فرسودہ رسمیں نعمت بھی ثابت ہو سکتی ہیں


جمعہ کی نماز ختم ہوئی تو یوں لگا جیسے میلے کا سماں تھا۔ سب ایک دوسرے سے مل رہے تھے۔ اس مسجد کا انتظام مصریوں کے سپرد تھا۔ اگرچہ علاقے میں آبادی زیادہ صومالیہ کے پناہ گزینوں کی تھی۔ زیادہ تر مصری کوٹ پتلون میں ملبوس تھے۔ کچھ نے نکٹائیاں بھی لگائی ہوئی تھیں۔

مسجد کے احاطے ہی میں ایک کمرہ انتظامیہ نے بیٹھک کے طور پر مختص کر رکھا تھا۔ جمعہ کی نماز کے بعد مصری نمازی اور مسجد کے منتظمین یہاں اکٹھے ہوتے۔ کمرے میں بڑا سا ریفریجریٹر رکھا تھا یہ کھانے پینے کی اشیا سے بھرا رہتا۔ جو آتا مصری یا غیر مصری‘ اپنی پسند کی شے لے لیتا۔

کافی اور چائے کا بندوبست فیاضانہ تھا۔ ایک بڑے سے ٹوکرے میں ڈبل روٹیوں کا ڈھیر پڑا رہتا۔ سفید پوش ضرورت مند گھر کے لئے لے جاتے۔ ایک دو بار یہ کالم نگار بھی گھر سے کچھ پکوا کر لے گیا اور ریفریجریٹر میں رکھ دیا۔ یہ رواج اچھا لگا کہ ہفتہ وار عبادت کے بعد اکٹھے بیٹھتے ہیں۔ کچھ اپنی سناتے ہیں۔ کچھ دوسروں کی سنتے ہیں۔

وطن سے ہزاروں میل دور ایسی محفلیں غریب الوطنی کے زخم پر مرہم ثابت ہوتی ہیں کہ کہاں چھائوں گھنی ہو کچھ دیر کے لئے بیٹھ جائیں مگر یہ سب باتیں ضمنی ہیں۔ اصل بات جو بتانی ہے اور ہے۔ نماز ختم ہوئی تو میں ایک واقف کار کے ساتھ کھڑے ہو کر باتیں کر رہا تھا۔

اس دن شلوار قمیض پہنی ہوئی تھی۔ دیکھا تو ایک صاحب شلوار قمیض میں ملبوس‘ میری طرف بڑھے اور مسکرا کر مصافحہ کیا سر پر گول ٹوپی تھی۔ داڑھی سرسید احمد خان کی داڑھی سے ملتی جلتی تھی۔ مگر بہت زیادہ منتشر۔ لگتا تھا داڑھی کو کنگھی تو خیر کبھی بھی نہیں کی گئی۔ باقاعدہ کوشش کر کے اسے بے ترتیب کیا گیا ہے۔

راولپنڈی کی ٹھیٹھ مضافاتی پنجابی میں انہوں نے پوچھا۔ پاکستان سے آئے ہیں؟ کہا جی ہاں! فرمانے لگے‘ غلطی کی آپ نے نہیں آنا چاہیے تھا۔ پوچھا کیوں؟ کہنے لگے اچھی جگہ نہیں ہے۔ غیر مسلم ملک ہے۔ یہ مولانا عبدالکریم سے پہلی ملاقات تھی۔ (نام مصلحتاً بدل دیا ہے) اس کے بعد ان سے دوستی ہو گئی۔ دلچسپ اور دلکش شخصیت!

قائد اعظم یونیورسٹی سے سائنس کی کسی برانچ میں پی ایچ ڈی تھے۔ دارالحکومت کے نیشنل انسٹی ٹیوٹ آف ہیلتھ میں ملازمت کرتے تھے۔ نکال دیے گئے۔ خدا جانے اصل وجہ نکالے جانے کی کیا تھی۔ بہر طور اب پچیس تیس سال سے آسٹریلیا میں تھے۔ کچھ عرصہ انڈونیشیا کے کسی سکول میں پڑھایا مگر قرار نہ ملا۔ اب پوری فیملی کو آسٹریلین شہریت ملی ہوئی تھی۔ سرکار کے دیے ہوئے خیراتی مکان میں رہائش پذیر تھے۔

