کہ مرینا جلد ہی اپنی ذمہ داریاں سنبھال لیں۔
ان کی ایک حمایتی ووٹر کا کہنا تھا کہ ’یقیناً میں نے مرینا کو ووٹ دیا ہے، ہم سب کو اس پر اعتماد ہے، وہ عقل مند ہے اور وہ اس ذمہ داری کو کامیابی سے نبھائے گی۔‘
مرینا جلد ہی مقامی رہنماؤں کی ٹریننگ حاصل کریں گی جہاں انھیں مقامی بجٹ اور انتظامی امور کے بارے میں تربیت دی جائے گی۔
گاؤں والے کیا سوچتے ہیں؟
ہم نے پوالخینو گاؤں کا دورہ کیا اور یہ جاننے کی کوشش کی کہ گاؤں والوں کا مرینا کے فتح کے متعلق کیا کہنا ہے۔ ایک مقامی دکان پر ایک بزرگ خاتون سے گفتگو ہوئی تو وہ اتفاقیہ طور پر مرینا کی رشتہ دار نکل آئیں۔
ان کا کہنا تھا کہ ’مرینا میری بہو ہے اور میرے خیال میں وہ یہ ذمہ داری اچھے سے پوری کر سکتی ہے، میرے خیال میں اسے یہ کرنا چاہیے۔‘
ایک اور خاتون کا کہنا تھا کہ انھیں مرینا کے جیتنے پر خوشی ہوئی ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ ’ہمیں سیاست میں نئے چہروں کو موقع دینے کی ضرورت ہے، یہ اچھا ہے کہ مرینا کے پاس ایک موقع ہے کہ وہ ہمارے گاؤں کے معاملات چلاتے ہوئے کچھ تبدیلی لائے۔‘
جبکہ وہاں قریب ہی موجود میخیل نامی شخص نے بھی مرینا کی فتح پر مثبت ردعمل دیا اور وہ بہتری کے لیے پر امید نظر آئے۔
ان کا کہنا تھا کہ ’وہ جوان ہیں، سمجھدار ہیں، وہ وقت کے ساتھ سب کچھ سیکھ جائیں گی اور تجربہ حاصل کر لے گی۔‘
لیکن ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ سبکدوش ہونے والے میئر ’لوکتیف بھی اچھے آدمی تھے۔‘
جبکہ ایک اور مقامی شخص ایوین کا کہنا تھا کہ ’وقت ہی بتائے گا کہ کیا مثبت تبدیلی آتی ہے۔‘ وہ پرانے میئر سے زیادہ خوش نہیں تھے۔
ان کا کہنا تھا کہ ’لوکتیف کو صرف یہ کرنا ہوتا تھا کہ مناسب وقت پر ہمارے گاؤں کی سٹریٹ لائٹس روشن کر دیں لیکن وہ یہ بھی نہیں کر پاتے تھے۔‘
ایوین نے اس انتخاب میں کسی جماعت کو ووٹ نہیں دیا تھا اور جب اس کی وجہ پوچھی گئی تو ان کا کہنا تھا کہ انھوں نے 90 کی دہائی کے آغاز میں ایک سیاسی جماعت کی حمایت کی تھی جس نے ووڈکا کی قیمتیں کم کرنے کا وعدہ کیا تھا۔
لیکن اب ایوین نے شراب نوشی ترک کر دی ہے اور اب وہ آن لائن ویڈیو بلاگنگ اور کشتیاں تیار کرنے کا شوق رکھتے ہیں۔
صدر پوتن کی پارٹی کے لیے یہ فتح کیا اہمیت رکھتی ہے؟
مرینا کی فتح کے فوراً بعد روس کی حزب اختلاف کی جماعت نے اسے پوتن کی جماعت کی شکست کے طور پر پیش کرنا شروع کر دیا۔
اس خبر کے پورے ملک میں جنگل کی آگ کی طرح پھیلنے کے بعد یقیناً حکمران جماعت کے حمایتیوں کے لیے ایک دھچکا تھی کہ ایک چھوٹے سے ضلع میں صفائی کرنے والی نے ایک میئر کو ایک ایسے الیکشن میں شکست دے دی ہے جس کے لیے انھوں نے کوئی انتخابی مہم بھی نہیں چلائی تھی۔
بی بی سی ریشئن کو علم ہوا ہے کہ اس شکست کے بعد علاقائی دارالحکومت کوسٹروما میں گورنر کی زیر نگرانی اس کے محرکات کا تفصیلی جائزہ لیا گیا ہے۔
یہ خبر ماسکو میں روس کے مرکزی الیکشن کمیشن میں پہنچی تو اس کے سربراہ کی جانب سے اس پر تبصرہ کیا گیا۔
ان کا کہنا تھا کہ ’جی بالکل مرینا نے اس انتخاب میں بطور ’ٹیکنیکل امیدوار‘ حصہ لیا اور اس میں کچھ غلط نہیں ہے۔ ان کے گاؤں والوں نے انھیں ووٹ دے کر کامیاب کروایا اور بطور صفائی کرنے والی کی حیثیت سے وہ بھی اس کی توقع نہیں کر رہی تھیں۔‘
جبکہ حکمران جماعت یونائیٹڈ رشیا کے سربراہ گالینا پولیاکوا نے بی بی سی کو بتایا کہ ’اس غیر معمولی صورتحال کے باوجود کوئی مشکل پیش نہیں آئے گی۔‘مرینا کے پاس بھی دیگر چھوٹے اضلاع کی طرح ایک سربراہ ہوں گے، یہ غیر معمولی ضرور ہے لیکن کوئی حادثہ نہیں ہے۔‘
ان کا کہنا ہے کہ ’یونائیٹڈ رشیا کے امیدوار کی شکست میں کوئی بری بات نہیں ہے، لوگ اکثر شخصیت کو ووٹ دیتے ہیں نہ کہ سیاسی پارٹی کو، شاید مرینا ایک اچھی مبلغ ہیں اور ان کے پاس انتظامی امور کو بہتر ادا کرنے کی اہلیت ہے اور سابق میئر شائد یہی سے مار کھا گئے ہیں۔‘
مخالفت کا ووٹ
حزب اختلاف کے رہنما الیکسی نوالنی کا کہنا ہے کہ یونائیٹڈ رشیا کے امیدوار میں مخالفت کا ووٹ ہی ملک میں سیاسی استحکام پیدا کر سکتا اور تبدیلی لا سکتا ہے۔اگست میں نوالنی کے سائبیرین شہر ٹومسک کے دورے کا مقصد ہی یہ تھا کہ حکومت مخالف ووٹ کو بڑھاوا دیا جائے، یاد رہے کہ اس دورے کے دوران انھیں زہر دیا گیا تھا اور وہ موت سے بال بال بچے تھے۔
انھوں نے روسی صدر پوتن پر انھیں زہر دے کر ہلاک کرنے کی کوشش کا الزام عائد کیا تھا۔
پوالخیینو جیسا دیہی علاقہ شائد الیکسی نوالنی اور ان کی سیاست کی حمایت کرے یا نہ کرے لیکن یہ حقیقت اپنی جگہ موجود ہے کہ اس چھوٹے سے گاؤں نے بھاری اکثریت سے مرینا کی صورت میں نئے چہرے کو سیاست میں موقع دیا ہے۔
کیا روس کے دیگر گاؤں اور قصبے اس کو مثال بناتے ہوئے اور اس کے نقش قدم پر چلتے ہوئے موجودہ حکومت کے خلاف تبدیلی لا پائیں گے؟- سڈنی شاپنگ مال حملہ: آسٹریلیا میں ’بہادری کا مظاہرہ‘ کرنے والے زخمی پاکستانی سکیورٹی گارڈ کو شہریت دینے پر غور - 19/04/2024
- مرنے سے قبل چند افراد کو اپنے وہ پیارے کیوں دکھائی دیتے ہیں جو پہلے ہی مر چکے ہوتے ہیں؟ قریب المرگ افراد کے تجربات - 18/04/2024
- یوکرین جنگ میں 50 ہزار روسی فوجیوں کی ہلاکت: وہ محاذِ جنگ جہاں روسی فوجی اوسطاً دو ماہ بھی زندہ نہیں رہ پا رہے - 18/04/2024
Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).