کرا کینال: سمندروں کو ملانے والے تین سو سال پرانے منصوبے کی فنڈنگ چین کرے گا یا اُس کا مخالف اتحاد


جب سے امریکہ نے چین کے ساتھ اقتصادی جنگ کا اعلان کیا ہے تب سے چین کا جغرافیائی گھیراؤ کرنے کی کوششیں ہو رہی ہیں۔ چین اس گھیراؤ کو توڑنے کے لیے مختلف راہیں اختیار کر رہا ہے جن میں سے ایک پاکستان میں گوادر کی بندرگاہ کی تعمیر بھی شامل ہے۔

اسی تناظر میں تھائی لینڈ میں کرا استھمس کینال کے منصوبے کے بارے میں پھر سے باتیں شروع ہو گئی ہیں۔

انڈین اخبار ہندوستان ٹائمز کی ایک حالیہ رپورٹ کے مطابق انڈیا، آسٹریلیا اور امریکہ نے چین کو اس منصوبے سے دور رکھنے کے لیے تھائی لینڈ کے اس منصوبے میں دلچسپی کا اظہار کیا ہے۔

ہندوستان ٹائمز کی رپورٹ کے مطابق تھائی لینڈ کے رکنِ پارلیمان سانگلاڈ تھپاراٹ نے کہا ہے کہ چین کے علاوہ انڈیا، آسٹریلیا اور امریکہ بھی کرا کینال کے منصوبے میں دلچسپی رکھتے ہیں اور وہ تھائی لینڈ کے ساتھ اس منصوبے کے حوالے سے مفاہمت کے ایک معاہدے (ایم او یو) پر دستخط کرنے کے خواہشمند ہیں۔

یہ بھی پڑھیے

کیا دنیا ایک اور سرد جنگ کی جانب بڑھ رہی ہے؟

بحیرۂ جنوبی چین کے مصنوعی جزیرے آباد، امریکی جواب کیا ہو گا؟

امریکہ: بحیرہ جنوبی چین کے وسائل پر قبضے کی چینی کوششیں ’غیر قانونی‘ ہیں

سانگلاڈ تھپاراٹ پارلیمنٹ کی اس کمیٹی کی سربراہی کر رہے ہیں جو کرا کینال کی فیزیبیلٹی رپورٹ کا جائزہ لے رہی ہے۔

گذشتہ چند روز سے انڈین ذرائع ابلاغ میں ایک ایسی حکومتی رپورٹ کے حوالے سے خبریں گردش کر رہی ہیں جن میں کہا جا رہا ہے کہ چین اس منصوبے کے ذریعے تھائی لینڈ کو قرضوں کے جال میں پھنسانے کی کوشش کر رہا ہے۔

دی پرنٹ میں شائع ہونے والی ایک رپورٹ میں کہا گیا کہ دلی سمجھتا ہے کہ اس منصوبے سے تھائی لینڈ کو کوئی مالی فائدہ نہیں ہو گا اور یہ منصوبہ اس کے لیے ’سفید ہاتھی‘ ثابت ہو گا۔

خیلج تھائی لینڈ

خیلج تھائی لینڈ

کرا کینال کا منصوبہ کیا ہے؟

سویز کینال کی طرز پر کرا کینال کو بنانے کا منصوبہ صدیوں پرانا ہے۔

کہا جاتا ہے کہ تین سو سال سے اس منصوبے کے بارے میں سوچا جا رہا ہے لیکن اسے عملی جامہ پہنانے کی کبھی کوشش نہیں کی گئی ہے۔

اس منصوبے کے تحت تھائی لینڈ کے جنوبی حصے کو کاٹ کر خیلج تھائی لینڈ کو بحیرہ انڈمان سے ملانا ہے۔ اس نہر کی لمبائی صرف ساٹھ میل ہے اور اس پر کم از کم 30 ارب ڈالر کی لاگت کا تخمینہ لگایا گیا ہے۔

اگر یہ نہر بن جائے گی تو یہ دنیا کی مصروف سمندری گزرگاہ خلیج مالاکا، جہاں سے سالانہ لاکھوں بحری جہازوں کا گزر ہوتا ہے، کا نعم البدل بن جائے گی اور اس سے بحری جہازوں کا 600 میل کا فاصلہ کم ہو جائے گا۔

اس کے علاوہ جنگ کی صورت میں چین کی سپلائی لائن کو خیلج مالاکا میں روکنے کے امکانات کم ہو جائیں گے۔

بحیرہ انڈمان

کرا کینال کی راہ میں رکاوٹیں؟

عالمی سیاست کے تناظر میں تو یہ منصوبہ بہت دلکش لگتا ہے جس سے چین کا سمندری محاصرہ کرنے کی کوششیں دم توڑ سکتی ہیں۔

البتہ اس منصوبے کی راہ میں کچھ ایسی مشکلات ہیں جنھیں عبور کرنا آسان نہیں۔ اس منصوبے کے حوالے سے تھائی لینڈ میں رائے عامہ منقسم ہے۔

جو طبقہ اس منصوبے کا حامی ہے اس میں سابق فوجی جرنیل سرفہرست ہیں جو سمجھتے ہیں کہ اس منصوبے سے تھائی لینڈ کی اہمیت بڑھ جائے گا اور اس سے تھائی لینڈ کو خاطر خواہ آمدن ہو گی۔