افراد خانہ ’’گزارہ الائونس‘‘(سوشل سکیورٹی) لے رہے تھے۔ خود مولانا تبلیغی جماعت کے لئے پرجوش اور خطیبانہ جذبات رکھتے تھے۔ کبھی کبھی فون کرتے کہ آ رہا ہوں مسجد چلنا ہے فارغ ہوتا تو ان کے ساتھ چلا جاتا۔ اس سے انہیں بہت مسرت اور اطمینان ملتا۔ ہر بار سمجھا بجھا کر لے جاتے کہ کسی تبلیغیے سے بحث نہیں کرنی۔ مگر میں ان کے کسی نہ کسی ساتھی کو بحث میں ’’ملوث‘‘ کر ہی لیتا۔ ایک بار تھوڑے سے دل برداشتہ ہو گئے فرمانے لگے آپ کو لانے کا فائدہ تو کوئی ہے نہیں!

یقین دلایا کہ بہت فائدہ ہے۔ نماز باجماعت مل جاتی ہے۔ خوش ہو گئے۔ جس نووارد پاکستانی یا انڈین مسلمان سے ملتے اسے یہ ضرور باور کراتے کہ اس نے آ کر غلطی کی ہے۔ ایک صاحب نے پوچھا مولانا! آپ خود کیوں آئے ؟ کہنے لگے بس غلطی ہو گئی۔ ان کا خیال تھا کہ بچے ان کے مذہبی نہیں ہو سکتے۔ حالانکہ مسجد میں وہ اکثر دیکھے جاتے۔

ایک بار چائے پلانے گھر لے گئے ان کے صاحبزادے نے شارٹس(نیکر) پہنی ہوئی تھی۔ اسے خوب ڈانٹا۔ وہ آگے سے خاموش ہی رہا۔ چلا گیا تو عرض کیا کہ مولانا جوان اولاد ہے۔ دوسروں کے سامنے نہ ڈانٹا کیجیے۔ اور پھر شارٹس تو یہاں گرمیوں میں سب پہنتے ہیں۔ کہنے لگے ہاں یہ دوسروں کے سامنے نہ ڈانٹنے والی بات کچھ اور دوستوں نے بھی سکھائی ہے!! یہ اعتراف کرتے وقت ان کے چہرے پر اس قدر سادگی تھی کہ بے اختیار ہنسی آ گئی۔

ایک بار معلوم ہوا کہ مولانا ہسپتال داخل ہیں دل کا کوئی عارضہ ہے۔ ہسپتال قریب ہی تھا۔ ایک پاکستانی ماہر امراض قلب کو لے کر پہنچا۔ وارڈ میں دو اور مریض بھی تھے۔ دونوں سفید فام مقامی باہم پہنچے تو مولانا بے قراری کے عالم میں ٹہل رہے تھے۔ ہمیں دیکھتے ہی فریاد کی’’انہوں نے مجھے زبردستی یہاں رکھا ہوا ہے۔ مجھے دل کا کوئی مسئلہ نہیں میرے گھروالوں کی شرارت ہے‘‘ مشکل سے چارپائی پر بٹھایا۔

پاکستانی ڈاکٹر نے معائنہ کیا۔ کاغذات دیکھے اور بتایا کہ دل کی تکلیف ہوئی تھی۔ اب سٹنٹ ڈالیں گے۔ مولانا مصر تھے کہ سٹنٹ ڈالنے کی کوئی ضرورت نہیں۔ مگر یہ سب باتیں ضمنی ہیں۔ بات جو بتانی ہے اور ہے۔ پہلی بار مولانا ہمارے ہاں تشریف لائے تو تحفے کے طور پر دودھ کی ایک بڑے سائز کی بوتل لائے۔ عام طورپر لوگ چاکلیٹ یا کیک لاتے ہیں۔ اگر پاکستانی یا انڈین مٹھائی کی دکان نزدیک ہوتو مٹھائی‘ مگر ایسا بہت کم ہوتا ہے۔ ازراہ تکلف مولانا کو کہا کہ آپ نے کیوں تکلیف کی ہے تو انہوں نے فرمایا کہ یہ ضرورت کی شے ہے!

یہ تھی معاملے کی خبر، یہ تھا Crux of the Matterیعنی ضرورت کی شے۔ کبھی آپ نے سوچا ہے کہ کسی عزیز یا دوست کے گھر جا رہے ہیں تو کیا لے کر جا رہے ہیں؟ ہماری ثقافت کا حُسن ہے کہ خالی ہاتھ جانا معیوب گردانا جاتا ہے‘ کسی کی ترقی ہوئی ہے یا کوئی حج یا عمرہ کر کے آیا ہے تو مبارک دینے والوں کا تانتا بندھ جاتا ہے۔ ہر ایک کے ہاتھ میں مٹھائی کا ڈبہ ہے یا کیک، شام کو گھر والے دیکھتے ہیں کہ بیس کیک اور تیس مٹھائی کے ڈبے پڑے ہیں۔

ریفریجریٹر میں اتنی جگہ نہیں اور کھا کر ختم کرنا ممکن نہیں! ایک زمانہ تھا کہ اگر کوئی ملنے آتا تھا اور اس کا قیام دور ہوتا تھا تو بزرگ اس کے ہاتھ پر کچھ رقم رکھتے تھے کہ یہ تمہاری دعوت کے لئے ہیں اس لئے کہ اتنی دور سے دعوت کھانے آئو گے تو راحت کے بجائے کلفت ہو گی۔

یہ ایک پریکٹیکل اور حقیقت پسندانہ رویہ تھا۔ یہ رویہ اس وقت بھی ضروری ہے جب کسی کے گھر جانے کے لئے ہم کچھ خریدتے ہیں۔ بیکری میں جہاں کیک پڑے ہیں اور ایک کونے میں مٹھائی کا شوکیس دھرا ہے۔ وہیں بسکٹ بھی ہیں اگر کیک یا مٹھائی کے بجائے بسکٹ لے لیں تو ان کی افادیت زیادہ ہو گی۔

ایک دوست کی بیگم بتا رہی تھیں کہ فلاں موقع پر آپ بسکٹ لائے تھے تو کئی دن بچے سکول لے جاتے رہے۔ کسی عزیز کے ہاں جاتے وقت آپ نے کچھ نہ کچھ تو لے کر جانا ہے۔ جتنا بجٹ آپ نے مٹھائی یا کیک کے لئے ذہن میں مختص کر رکھا ہے اس میں آپ مٹھائی یا کیک کے بجائے وہ اشیاء خرید سکتے ہیں جن کی افادیت کہیں زیادہ ہے۔

فرض کیجئے آپ یہ اشیا خریدتے ہیں۔ شہد کی شیشی‘ خواہ دو یا اڑھائی سو گرام کی ہو۔ جام یا مارملیڈ کی بوتل۔ ایک پیکٹ سوئیاں یا شیر خورما۔ ایک ڈبہ دلیا یا کارن فلیکس۔ ایک پیکٹ پنیر۔ نمکو کا پیکٹ۔ چند ڈبے بسکٹ کے، دو ڈبے پھلوں کا رس۔ آپ کی جیب سے تو رقم ہر حال میں جانا ہی تھی۔ اس سے اگر میزبان کے گھر والوں کو آرام مل جائے تو کیا بری بات ہے!!

شہروں سے دور‘ قریوں اور بستیوں میں جہاں تہذیب اور عقل دونوں عملی شکل میں کارفرما ہیں‘ لڑکی کی شادی پر اس کے اعزہ ذمہ داریاں تقسیم کر لیتے ہیں۔ تحفہ ماموں نے بھی دینا ہے۔ چچا نے بھی ۔ پھوپھو نے بھی خالہ نے بھی اور سہیلیوں نے بھی۔ دلہن کے گھر سے پوچھ لیتے ہیں کہ کیا کچھ خرید لیاہے اور کیا کچھ ابھی باقی ہے۔ پھر کوئی مسہری تحفے میں دیتا ہے کوئی کھانے کا میز اور کرسیاں۔ ماموں سلائی مشین لے آتا ہے تو چچا کراکری۔

یہ اس رقم کا بہترین استعمال ہے جس نے خرچ بہر طور ہونا تھا اور اس بات کا بہت امکان تھا کہ اللے تللے خرچ ہوتی! لکیر کا فقیر بننے کے بجائے اگر ہم عملیت پسند ہو جائیں اور اپنے رویوں کو فنکشنل کر لیں تو معاشرہ روشن تر صورت اختیار کر سکتا ہے!فرسودہ رسمیں نعمت بھی ثابت ہو سکتی ہیں۔

بشکریہ روزنامہ نائنٹی ٹو


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).