اس کے حق میں دلیل دی جاتی ہے کہ اس کینال کے ذریعے بحیرہ جنوبی چین اور بحر ہند کا ملاپ آسان ہو جائے گا اور اگر اس سمندری گزرگارہ کو جہاز کی نصف تعداد بھی اپنا لے جو مالاکا کی تنگ سمندری گزرگاہ سے گزرتے ہیں تو اس سے چند برسوں میں اس منصوبے پر اٹھنے والے اخراجات پورے ہو جائیں گے۔

کچھ لوگوں کا خیال ہے کہ اس سے تھائی لینڈ دو حصوں میں بٹ جائے گا اور جہاں اس کینال کو بنایا جانا ہے، اس علاقے میں پہلے ہی مسلمانوں کی علیحدگی کی تحریک جاری ہے جس کو اس منصوبے سے مزید تقویت ملے گی۔

اس کے علاوہ اس منصوبے کی تکمیل کے لیے لوگوں کی ایک بڑی تعداد کو ان کے گھروں سے بے دخل کرنا ہو گا جس سے یہ ایک بڑا سیاسی مسئلہ بن سکتا ہے۔

اس کے علاوہ جس علاقے میں اس کینال کو بنایا جانا ہے، وہ پہاڑی علاقہ ہے جسے کاٹنا ناممکن تو نہیں لیکن بہت مشکل اور مہنگا عمل ہے۔

بحیرۂ جنوبی چین

بحیرۂ جنوبی چین

کیا چین اس منصوبے میں دلچسپی رکھتا ہے؟

چین کے مخالفین کا موقف ہے کہ چین خاموشی سے اس منصوبے کو بنانے کی کوششیں کر رہا ہے اور وہ اس میگا پراجیکٹ کی ون بیلٹ ون روڈ (بی آر ٹی) کے تحت فنڈنگ کرنے کے لیے تیار ہے۔

البتہ چینی حکومت کے زیر اثر سمجھے جانے والے اخبار گلوبل ٹائمز میں اس منصوبے کے قابل عمل ہونے کے حوالے سے کچھ خدشات کا اظہار کیا گیا ہے۔

اخبار نے لکھا ہے کہ چینی ذرائع ابلاغ اس منصوبے کے بارے میں ’ڈھول‘ بجا رہے ہیں اور کہا جا رہا ہے کہ اس منصوبے کی بیلٹ اینڈ روڈ انیشیئیٹو (بی آر آئی) کے تحت فنڈنگ کی جا سکتی ہے۔

اخبار نے لکھا کہ بی آر آئی منصوبہ ’اے ٹی ایم‘ نہیں ہے جس سے کسی بھی منصوبے کے لیے کیش نکالا جا سکے۔ اخبار نے لکھا کہ کرا کینال جیسے میگا پراجیکٹس کی بی آر آئی کے تحت فنڈنگ نہیں کی جا سکتی۔

اخبار نے لکھا کہ سنہ 2015 میں چین اور تھائی لینڈ دونوں تردید کر چکے ہیں کہ وہ منصوبے کے حامی ہیں۔

اخبار نے مزید لکھا کہ جغرافیائی طور پر یہ ایک اچھا منصوبہ ہے جس کے بارے میں صدیوں سے باتیں ہو رہی ہیں لیکن اس کی راہ میں کئی رکاوٹیں ہیں۔

ان رکاوٹوں میں تھائی لینڈ کی سیاسی صورتحال بھی اہم ہے۔ جب تک اس منصوبے کے بارے میں ملک میں اتفاق رائے موجود نہیں ہو گا اس میگا پراجیکٹ میں کوئی سرمایہ کاری نہیں کرے گا۔

اخبار نے لکھا کہ عالمی تجارت میں مندی کے رجحان کی وجہ سے سویز اور پاناما کینال کی آمدن میں واضح کمی ہوئی ہے اور اب جہاز راں کمپنیاں بھاری فیس کے عوض سویز کینال سے گزرنے کی بجائے کیپ آف گڈ ہوپ سے گزرنے کو ترجیح دیتی ہیں۔

گلوبل ٹائمز نے لکھا ہے کہ جو لوگ اس منصوبے کی اس لیے حمایت کر رہے ہیں کہ خلیج مالاکا میں چینی جہازوں کو روک لیا جائے گا، تو ان کی ’اپنی تزویراتی سوچ ٹھیک نہیں ہے۔‘ اخبار نے لکھا کہ اگر چین کے جہازوں کو خلیج مالاکا میں روکا گیا تو یہ ’عالمی جنگ کا آغاز ہو گا اور چین کی موجودہ فوجی طاقت کی روشنی میں کوئی اس کی جرات نہیں کرے گا۔‘

اس کے علاوہ اخبار نے لکھا کہ چین اپنی تیل کی ترسیل کے حوالے پہلے ہی خلیج مالاکا پر اپنا انحصار کم کر رہا ہے اور وہ میانمار کے راستے پائپ لائن کے ذریعے تیل کی درآمد کے منصوبے کو مکمل کر چکا ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32502 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp